Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی اسلحہ، افغان فورسز اور اسمگلنگ

امتیاز عاصی

ہمارا ملک عشروں سے دہشتگردی کا نہ صرف شکار ہے بلکہ دہشتگردی کے واقعات میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ بہادر افواج کے سپوت جام شہادت نوش کرکے وطن عزیز کی حفاظت کررہے ہیں۔ ہماری تباہی کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب روس نے افغانستان پر جارحیت کی جس کے نتیجہ میں پاکستان کو امریکا کا اتحادی بن کر روس کے خلاف لڑنا پڑا۔ افغانستان میں روسی جارحیت سے مملکت پاکستان کو لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینا پڑی جو وطن واپسی کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ افغان جنگ کے دوران کچھ عرصے تک امریکا اور دیگر ملک پاکستان کو مالی امداد دیتے رہے بعدازاں انہوں نے ہاتھ اٹھا لیا اور پاکستان کو تنہا یہ بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے افغانستان کے ساتھ سمندر نہ ہونے سے افغانستان پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ ستم ظرفی تو یہ ہے ہزاروں افغان پناہ گزیں ایسے ہیں جن کے پاس نہ تو اقوام متحدہ کا پی او آر کارڈ ہیں اور نہ پاکستان کے قومی شناختی کار ڈبلکہ ان کے پاس کوئی دستاویز نہیں وہ مملکت میں کاروبار کررہے ہیں جو ہماری حکومتوں کی بڑی ناکامی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے امریکیوں کا افغانستان میں چھوڑا ہوا اسلحہ ٹی ٹی پی والے پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ امریکی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کے مطابق امریکی افواج اپنا اسلحہ افغان ڈنفیس فورسز کے حوالے کر گئی تھیں۔ گو افغانستان کی حکومت یہ بات بہت موقعوں پر کہہ چکی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ جان کربی کا بیان اپنی جگہ درست ہے تاہم ایک بات واضح ہے کہ طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد افغان فوج تتر بتر ہوگئی تھی، چنانچہ اس صورت میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ یقینی طور پر افغان طالبان کے کنٹرول میں آگیا ہوگا۔ چونکہ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک سکے کے دو رُخ ہیں لہٰذا اس تاثر کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ٹی ٹی پی والے وہی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں جو امریکی افواج نے چھوڑا تھا۔ قابل توجہ بات یہ ہے امریکی افواج وطن واپس جاتے وقت قریباً سات ارب ڈالر کا اسلحہ افغانستان چھوڑ آئے تھے جو اب افغان طالبان کی حکومت اور ٹی ٹی پی دونوں کے پاس ہے۔ یہ حقیقت ہے امریکا کے خلاف جنگ میں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی والوں نے باہم مل کر مقابلہ کیا تو ٹی ٹی پی کو افغان طالبان سے الگ کیسے سمجھا جاسکتا ہے۔ کئی عشرے گزرنے کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب میں رہ رہی ہے۔ جان کربی نے پریس کانفرنس میں واضح کیا امریکا کا افغانستان میں اسلحہ چھوڑنے کا مقصد افغانستان کی حکومت اپنا دفاع خود کرے نہ کہ اسے کسی دوسرے کا سہارا لینا پڑے۔ حیرت ہے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود ڈالر اور چینی کی پاکستان سے اسمگلنگ کا کام جاری ہے جسے روکنے کیلئے کسی حکومت نے آج تک ٹھوس اقدامات نہیں کئے ہیں۔ سرحد پر سیکیورٹی فورسز کی موجودگی کے باوجود ڈالر اور چینی کی اسمگلنگ ہمارے اداروں کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ نگران حکومت نے ڈالر اور چینی کی افغانستان اسمگلنگ روکنے کیلئے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے جس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا آیا نگران حکومت افغانستان اسمگلنگ روکنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ ہماری حکومتوں کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کوئی موثر پالیسی نہ ہونے سے یہ کام رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اب روزانہ چار ہزار بیرل ڈیزل یومیہ ایران سے ہمارے ہاں اسمگل ہورہا ہے تو کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ضمن میں تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مبینہ ملی بھگت کے بغیر اسمگلنگ ناممکن ہے۔ چینی، گندم اور ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ آج کی بات نہیں برسوں سے یہ کام جاری ہے۔ ملک وقوم کی کسی کو فکر ہوتی تو افغانستان میں ان اشیاء کی اسمگلنگ نہیں ہوسکتی تھی، ہوس زر کے پجاریوں نے ملک و قوم کی پروا کئے بغیر اسمگلنگ کا غیرقانونی دھندہ جاری رکھا۔ اس وقت پوری قوم کی نظریں نگران حکومت اور اداروں پر لگی ہوئی ہیں۔ نگران حکومت ڈالر اور چینی کی افغانستان اسمگلنگ روکنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے بہت بڑا کریڈٹ جائے گا۔ نگران حکومت ماضی کی منتخب حکومتوں کی طرح ڈالر اور چینی کی افغانستان اسمگلنگ میں ناکام ہوتی ہے تو یہ کام کبھی رکنے میں نہیں آئے گا۔ چوالیس برس گزرنے کے بعد ابھی تک افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو اِدھر اُدھر جانے کی مکمل آزادی ہے۔ اس کے برعکس ایران میں کئی لاکھ افغان مہاجرین اب بھی موجود ہیں وہ تمام کے تمام مہاجر کیمپوں میں ہیں انہیں کیمپوں سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کیلئے کوئی واضح پالیسی بنانی چاہئے ورنہ افغان باشندے وطن واپسی کا نام نہیں لیں گے۔ سیاسی حکومتوں کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے انہوں نے افغان شہریوں کو کیمپوں سے نکلنے کی آزادی دے کر حالات کو خراب کیا لہٰذا حالات کی خرابی کی ذمہ داری ماضی کی سیاسی حکومتیں ہیں۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے سپہ سالار نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات نہ کرنے کا جو موقف اختیار کیا ہے حکومت اپنے موقف پر قائم رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک میں امن قائم ہوجائے گا اور ٹی ٹی پی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ قوم کو سپہ سالار جنرل عاصم منیر سے امید ہے وہ ملک سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے ٹی ٹی پی کے بارے میں اپنے سخت موقف پر ڈٹے رہیں گے۔ حکومت پاکستان پاک افغان سرحد پر نگرانی سخت کردے تو چینی اور ڈالر کی اسمگلنگ کو ناممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اے کاش ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اداروں میں کام کرنے والے حضرات ڈالر اور چینی کی افغانستان اسمگلنگ روکنے کا مصمم ارادہ کرلیں تو کوئی وجہ نہیں اسمگلنگ کو روکا نہ جاسکے۔

مطلقہ خبریں