نصرت مرزا
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، تاہم لگتا ہے کہ امریکی اعصاب 17 سالہ جنگ کی وجہ سے جواب دے گئے ہیں اور وہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، صرف اس کی یہ خواہش ہے کہ اس نے افغانستان میں جو 9 جدید اڈے بنائے ہوئے ہیں اُن کو طالبان رہنے دیں تو وہ افغانستان سے عملاً نکل جائے گا۔ اصل میں قندھار حملہ جس میں صوبہ قندھار کے فوجی سربراہ عبدالرزاق، اُن کے انٹیلی جنس چیف سمیت کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ساتھ تین امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے، اس نے افغانستان میں امریکی موجودگی کو چیلنج کردیا، اس کے بعد امریکہ نے ہاتھ پاؤں چھوڑ دیئے اور طالبان کا پہلا مطالبہ کہ پہلے اُن کے آٹھ کمانڈرز چھوڑے جائیں، پانچ کمانڈرز کا مطالبہ اُن کا شروع سے تھا بعد میں تین مزید بڑھا دیئے، چنانچہ امریکہ نے زلمے خلیل زاد کو پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی خصوصی نمائندہ اس مینڈیٹ کے ساتھ بنایا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرکے امریکی اور افغان طالبان کے خلاف جنگ بندی کرا دیں، چنانچہ وہ پاکستانی حکام سے آکر ملے اور پاکستان نے مکمل تعاون کا یقین دلایا، اس کے بعد زلمے خلیل زاد کے افغان طالبان سے دوحا اور سعودی عرب میں مذاکرات ہوئے اور پھر امریکہ نے اِن طالبان کمانڈرز کی رہائی کے بدلے میں ایک امریکی فوجی سارجنٹ بووی برگ ڈاہل کی رہائی کی شرط رکھی جو طالبان نے مان لی، چنانچہ تین کمانڈرز پاکستان نے اور پانچ کمانڈرز گوانتاناموبے سے رہا کردیئے ہیں، جن میں محمد فضل سابق آرمی چیف، خیراللہ خیرخواہ سابق گورنر صوبہ ہرات، عبدل واثق ڈپٹی انٹیلی جنس وزیر، ملا نوراللہ نوری معتمد خصوصی، ملا عمر طالبان رہنما اور حکمراں طالبان حکومت اور محمد نبی سابق وزیر مواصلات جبکہ پاکستان نے ملا عبدالغنی برادران، ملا عبدالصمد ثانی اورملا محمد رسول کو، اکتوبر 2018ء کے آخری ہفتے میں رہا کردیئے گئے، کہا جاتا ہے کہ یہ آٹھ کے آٹھ رہا شدہ کمانڈرز دوحا آفس میں موجود ہوں گے اور امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔ یہ رہا شدہ کمانڈرز طالبان کے لئے انتہائی اہم ہیں مگر ملا عبدالغنی برادران ملا عمر کے بعد طالبان کے انتہائی اہم لیڈر مانے جاتے تھے، اس لئے لگتا ہے کہ امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات میں کافی سنجیدہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح افغان جنگ یا ایسے تنازعات سے باہر نکل آئے جہاں امریکی جانوں کو خطرہ ہے، اُس کی ایک وجہ تو امریکہ اپنے ملک کے اندر کی طرف دیکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور دوسرے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کی بنیاد پر اخراجات کو کم سے کم کرنے کا خواہاں ہے۔ امریکی حکام سے کہتے سنے گئے کہ جب بھی کوئی امریکی افغانستان میں مرتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کا اضطراب بڑھ جاتا ہے اور پینٹاگون سے یہی سوال کرتے ہیں کہ امریکی کب تک مارے جاتے رہیں گے، اس سلسلے میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس متحرک ہوئے اور پاکستان کے فوجی حکام نے یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں اگرچہ اُن کی خواہش تھی کہ پاکستان یہ مسئلہ حل کرکے دے، پاکستانی حکام نے مشورہ دیا تھا کہ پاکستان موجودہ حالات میں کسی بھی صورت افغان عوام سے نہیں لڑ سکتا، وہ صرف سہولتیں فراہم کرسکتا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ کچھ افغان طالبان کے خاندان پاکستان میں مقیم ہیں ان کے ذریعے وہ طالبان کو مذاکرات کے لئے راضی کرسکتے ہیں جبکہ امریکی حکام پاکستان پر دباؤ ڈال کر اس کو افغان جنگ میں جھونک دینا چاہتے تھے، پاکستان پر دباؤ بڑھایا گیا اور اُن کی رقم کی ادائیگی بند کردی گئی تاہم پاکستان اپنے موقف پر قائم رہا، 28 اگست 2018ء کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان امریکہ تعلقات کی بحالی میں اپنے مفاد سے صرفِ نظر نہیں کریں گے اور پاکستان امریکہ کی طرف سے دباؤ دھمکی کو برداشت کرتا رہا یہاں تک کہ امریکہ نے پاکستان کے 300 ملین ڈالرز کے واجبات کی ادائیگی نہ ادا کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان اُس کو بھی سہہ گیا، افغانستان میں طالبان کی مزاحمت میں اضافہ ہوا، یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچا جو 26 اکتوبر 2018ء کو امریکہ اور طالبان کے درمیان باقاعدہ گفتگو شروع کرنے کی پہلی شرط 8 مطلوبہ کمانڈرز کی رہائی کے ذریعے پوری کرکے مذاکرات کی راہ ہموار کرلی۔ اب یہ رہا ہونے والے طالبان کمانڈرز قطر کے دفتر میں مذاکرات کے لئے دستیاب ہوں گے جس کا مطلب یہی لیا جارہا ہے کہ امریکہ نے اُن کو رہا کرنے کا تو اعلان کیا ہے مگر ان کو قطر میں اپنی حفاظتی قبضہ میں رکھے گا کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور شرط کے مطابق طالبان اپنے پاس قید امریکی فوجی کو رہا نہ کردیں۔ ہمارے نزدیک مذاکرات کی کامیابی کا انحصار شاید اس بات پر ہو کہ طالبان امریکہ کے 9 اڈے افغانستان کی سرزمین پر چھ سے دس ہزار فوجی رکھنے پر راضی ہوجائے یا امریکہ طالبان کی بات مان کر افغانستان سے اپنے فوجی اڈے ختم کردے۔ اگرچہ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ امریکہ اڈے خالی کرے اور امریکہ یہ چاہتا ہے کہ طالبان قائم شدہ اڈوں پر امریکی فوج کی موجودگی قبول کرلیں۔ دونوں میں سے کسی ایک کے اپنے موقف سے دستبردار کی صورت میں مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں، امریکہ میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ 17 برسوں کی جنگ میں امریکہ کے اعصاب شیل ہوگئے ہیں اور وہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے، یہ بات وہاں کے باخبر صحافی اور کالم نگار واضح طور پر لکھ رہے ہیں جو کہ وہاں کے معروف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں، دوسرے امریکہ اس وقت ہر دوست حکومت سے کہہ رہا ہے کہ وہ امریکہ پر انحصار کم کرے اور خود اپنی حفاظت کا انتظام کرے، اس کے یہ معنی لئے جاسکتے ہیں کہ امریکہ اپنے عالمی کردار سے دستبردار ہورہا ہے یا پھر یہ اس کا وقتی موقف ہے، اُسے معاملات کو سنبھالنے کے لئے کچھ وقت چاہئے، اس وقت امریکہ اپنے ملک کے حالات کو سنبھالنے میں لگا ہوا ہے، وہ ایک طرح سے سفید فام حکومت کو قیام کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے، وہاں یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ امریکہ پہلی عالمی جنگ کی طرح تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔ جیسے یورپ میں اُن کے خلاف کافی ناراضگی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ امریکہ نے ’’نیٹو‘‘ یورپ کو روس کے خطرے سے بچانے کے لئے بنائی تھی، اب امریکہ نے یورپی ممالک پر واضح کردیا ہے کہ ہر ملک اپنی حفاظت خود کرے جس کی وجہ سے یورپ کے ممالک کافی پریشان ہیں، کہا جارہا ہے کہ نیٹو اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے اور وہ ٹوٹنے جارہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یورپی ممالک نے نیٹو کے حفاظتی حصار میں اپنی معیشت کو ترقی دے لی ہے اور امریکہ کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے امریکی صدر بار بار کہہ رہے ہیں جس ملک کو بھی امریکہ کی حفاظتی حصار کی ضرورت ہو وہ اس کی قیمت ادا کرے، دوسرے امریکہ ایران کے خلاف پابندیوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے خفا ہے کیونکہ وہ پی5+1 ایران معاہدہ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کہ اِن ممالک کے ایران سے مفادات وابستہ ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ یہ معاہدہ ختم ہو۔ دوسری طرف امریکہ نے روس کے ساتھ (آئیاین ایف) ایٹمی معاہدہ کو ختم کردیا ہے، جس کا مطلب امریکہ کا ایٹمی معاملات میں توجہ دینا بتلایا جارہا ہے، شاید اُس کی وجہ روس کی اسلحہ میں بڑھتی ہوئی طاقت اور امریکہ کی جواباً کمی کا محسوس ہونے سے لگایا جاسکتا ہے، ایسی صورت میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ افغان طالبان مذاکرات میں شاید وہ امریکہ کے اڈے ختم کرنے کی شرط اس طرح مان لے کہ اگر افغان طالبان اِن اڈوں کو دس سال تک قائم رہنے دیں۔