Tuesday, December 3, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا کی بھارت اور چین کو وارننگ بے اثر

ظفر محی الدین
امریکی صدر جوبائیڈن نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ روس پر پابندیوں کے باوجود تیل اور قدرتی گیس کے معاہدے شدید خلاف ورزی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ بھارت فیصلہ کرلے کہ وہ تاریخ کے کس جانب کھڑا ہے، امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس سے ایسا ہی بیان چین کے لئے بھی جاری کیا ہے جس میں چین سے کہا گیا ہے کہ وہ تاریخ کی درست سمت کا تعین کرلے

روس کی یوکرین میں شروع کردہ جنگ روس کی توقعات کے برعکس طول پکڑتی جارہی ہے، ایسے میں روسی معیشت جو پہلے ہی مسائل کا شکار تھی اب جنگ کی وجہ سے امریکا، یورپی ممالک و دیگر کی جانب سے عائد سخت اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے مزید نڈھال ہوچکی ہے۔ یورپی یونین اور نیٹو کی حالیہ عائد کردہ پابندیوں کے باوجود کچھ یورپی ممالک روس سے بدستور تیل اور گیس خرید رہے ہیں۔ دوسری جانب روس اور بھارت کے تعلقات بھارت کی آزادی کے بعد سے چلے آرہے ہیں۔ بھارت سرد جنگ کے دور میں غیروابستہ تحریک کا رُوح رواں تھا اور سب سے دوستی مگر یکطرفہ داری کا قائل نہ تھا۔ اس دور میں بھارت روس سے اسلحہ خریدتا رہا۔ 1969ء میں روس بھارت معاہدہ ہوا۔ مزید اسلحہ خریدا گیا۔ اس حوالے سے بھارت کے بقول اس کی مجبوری اور ضرورت ہے کہ روس سے تعلقات برقرار رکھے تا کہ پرانے روسی اسلحہ کو اَپ ڈیٹ کرنے، اضافی پرزوں کی خریداری کرنے میں دشواری نہ ہو۔ اس طرح روس کی یہ ضرورت ہے کہ بھارت کے اس نرم گوشہ کو استعمال کیا جائے، ایسے میں روس نے بھارت کو پیشکش کی ہے کہ وہ عالمی منڈی میں خام تیل کی فی بیرل قیمت میں نسبتاً پچیس ڈالر فی بیرل ڈسکاؤنٹ دوں گا۔ ظاہر ہے روس کی یہ پیشکش بھارت کے لئے غیرمعمولی تھی۔ واضح رہے کہ بھارت دُنیا کا دوسرا بڑا تیل کا امپورٹر ہے پہلا چین ہے۔ بھارت آئل کمپنی کے ذرائع کے مطابق بھارت کو 60 تا 70 ہزار ملین بیرل تیل کی ضرورت ہے، مگر یکمشت اتنا تیل خریدنے پر بڑا واویلا مچ جاتا اس لئے بھارت نے آٹھ آٹھ، دس دس ہزار ملین بیرل کی خریداری کا سلسلہ شروع کیا اور نقد ادائیگی بھی شروع کردی۔ روس کے لئے ان حالات میں یہ ایک طرح کا تھوڑا سہی مگر ریلیف مل گیا۔ اس تناظر میں حال ہی میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان میں صدر جوبائیڈن نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ روس پر پابندیوں کے باوجود تیل اور قدرتی گیس کے معاہدے شدید خلاف ورزی ہے۔ بیان میں یہ تک کہا گیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت فیصلہ کرلے کہ وہ تاریخ کے کس جانب کھڑا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں بھارت روس آئل گیس ڈیل پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے جبکہ بھارت بی جے پی مخالف سیاسی دھڑے وزیراعظم نریندر مودی پر شدید تنقید کررہے ہیں کہ وہ روس جیسے بوڑھے گھوڑے پر کیوں اسٹیک لگا رہے ہیں جبکہ دُنیا روس کے خلاف ہے۔ روس پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ ایسے وقت پر روس کے ساتھ ڈیل کرنا، تیل کی خریداری کرنا ناقابل فہم ہے۔ امریکا نیٹو ممالک، آسٹریلیا اور جاپان بھی روس پر پابندیوں کی ہر طرح سے حمایت کررہے ہیں اور اس پر عمل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر بھارت کی اس موقع پر یہ پالیسی اس کو ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ مغربی ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر روس اور بھارت کی جاری پالیسی مزید آگے بڑھتی ہے اور تعلقات مزید گہرے ہوتے ہیں تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ یہ پیرا ڈائم شیفٹ ہے۔ مشرق ادھر اور مغرب ادھر۔ امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس سے ایسا ہی بیان چین کے لئے بھی جاری کیا ہے جس میں چین سے کہا گیا ہے کہ وہ تاریخ کی درست سمت کا تعین کرلے۔ اس مشورہ یا انتباہ پر چین کے صدر شی جن پنگ نے وائٹ ہاؤس کو جواب دیا ہے کہ چین نے ہمیشہ جنگ و جدل، استحصال اور جارحیت کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ روس کی سلامتی کا مسئلہ تھا جس کو مذاکرات سے حل کیا جا سکتا تھا مگر یوکرین کی حکومت نے روس کو مطمئن نہیں کیا۔ چینی وزیرخارجہ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ کیا کرنا چاہئے۔ چین نے روس کی حمایت کی ہے تو اس کی سلامتی کے مسئلے پر کی ہے۔ نیٹو کو روس سے بات کرنا چاہئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر وائٹ ہاؤس میں خاصی افراتفری پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف امریکی نائب صدر کملا ہیرس یورپی ممالک کے دورے سے واپس آ چکی ہیں۔ نیٹو کے بعض ممالک کو تشویش ہے کہ روس نے اپنے جوہری اسلحہ خانہ سے سپر سونک میزائل نکال کر انہیں پولینڈ، یوکرین کے قریب سرحدوں پر نصب کر دیئے ہیں، مگر بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ محض دکھانے اور دھمکی کی حد تک ہیں، روس ان میزائل کو استعمال نہیں کرے گا۔ امریکا نے پولینڈ کی سرحد پر اپنے میزائل نصب کر دیئے ہیں اور اس کی پچاس ہزار فوج پولینڈ میں بیٹھی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نیٹو کو امریکا کی موجودگی کا احساس دلایا جائے اور روس کو مزید کسی ملک کے خلاف فوجی مہم جوئی سے باز رکھا جا سکے۔ اب جبکہ امریکا نے بھارت سمیت چین کو بھی تاریخ کے درست رُخ پر کھڑے ہونے کی وارننگ یا تاکید کردی ہے تو یہ محض ایک بیان ہے جو امریکی صدر نے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے دیا ہے۔ درحقیقت امریکا کی پریشانی یہ ہے کہ اس کا پرانا تجربہ کار عالمی حریف ایک بار پھر عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پَر تول رہا ہے جبکہ پہلے ہی امریکا ایشیا میں چین کی مسلسل بڑھتی معاشی اور دفاعی قوت پر تشویش میں مبتلا ہے۔ پھر چین کے پاس اتنی امکانی قوت ہے کہ وہ معاشی طور پر روس کی خاصی مدد کرسکتا ہے اور اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کو بڑی حد تک بے اَثر کرسکتا ہے۔ ایسے میں بھارت اور روس کی تیل گیس کی خریداری کی ڈیل امریکا کے لئے یقیناً باعث تشویش ہے بلکہ علامتی طور پر دیکھا جائے تو روس، چین اور بھارت بالفرض ایک صف میں کھڑے ہوجائیں تو طاقت کا توازن مشرق کے پلڑے میں آن گرے گا۔ ہرچند کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا مگر سیاست میں اور خاص طور پر عالمی سیاست میں ہر آن تبدیلی کا امکان رہتا ہے۔ اس مفروضہ کو رَدّ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حقیقت پسندی سے غور کیا جائے تو درحقیقت امریکا کسی طور پر بھی یہ نہیں چاہتا کہ بھارت خطّے میں دوسرا چین بن کر اُبھرے۔ اگر بھارت کے کچھ حلقے امریکا کو بھارت کا مخلص دوست، ساتھی سپرپاور تصوّر کرتے ہیں تو غلط سوچتے ہیں۔ یاد رکھیں بھارت کی چاند گاڑی جب پچیس کلومیٹر دور تھی تو کس ملک کے بڑے خلائی ادارے نے اس کا رابطہ منقطع کیا تھا۔ امریکا کے نزدیک بھارت کی اہمیت محض چین کی وجہ سے ہے۔ اگر کبھی چین امریکا تنازع بن گیا تو اس وقت بھارت ایک حد تک امریکا کے کام آ سکتا ہے، مگر بھارتی بھی اتنے سادہ نہیں ہیں انہوں نے چین سے باوجود سرحدی تنازعات کے تجارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ بھارت اور چین کے مابین سالانہ ایک سو بیس ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہوتی ہے۔ دونوں ممالک تجارتی معاملات میں حساس ہیں۔ بھارت کے وزیر برائے پیٹرولیم کا کہنا ہے کہ امریکا ہمیں روس سے تیل کی خریداری پر وارننگ دے رہا ہے جبکہ یورپی یونین کے بیشتر ممالک روس سے تیل خرید رہے ہیں، اس جانب سے امریکا نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت 70 فیصد سے زائد اپنے تیل کی ضروریات عالمی منڈی سے تیل کی خریداری کر کے پوری کرتا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ کی وضاحت کے بعد برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ نے بھی ایک بیان میں بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ روس سے تیل کی خریداری کا کوئی معاہدہ نہ کرے۔ امریکا کے بعد برطانیہ کی طرف سے بھی دباؤ آ رہا ہے کہ فیصلہ کرے کہ وہ کس طرف کھڑا ہے۔ بھارت کے آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی جدید تاریخ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سپر پاورز کسی کی دوست نہیں ہوتی ہیں، وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی اَسیر ہوتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 1962ء میں چین نے اچانک بھارت کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی تب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے روس کے وزیراعظم کو خط ارسال کیا تھا کہ اس موقع پر بھارت کی مدد کی جائے مگر روسی وزیراعظم نیکتاخروشیف نے بھارت کی درخواست مسترد کردی تھی۔ بھارتی وزیراعظم پر اس وقت فالج کا حملہ ہوا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہند چین بھائی بھائی کے نعرے ہر طرف لگتے رہے اور اب یہ کیا ہے۔ اس کے باوجود بھارت اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی رہی، عالمی سیاست کی یہ پیچیدگیاں اور ان کی گتھیاں تاحال اُلجھتی جا رہی ہیں۔ امریکا ابتدا ہی سے بھارت کی غیروابستہ تحریک کا مخالف رہا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے روس امریکا دو سپر پاورز میں کسی ایک کے ساتھ جانے کے بجائے غیروابستہ تحریک کی بنیاد رکھی تھی کہ سب سے دوستی کسی کے ساتھ وابستگی نہیں۔ اس تحریک میں انڈونیشیا کے سوئیکارنو، یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو اور مصر کے صدر جمال ناصر نے بھی شرکت کرلی اور یہ ایک نیا تیسرا بلاک بن کر اُبھرا تھا۔ بھارت کو اس پالیسی سے ایک عرصے بعد بہت فائدہ ہوا اور اب بھارت چوتھی بڑی معاشی قوت بن کر اُبھر رہا ہے۔ واضح رہے کہ قوموں کی سیاسی زندگی میں آزاد خارجہ پالیسی کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ ماضی بعید اور ماضی قریب میں امریکا کی گن بوٹ پالیسی نے دُنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ خاص طور پر بعداَز دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سرد جنگ کے دور میں امریکا کے انتہاپسند سینیٹر میکارتھی نے اپنی انتہاپسند پالیسی کو امریکی سیاست میں داخل کر کے جنوب امریکی ممالک، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں فوجی آمرانہ حکومتوں کے قیام کی مہم چلائی، جمہوریت پسند، لبرل حلقوں کو بُری طرح کچل دیا گیا۔ طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے دُنیا میں یونیورسٹیز کو شہر سے زیادہ سے زیادہ دور قائم کرنے کا نظریہ دیا۔ میکارتھی اَزم کی وجہ سے خود امریکا میں رنگدار نسل افراد پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ نسلی امتیاز کے خلاف تحریکیوں کو کمیونسٹوں کی سازشیں قرار دیا جاتا رہا۔ مارٹن لوتھر کنگ کا قتل کیا گیا۔ اب آج کی دُنیا میں امریکی صدر کا بھارت اور چین کو روس سے تجارت نہ کرنے کا مشورہ ناقابل فہم لگتا ہے۔ یہ کھلا راز ہے کہ دُنیا کی سیاست کا تمام دارومدار معیشت پر استوار ہے۔ ملکوں کی خوشحالی، دوستی، دوطرفہ تعلقات یا تنازعات کی بنیاد اقتصادیات ہے، معاشیات ہے، اب جبکہ بھارت کی سالانہ آمدنی گیارہ ٹریلین سے تجاوز کرچکی ہے اور تجارت میں چین کے بعد دوسرا حصہ بھارت کا ہے۔ ایسے میں امریکا کی جانب سے بھارت کو وارننگ جاری کرنا لاحاصل کوشش ہے۔ امریکا کے پالیسی ساز اداروں اور ان کے قانونی ذمہ داروں کو اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے بزرگوں سے کہاں غلطیاں ہوئی ہیں ان کو درست کیا جائے۔ ترقّی پذیر ممالک ایک بڑی بکھری ہوئی قوت ہے، ان ممالک کے بنیادی مسائل ہیں ان کی ان مسائل کو حل کرنے میں مدد کی جائے۔ خصوصاً اب جبکہ دنیا ماحولیات اور موسمی تغیرات کے اس دور میں نت نئے مسائل اور مصائب سے دوچار ہیں ان کی مدد کی جائے۔ یورپ نازک حالات سے گزر رہا ہے وہاں یوکرین کو روس سے مذاکرات کر کے معاملات کو حل کیا جائے۔ نیٹو یوکرین کو قربانی کا بکرا نہ بنائے ورنہ روس مزید پیش قدمی کرسکتا ہے۔ نیٹو اس کو روک نہیں سکتا۔ اقتصادی پابندیوں کو چین نے بے اَثر ثابت کر دیا ہے۔

مطلقہ خبریں