Friday, June 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا میں معاشی ناہمواری

روشن لعل

ریاست ہائے متحدہ امریکا بلاشبہ اس وقت بھی دنیا کی سب سے بڑی معاشی، صنعتی اور فوجی طاقت ہے۔ 50 ریاستوں میں تقسیم، 326991000 آبادی اور 9.834 ملین مربع میل رقبہ پر مشتمل دنیا کے اس طاقتور ترین ملک کی مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی 19.42 ٹریلین ڈالر، فی کس آمدن 57,466 ڈالر، جی ڈی پی کی سالانہ شرح ترقی 1.6 فی صد، کم از کم معاوضہ 7.25 ڈالر فی گھنٹہ اور بے روزگاری کی شرح 4.3 فی صد ہے۔ مذکورہ معاشی اشاریوں اور دنیا کی مجموعی کے پیداوار کے 25 فیصد پر قابض اس ملک کی خاص بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے وہاں عام لوگوں میں معاشی ناہمواری کا احساس تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ اس وجہ سے ہی امریکا کی کئی یونیورسٹیوں میں معاشی ناہمواری کو تحقیقی مقالہ جات کا موضوع بنایا جا رہا ہے۔
گو کہ امریکا میں کم از کم معاوضہ کی حد 7.25 ڈالر فی گھنٹہ ہے مگر وہاں 10 ڈالر فی گھنٹہ سے کم معاوضہ حاصل کرنے والوں کی زندگی کو ریاست کے اپنے طے کردہ غربت کے معیار سے نیچے تصور کیا جاتا ہے۔ امریکی ریاست کے اپنے شہریوں کے لئے قائم کردہ غربت کے معیار کے مطابق اگر 4 افراد پر مشتمل کسی کنبہ کی سالانہ آمدن 20,614 ڈالر سے کم ہو تو اس خاندان کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2006ء میں 10 ڈالر فی گھنٹہ سے کم آمدن کے حامل کارکنوں کی تعداد 33 ملین تک تھی۔ اسی تحقیقی مقالہ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ 2000ء سے 2006ء کے دوران امریکا کے طے کردہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ اس امر کو اس لئے حیران کن تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ جس دوران وہاں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اسی دوران پیداوار میں 15 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ محققین کے مطابق پیداوار میں افرائش کے باوجود خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اس لئے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ وہاں بالائی 10 فی صد کل آمدن کا 50 فیصد اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں اور بقایا 50 فیصد 90 فیصد لوگوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ بالائی دس فیصد میں بھی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے کہ کل آمدن کا 20 فیصد صرف ایک فیصد لوگ اور باقی 30 فیصد 9 فیصد لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ کل آمدن میں اس طرح کی حصہ داری کی وجہ سے وہاں سال 1979ء سے 2007ء کے دوران بالائی ایک فیصد لوگوں کی آمدن میں 275 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جن برسوں کے دوران وہاں بالائی ایک فیصد کی آمدن میں ہوشربا اضافہ ہوا اس دوران اوپر والے 20 فیصد لوگوں کی آمدن 65 فیصد بڑھی جبکہ آخری 20 فیصد لوگوں کو صرف 18 فیصد اضافے پر اکتفا کرنا پڑا۔
قومی آمدن کی حصہ داری میں اس عدم توازن کی وجہ سے عام امریکیوں کا معیار زندگی متاثر ہورہا ہے۔ وہاں ملازمتوں کی بیرون ملک منتقلی، چین میں انتہائی کم معاوضے پر ہنر مندوں کی دستیابی اور شرح مبادلہ کے غیر منصفانہ تناسب کو قومی آمدن کی غیرمساوی تقسیم کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے عام لوگ کاروباری اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی ترجیح کارکن نہیں بلکہ اپنے منافع کا حصول ہے۔ اس موقف کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ کاروباری دنیا میں سب سے اہم بات دوسروں سے مسابقت کی دوڑ میں آگے رہنے کی کوشش ہے۔ امریکی اداروں کو اس وقت ان کم قیمت اشیائے صرف سے مسابقت کا سامنا ہے جو امریکیوں کی نسبت انتہائی کم اجرت پر کام کرنے والے چینی اور بھارتی کارکنوں کی تیار کردہ ہیں۔ اس مسابقت کی وجہ سے کئی امریکی کمپنیوں کو اپنی ہائی ٹیک اور پیداواری ملازمتیں ایسے خطوں میں منتقل کرنا پڑی ہیں جہاں انہیں کم سے کم اجرت پر خدمات فراہم کرنے والے دستیاب ہوسکتے ہوں۔ یوں سال 2000ء کے بعد امریکا کے کاروباری اداروں کی ملازمتوں میں 20 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر امریکا میں مقرر شدہ اس کم ترین اجرت کی حد پر کام کرنے والوں کی شرح فیصد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کم ترین اجرت کو بیرونی دنیا کے مقابلے میں اب بھی زیادہ سمجھا جا رہا ہے۔
امریکا میں قومی آمدن کی تقسیم کے عدم توازن کے خلاف اس کے متاثرین کا احساس اپنی جگہ اہم ہے مگر کچھ ماہرین معاشیات اس عمل کو عالمی معیشت کے تبدیل شدہ رجحانات کا نتیجہ اور موجودہ حالات میں ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں کارکنوں کی آمدن کا حصہ اس لئے کم ہو رہا ہے کیونکہ تیزی سے ترقی پذیر معیشتوں میں سے برازیل، چائنہ اور انڈیا جیسے ممالک عالمی منڈی میں ترقی یافتہ معاشی طاقتوں کے مضبوط حریف ہی نہیں بہترین ساجھے دار بن کر بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان ترقی پذیر معیشتوں کے ہنر مند اور پیشہ ور افراد معیار اور تعلیم کے اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کی افرادی قوت کے ہم پلہ ہونے کے باوجود ان کے مقابلے انتہائی کم اجرت پر اپنی خدمات فراہم کرنے کے لئے دستیاب ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں عالمی معیشت کے تبدیل شدہ رجحانات کے بعد بھی بڑے بڑے سرمایہ کاروں (ایٹریپرینورس) کا تعلق تو اب بھی ترقی یافتہ دنیا سے ہے جس کے باعث ان کی آمدن اور اثاثوں میں اضافہ حسب سابق ہے۔ مگر ان کی کاروباری سرگرمیوں کی امریکا اور یورپی ملکوں سے ایشیا اور لاطینی امریکا منتقلی کے بعد چین، برازیل اور انڈیا جیسے ملکوں میں روزگار کے مواقع میں اضافہ اور ان ملکوں میں کمی واقع ہوئی ہے جو ان سرمایہ داروں کے اپنے ملک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے قبضے میں دنیا کی چالیس فیصد دولت ہے اور اس میں پوری دنیا کے مقابلے میں صرف امریکی امیروں کا حصہ 25 فیصد ہے۔
امریکا ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں پر عوام کے منتخب حکمرانوں کو سرمایہ دارانہ مفادات کا سب سے بڑا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی معیشت کے رجحانات کی تبدیلی سے قبل امریکی عوام میں اپنی آمدن اور حالیہ بڑھتی ہوئی تفریق کے متعلق کوئی اضطراب موجود نہیں تھا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب امریکی حکمرانوں سے انہیں منتخب کرنے والے عوام کا مطالبہ ہے کہ حسب سابق ان کے معاشی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ مفادات کا ٹھیکیداروں سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ کماحقہ ایسے اقدامات کر پائیں کہ جس سے امریکی عوام کا اضطراب ختم یا کم ہوسکے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے بعض لوگ امریکی عوام کے اضطراب میں سے سوشلزم برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مناسب سوچ نہیں ہے۔ سوشلسٹوں کا تو ہمیشہ سے نعرہ ہے کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ مگر امریکی عوام کا یہ نعرہ ہرگز نہیں۔ وہ اس وقت عالمی سطح پر معاشی و سماجی انصاف نہیں بلکہ اپنے لئے عالمی معیشت کے تبدیل شدہ رجحانات سے پہلے کا دور واپس چاہتے ہیں۔

مطلقہ خبریں