محسن فارانی
امریکا ایک صدی سے عالمی جنگی سیاست میں بْری طرح ملوث ہے۔ اس دوران میں اس نے دو عالمی جنگیں جیتیں اور اپنے اتحادیوں کی مدد کرتے ہوئے جرمنی اور اس کے معاہد ملکوں اٹلی اور جاپان کو شکست سے دوچار کیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا سپر طاقت بن کر مقابل سپر طاقت سوویت روس کے خلاف سرد جنگ میں الجھ گیا۔ اگلی نصف صدی میں امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ تو نہ ہوا، تاہم اس دوران میں امریکا نے جنگ کوریا (1950ء تا 1953ء) لڑ کر جنوبی کوریا کو بچا لیا ورنہ شمالی کوریا کا کمونسٹ حکمران کم ال سنگ اسے نگل جاتا جسے روس اور کمونسٹ چین کی حمایت حاصل تھی۔ اس جنگ میں 48 ہزار امریکی مارے گئے جن میں سے سات ہزار سات سو ہنوز ’’مسنگ‘‘ ہیں۔ اگلی دہائی میں امریکا نے جنوبی ویت نام کو کمونسٹ شمالی ویت نام کی جارحیت سے بچانے کا عزم باندھا جس میں اسے شرمناک ناکامی ہوئی۔ جنگ ویت نام (1965ء تا 1975ء) نے 58 ہزار امریکیوں کی جانیں لے لیں مگر جنوبی ویت نام کو بچایا نہ جا سکا۔ 30 اپریل 1975ء کو جنگ ختم ہوئی تو جنوبی ویت نام شمالی ویت نام میں ضم ہوچکا تھا اور جنوبی ویت نام کے دارالحکومت سائیگون (موجودہ ہوچی منہ سٹی) کے امریکی سفارتخانے کی چھت پر سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سفارتی عملہ نکالنا پڑا تھا۔
اس دوران میں روسی افواج براہ راست کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئی تھیں اگرچہ روسی امداد کانگو وغیرہ کی خانہ جنگیوں میں کارفرما رہی۔ پھر دسمبر 1979ء میں بوڑھے روسی آمر لیونیڈ برزنیف کی حماقت سے روسی افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں اور امریکا کو یہاں ویت نام کا بدلہ چکانے کا موقع مل گیا۔ امریکی صدر رونلڈ ریگن نے پاکستانی آئی ایس آئی کی وساطت سے افغان مجاہدین کی بھرپور مدد کر کے انہیں سپر طاقت روس کے مقابل کھڑے کردیا، نیز عالم اسلام سے آنے والے مجاہدین بھی افغانیوں کے مددگار بن گئے، انہی میں اسامہ بن لادن بھی تھے۔ ستمبر 1986ء سے مجاہدین کندھے پر رکھے امریکی اسٹنگر میزائلوں سے لیس ہو کر ہلاکت خیز روسی گن شپ ہیلی کاپٹروں کا ’’تلیئروں‘‘ کی طرح شکار کرنے لگے تو روسیوں کا سرِ پر غرور زمین پر آ رہا، سوویت روس کے آخری حکمران گورباچوف نے امریکی صدر ریگن کے گھٹنے پکڑ لیے اور افغانستان سے محفوظ فوجی انخلا کی طلب کی۔ دونوں سپر طاقتوں میں خفیہ معاہدہ ہوگیا اور آخرکار امریکا نے پاکستان کی جونیجو حکومت پر دباؤ ڈال کر اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدہ کرا دیا جس میں مجاہدین شامل نہ تھے۔ یہ معاہدہ روس، پاکستان اور امریکا کے مابین ہوا تھا۔ پاکستانی وزیرخارجہ زین نورانی جنیوا معاہدے پر دستخط کر آئے جبکہ صدرِ مملکت جنرل ضیاء الحق مجاہدین کی قیادت کو باقاعدہ اقتدار منتقل کرانے کے بعد روسیوں کو محفوظ انخلا کا راستہ دینے کے حق میں تھے لیکن امریکا کا مقصد پورا ہوچکا تھا اور اب اسے کابل میں مجاہدین کی مستحکم حکومت کا قیام کسی طور گوارا نہ تھا۔ اس معاہدے کو صدر ضیاء الحق نے مسترد کرتے ہوئے ’’کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے تھے۔
معاہدہ جنیوا کے مطابق سوویت روس کی افواج 15 فروری 1989ء تک افغانستان سے نکل گئیں اور تین سال بعد اپریل 1992ء میں کابل کی روسی کٹھ پتلی نجیب اللہ حکومت مجاہدین کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔ مجاہد لیڈر صبغت اللہ مجددی تین ماہ کے لئے افغانستان کے رئیس (صدر) بنے، پھر 6 ماہ بعد ان کی جگہ جمعیت اسلامی کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی صدر ٹھہرے۔ ان کی صدارت 4 سال رہی۔ اس دوران میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدن حکمتیار وزیراعظم بنے مگر پھر جمعیت اسلامی کے کمانڈر احمد شاہ مسعود اور حکمتیار میں شخصی تصادم نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی۔ ملک میں بدنظمی بڑھی تو مجاہدین کا ایک گروہ قندھار سے ’’طالبان‘‘ کے نام سے اٹھا۔ دینی مدارس کے طلبہ (طالبان) نے 1995-96ء میں ملا عمر کی قیادت میں منظم ہو کر پہلے قندھار اور پھر کابل پر قبضہ کرلیا لیکن طالبان کی سخت گیر حکومت امریکا کے نزدیک سخت ناپسندیدہ تھی۔ ادھر شمالی افغانستان میں مزار شریف کے وار لارڈ عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود نے طالبان کے خلاف ’’شمالی اتحاد‘‘ قائم کرلیا تھا جس میں گلم جم ملیشیا، وسطی افغانستان کے ہزارہ شیعہ اور جمعیت اسلامی کے جنگجو شامل تھے۔ دوسری طرف امریکا طالبان حکومت کے خاتمے کے درپے تھا۔ اگست 1998ء میں جبکہ واشنگٹن میں صدر بل کلنٹن حکمران تھے، امریکی بحریہ نے بحیرہ عرب سے افغانستان پر 70 میزائل داغ دیئے جن میں سے بعض راستے میں پاکستانی بلوچستان میں گرے۔ یہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی تھی۔ 1996ء میں نام نہاد ’’القاعدہ‘‘ کے سربراہ اسامہ بن لادن جو سوڈان میں مقیم ہوچکے تھے، طالبان کی دعوت پر خرطوم سے افغانستان چلے آئے تھے۔
پھر 11 ستمبر 2001ء کو سانحہ نائن الیون میں تقریباً 2800 امریکی مارے گئے تو امریکا نے اس کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈالتے ہوئے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ لیکن طالبان اپنے اس مہمان کو دشمن کے حوالے کرنے پر تیار نہ ہوئے کیونکہ امریکیوں نے کسی عالمی فورم پر سانحہ نائن الیون میں اسامہ کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش نہ کئے تھے۔ نائن الیون سے دو دن پہلے احمد شاہ مسعود انٹرویو دیتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر بم دھماکے سے شہید ہوگئے تھے۔ اب امریکا نے پاکستانی حکمران جنرل پرویز مشرف کو دھمکا کر ان کا تعاون حاصل کیا، برطانیہ اور فرانس کو ساتھ ملایا اور ان تینوں اتحادیوں نے 7 اکتوبر سے افغانستان پر بمبار طیاروں اور میزائلوں سے تباہی مچا دی، دوسری طرف شمال سے امریکی فوج شمالی اتحاد کی معیت میں حملہ آور ہوئی۔ 9 نومبر کو مزار شریف اور 13 نومبر کو کابل پر امریکی قابض ہوگئے۔ طالبان قندھار کی طرف سمٹ آئے حتیٰ کہ 6 دسمبر 2001ء کو امریکی اتحادیوں نے قندھار پر بھی قبضہ کرلیا اور طالبان قیادت اور ’’امیر المومنین‘‘ ملا محمد عمر روپوش ہوگئے۔
امریکا افغانستان کی جنگ میں 17 سال سے’’ گرفتار‘‘ ہے۔ یہ ڈھائی سو سالہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے۔ لاکھوں افغانیوں اور ہزاروں امریکیوں کی ہلاکت کے بعد اب امریکا افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے مگر یہ کمبل اسے نہیں چھوڑ رہا۔ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگی جا رہی ہے مگر ان کی ایک ہی شرط ہے کہ غیرملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں۔ صدر اوباما اور پھر صدر ٹرمپ جنگ افغانستان کو ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ برسراقتدار آئے مگر دونوں ناکام رہے ہیں۔ امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی کی حکومت دارالحکومت کابل میں بھی محفوظ نہیں۔ برسوں پہلے ایک طالبان کمانڈر نے ایک امریکی صحافی کی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’گھڑیاں تمہارے پاس ہیں اور وقت ہمارے پاس ہے۔‘‘ اس کمانڈر کی بات سچ تھی۔ طالبان نے دھیرے دھیرے امریکیوں کو زخم دیئے ہیں جو رستے جا رہے ہیں۔ افغانستان کو بجا طور پر ’’سلطنتوں کا قبرستان‘‘ کہا گیا ہے۔ سلطنت برطانیہ افغانستان میں 1839-42، 1877-78ء اور 1919ء میں تین جنگیں لڑ کر ناکام رہی تھی۔ سوویت روس (یو ایس ایس آر) کی افواج قاہرہ 9 سال ڈیڑھ ماہ افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکراتی رہیں اور خائب وخاسر ہو کر آمو پار چلی گئیں اور اس کے نتیجے میں یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلکس کے 15 ٹکڑے ہوگئے اور روسی کمیونزم کی توسیع پسندی اپنی موت آپ مر گئی۔ اب امریکا شکست کی ذلت سے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جبکہ شکست تو ہوچکی اور آرلنگٹن کے قبرستان میں مردار امریکی فوجیوں کی قبریں بڑھتی جا رہی ہیں۔
گزشتہ ماہ دوحہ (قطر) میں امریکی سفارت کارہ ایلس ویلز کی قیادت میں ایک وفد نے طالبان نمائندوں سے ملاقات کی جبکہ افغانستان اور امارات میں بھی ایسی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ ملاقاتیں امریکا کی اس دیرینہ پالیسی کے برعکس ہوئی ہیں جو طالبان سے براہ راست مذاکرات نہ کرنے پر مبنی تھیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کے بقول ’’حقیقت یہ ہے کہ لوگ تنگ آ چکے ہیں اور گزشتہ جنگ بندی کو ستائش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘‘ جوکہ گزشتہ عیدالفطر کے موقع پر عمل میں آئی تھی اور اب امریکا اور حکومت کابل عیدالاضحی کے بعد بھی طالبان کے ساتھ نئی جنگ بندی کی کوششیں کررہے ہیں۔