Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا۔۔اسرائیل کا موید و پشت پناہ

اسرائیل خود اور یہود بحیثیت قوم دنیا میں امیرترین ہیں، امریکا میں اپنے اثر و رسوخ کو جمانے کیلئے یہودی امریکی انتخابات میں خوب چندہ دیتے ہیں، ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکن، سبھی اسرائیل کی جیب میں ہیں
عامرہ احسان

امریکا کا کردار، فلسطینی المیے اور اسرائیل کی پشت پناہی کے حوالے سے جان سمجھ لینے کے بعد آنے والے ادوار میں اس کے عالمی عزائم بھانپ لینا چنداں دشوار نہیں۔ اقوام عالم کی سربراہی اور مسلم ممالک کو اپنی مٹھی میں رکھنے کی پالیسی میں گزشتہ 20 سالہ تاریخ ہی بہت کافی ہے اگر کوئی سمجھنا چاہے!
اسرائیل کی عملی سرپرستی امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع کی۔ جنگوں میں یورپ کی کمر ٹوٹ گئی۔ خلافت عثمانیہ توڑ کر نام نہاد آزادی کے نام پر مسلم دنیا ٹکڑے ٹکڑے کرکے غلام، قوم پرست، سیکولر، کٹھ پتلی، نام کے مسلمان حکمرانوں میں بانٹ دی گئی۔ امریکا نے سب سے پہلے مسلم دنیا کے سینے میں خنجر کی طرح گھونپے اسرائیل کو تسلیم کیا اور باضابطہ اپنی تولیت میں لے لیا۔ اس کی غیرمتزلزل پشت پناہی، تحفظ امریکا نے اپنے ذمے لی۔ تب سے آج تک سب سے زیادہ غیرملکی امداد اسرائیل کو دیتا ہے۔ باوجودیکہ اسرائیل خود اور یہود بحیثیت قوم دنیا میں امیرترین ہیں۔ امریکا میں اپنے اثر و رسوخ کو جمانے کے لئے یہودی امریکی انتخابات میں خوب چندہ دیتے ہیں۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکن، سبھی اسرائیل کی جیب میں ہیں۔ اب دنیا بھر نے حیرت سے بے نوا، کمزور فلسطینیوں پر ٹوٹتی قیامت کے لئے امریکا کو جدید ترین ہتھیار، جواز، دلائل اور امداد اسرائیل کو فراہم کرتے دیکھا۔ فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے، یہاں دیکھا جاسکتا ہے! بظاہر دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش پوش، خوش اطوار، تہذیب یافتہ۔ فصاحت وبلاغت بھری دانشوری دنیا کے فورمز پر بگھارنے والے بانکے لیڈر، عمل کی دنیا میں اتنے بے ضمیر، اتنے سفاک، انسانیت کش، انصاف میں اندھے بہرے گونگے کیونکر ہوگئے؟ اسی کا نام اور عنوان دجالیت ہے۔
دجل، مکر، فریب، خوشنما دھوکوں کی چمکتی دمکتی دنیا! فلسطین میں، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق کے کنونشن سب کے چیتھڑے ان کے ہاتھوں اڑے۔ افغانستان عراق شام پر ٹوٹ پڑنے والے امریکا نے اسرائیل کے خلاف بیان کو بھی سر اٹھانے کی اجازت نہ دی، ویٹو کرتے رہے۔ امریکا، یورپ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سبھی استعماریوں نے (اسرائیل ہی کی مانند) مقامی آبادیوں کو اسی سفاکی سے کچلا۔ چرچل، برطانوی شہرہ آفاق وزیراعظم جو عظیم ترین برطانوی لیڈر جانا جاتا ہے، استعماری دور میں فلسطینی رائل کمیشن کے سامنے (1937) بیان دیتا ہے: میں نہیں مانتا کہ امریکا کے ریڈ انڈین، آسٹریلیا کے سیاہ فام یا ان فلسطینیوں کے ساتھ کوئی بڑی زیادتی ہوئی ہے، اس حقیقت کی بنا پر کہ ایک مضبوط تر، اونچے درجے کی نسل، دنیاوی اعتبار سے عقلمند و دانا تر نسل نے آکر ان کی جگہ لے لی ہے۔ چرچل کردوں اور افغانوں کے خلاف کیمیائی حملوں کا حامی تھا۔ کہا کہ میں غیرمہذب قبیلوں کے لئے زہریلی گیس کے استعمال کا پُرزور حامی ہوں۔
ہندوستان (بنگال) کے ہولناک قحط (1943ء میں، جس میں 30 لاکھ لوگ مرے) سے مکمل بے اعتنائی برتنے پر شدید تنقید ہوئی۔ ایک لاکھ 70 ہزار ٹن آسٹریلوی گندم (اپنی کالونی کے عوام کو مرتا چھوڑ کر) یورپیوں کے لئے اسٹور کرنے کو بھجوا دی۔ بنگالیوں کو بُرابھلا کہا کہ خرگوشوں کی طرح بچے جنتے ہیں۔ دو تازہ اعتراف دیکھئے: جرمنی نے نمیبیا (افریقہ) میں 1904-1908ء، 70 ہزار افراد کا قتل عام کا اعتراف کیا ہے۔ فرانس نے روانڈا میں 8 لاکھ افراد کی قاتل حکومت کی حمایت کا اعتراف کیا ہے!
ظلم وجبر کی صدیوں پر محیط داستان اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ بالآخر گریٹر اسرائیل ہی میں دجل وفریب کو دجال کا دور دیکھ کر ہمیشہ کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اترنا ہے۔ اس کی تیاری میں تابوت کی کیلیں ٹھونکی جا رہی ہیں۔ امریکا نے یروشلم کو اسرائیل (غاصب) کا دارالحکومت بنانے کے بعد، اپنا سفارت خانہ جس بے پناہ مذہبی جوش وجذبے کے ساتھ وہاں کھولا وہ حیران کن ہے۔
دنیا کو مذہب سے بیگانہ کرنے والے، مسلمانوں کے نصابوں، سیاست، معیشت، معاشرت سے اسلام کی ہر رمق مٹانے کے درپے امریکا اور اسرائیلی خود کتنے کٹر، متشدد، قدامت پرست مذہبی ہیں اس تقریب میں عیاں ہے۔ ان کے عزائم کیا ہیں، انہوں نے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ سعودی عرب سے اسلامی شناخت مٹاتے ٹرمپ اور کشنر (یہودی داماد امریکا کا!) نے اسرائیل اور یہودیت سے والہانہ وابستگی دکھائی ہے۔
سب سے پہلے تو یروشلم کی قانونی (بین الاقوامی قانون کے تحت) حیثیت دیکھ لیجئے۔ 1947ء یو این تقسیم پلان کے مطابق (قرارداد 181 (ii)) پورے یروشلم کی سرزمین عالمی زون قرار دی گئی 3 مذاہب سے متعلق ہونے کی بنا پر۔ 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں یروشلم کا مغربی حصہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا اور اسے اپنا علاقہ قرار دے دیا۔ 1967ء کی شام مصر اور اردن کے ساتھ جنگ میں مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہوگیا۔ تاہم عالمی برادری نے اسرائیل کے یروشلم پر حق ملکیت کو تسلیم نہیں کیا۔ مشرقی یروشلم پہلے اردن کے کنٹرول میں تھا، اب اسرائیل نے اسے اپنے علاقے میں براہ راست شامل کرکے اسرائیلی قوانین اس پر لاگو کردیئے جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔1980ء میں اسرائیل نے ”یروشلم قانون“ پاس کیا کہ: یروشلم مکمل اور یک جا (مشرقی و مغربی) اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ یوں مشرقی یروشلم کو باضابطہ نگل گیا۔ اس کے جواب میں یو این سلامتی کونسل نے قرارداد 378 پاس کی، اس قانون (اسرائیلی) کو مکمل منسوخ شدہ/ غیرموثر قرار دیتے ہوئے۔ مشرقی یروشلم کا غیرقانونی الحاق، بین الاقوامی قانون کے کئی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے، جن کے مطابق قابض قوت مقبوضہ علاقے پر حاکمیت قائم نہیں کرسکتی۔ سو عالمی برادری سرکاری طور پر مشرقی یروشلم کو مقبوضہ سرزمین گردانتی ہے۔ دنیا نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت مقبوضہ مشرقی یروشلم کے رہائشی فلسطینی اسرائیلی شہریت کے حامل نہیں ہیں۔ وہاں رہنے والے 4 لاکھ 20 ہزار فلسطینی ”مستقل رہائش“ کے شناختی کارڈ رکھتے ہیں۔ ان کے پاس عارضی اردن کے پاسپورٹ ہیں۔ یعنی وہ مکمل اردنی شہری نہیں ہیں۔ انہیں وہاں کام کے لئے پرمٹ درکار ہوتا ہے۔ نہ ہی وہ اردن کی سرکاری نوکری کے اہل ہوتے ہیں۔ نہ ہی دیگر فوائد حاصل کرسکتے ہیں، مثلاً تعلیمی اخراجات میں تخفیف۔ سو یروشلم کے فلسطینی بلاریاست ہیں۔ نہ وہ اسرائیلی شہری ہیں نہ اردن یا فلسطین کے۔
اسرائیل ان فلسطینیوں کو غیرملکی مہاجر گردانتا ہے جن کا وہاں رہنے کا حق نہیں ہے۔ اسرائیل ان پر احسان کررہا ہے، باوجودیکہ وہ وہیں کی پیدائش ہیں۔ انہیں وہاں اپنی رہائش برقرار رکھنے کو کچھ تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں وگرنہ وہ مستقل حق رہائش چھن جانے کے خوف تلے زندگی بسر کرتے ہیں! مثلاً کوئی فلسطینی جو ایک مقررہ مدت سے زیادہ یروشلم سے باہر رہے، کسی دوسرے ملک یا حتیٰ کہ مغربی کنارے میں بھی تو وہ یہاں کا حق رہائش گنوا سکتا ہے۔ انہیں وہاں رہنے کے لئے درجنوں کاغذات جمع کروانے پڑتے ہیں، جبکہ دنیا بھر کے یہودی یہ حق رکھتے ہیں کہ ”واپسی کے قانون“ کے تحت اسرائیل آکر رہیں اور اس کی شہریت حاصل کرلیں۔ 1967ء سے یروشلم کے 14 ہزار فلسطینی رہائشی اپنا حق شہریت گنوا چکے ہیں۔ مشرقی یروشلم میں آکر آباد ہونے والے یہودیوں کے تمام پروجیکٹ، یو این کی کئی قرارداوں کے مطابق چوتھی جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بین الاقوامی قوانین اور یو این قراردادوں سے متصادم ان اسرائیلی اقدامات کے باوجود امریکا نے 6 دسمبر 2017ء کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا۔ نیتن یاہو نے اس فیصلے کو سراہا اور خوش آمدید کہا۔ دنیا بھر میں امریکا کے اس اعلان کی مذمت ہوئی اور ملکوں ملکوں مظاہرے ہوئے۔ عمان (اردن) میں 7 دسمبر، غزہ میں 9 دسمبر، تہران، پیرس، واشنگٹن سبھی جگہ اس پر احتجاج ہوا۔ ردعمل کے نتیجے میں سیکریٹری اسٹیٹ ٹلرسن نے وضاحت دی کہ صدر کا بیان یروشلم کی حیثیت کا اظہار نہیں کرتا اور یہ بہت واضح ہے کہ آخری حیثیت بشمول سرحدات فریقین ہی پر چھوڑی گئی ہیں کہ وہ باہم بات چیت سے طے کریں گے۔ اسرائیل پر امریکا کی دوغلی پالیسی چلتی ہے۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والی۔ تاہم گریٹر اسرائیل اور یہودی مقاصد کے پس پشت اصل قوت امریکا ہی ہے۔ اس کی واضح تصویر فلسطینی لاشوں پر مقبوضہ یروشلم میں 14 مئی 2018ء میں کھولے جانے والے امریکی سفارت خانے کی تقریب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ سفارتی نہیں بلکہ ایک بھرپور جنونی یہودی عیسائی مذہبی تقریب تھی۔ تقریب کا تفصیلی احوال، جس پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے باضابطہ ویڈیو اپنی ویب سائٹ پر جاری کی، دیکھی جا سکتی ہے

مطلقہ خبریں