اگر دیکھا جائے تو محض پاکستان ہی نہیں، دُنیا کے 70 سے زائد ممالک ایسے ہیں جو بھارت کو یہ نشست دینے کے حق میں نہیں اس کرۂ ارض کی بقا کیلئے ضروری ہوچکا ہے کہ اقوام متحدہ کو امریکا اور بھارت جیسے اس کے لے پالکوں کے غلبے سے دور رکھا جائے
منیر احمد بلوچ
جون 1998ء، جنیوا میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کے ایک اہم اجلاس کے بعد کانفرنس ہال کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی سیکیورٹی کونسل میں ممکنہ شمولیت کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں کلنٹن حکومت کی سیکریٹری آف اسٹیٹ میڈلین آلبرائٹ نے بڑے ہی نپے تلے الفاظ میں جواب دیا ”اپنے متعلق ابھرنے والے خوش کن تاثر اور عالمی برادری کی نظروں میں اپنے اچھے نام کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے گہنا لیا ہے، اس لئے اب سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنا تو دور کی بات، بھارت اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دے“۔
دنیا کے ہر انسان دوست شخص، ہیومن رائٹس کی عالمی تنظیموں کے علاوہ خود امریکی حکام بھی گاہے بگاہے مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت بھر میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر شدید تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جس طرح اسکول کے بچوں تک کو انڈین فوج نے پیلٹ گنوں سے اندھا کیا، اس کی دُنیا بھر میں سخت مذمت کی گئی۔ چنگیزیت کا یہ سلسلہ مقبوضہ کشمیر میں ہی جاری نہیں بلکہ بے خوف آر یس ایس کے غنڈوں کی مدد سے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی حکومتوں کی چھتری تلے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم، وحشت اور بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ کیا یہ مناظر کسی سے ڈھکے چھپے ہیں؟ کیا اس کے بعد بھی کسی ایسی ریاست، گروہ یا تنظیم کو دنیا کی بڑی قوتوں کے ساتھ بٹھایا جا سکتا ہے؟ چہ جائیکہ اسے عالمی معاملات میں اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے سب سے بڑی مسند عطا کردی جائے۔
ان دنوں بھارت کے جس میڈیا چینل کو سنا اور دیکھا جائے، وہاں یہی تکرار نظر آئے گی کہ پاکستان اب بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوچکا ہے۔ ایک جانب بھارتی میڈیا کا مسلسل دعویٰ اور دوسری جانب پاکستانی وزارتِ خارجہ کی اس پروپیگنڈا مہم پر معنی خیز خاموشی ان شبہات کو تقویت دے رہی ہے جو بھارت کا فارن آفس اور اس کے میڈیا چینلز دہرا رہے ہیں۔ اس سے قبل عمران خان حکومت بھارت پر یہ واضح کر چکی تھی کہ جب تک اگست 2019ء کا اقدام واپس لے کر مقبوضہ کشمیر کی خودمختار ریاستی حیثیت بحال نہیں کی جاتی، پاکستان بھارت سے کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں رکھے گا۔ لیکن اب سب کے سامنے ہے کہ رجیم چینج کو ابھی دو ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ حکومت کی جانب سے بھارت میں کامرس منسٹر تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ یہی نہیں، مہنگائی کا جواز بنا کر بھارت کے ساتھ تجارت کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں جب کابینہ کے اجلاس میں بھارت سے تجارت اور زرعی اجناس درآمد کرنے کی تجویز زیرغور آئی تھی تو حقائق جانے بغیر سب لٹھ لے کر پی ٹی آئی حکومت پر چڑھ دوڑے تھے حالانکہ اس تجویز کو پہلے مرحلے پر ہی رد کردیا گیا تھا، اب کامرس منسٹر کی تعیناتی سے بھارت کے ساتھ تجارت کے امکانات کو نہ صرف تقویت دی جا رہی ہے بلکہ عوام کو یہ بھی باور کرایا جا رہا ہے کہ بھارت سے ہمیں ادویات اور میڈیکل آلات سمیت مختلف درآمدی اشیاء سستے داموں میسر آ سکتی ہیں۔ اس طرح کے فیصلوں اور بیانات سے بہت سے شہبات اور خدشات ہیں، جو اس وقت ہر اُس پاکستانی کے دل میں ابھر رہے ہیں جو یقین کئے بیٹھا ہے کہ رجیم چینج کے ایجنڈے میں اندر کھاتے بہت پہلے ایسی یقین دہانیاں کرائی جا چکی ہیں کہ پاکستان بھارت کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست پر تقرری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔
اگر دیکھا جائے تو محض پاکستان ہی نہیں، دُنیا کے 70 سے زائد ممالک ایسے ہیں جو بھارت کو یہ نشست دینے کے حق میں نہیں۔ کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ ان ممالک سے ہمارے رابطے کمزور کئے جا رہے ہیں، کیا یہ سب کچھ طے شدہ پلان کا حصہ ہے؟ وہی و ائٹ ہاؤس، جو ایٹمی دھماکے کرنے کے جرم میں بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست سے ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دیا کرتا تھا، اب بھارت کو نت نئی نیوکلیئر ٹیکنالوجی دینے اور اسے سول نیوکلیئر کلب کا رکن بنانے اور ایٹمی تجربات کرنے کی کھلی چھٹی دینے کے بعد اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے یہ کہہ کر اس کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے کہ امریکا سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لئے بھارتی حق کو سب سے مقدم سمجھتا ہے، اس کی خواہش ہے کہ بھارت جلد از جلد سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن کر دنیا کے معاملات کو حل کرنے میں اس کے ایجنڈے کی مدد کرے۔ کیا یہ وہی امریکا نہیں جس نے 2002ء میں بھارت کی ریاست گجرات میں گودھرا ٹرین حادثے کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں 2 ہزار سے زائد مسلمان مردوں، بچوں اور عورتوں کے سفاکانہ قتل عام کا ذمہ دار ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ٹھہراتے ہوئے اسے مجرم قرار دیا تھا اور امریکی ویزے کے لئے بلیک لسٹ تک کردیا تھا۔ کیا نریندر مودی پر امریکا میں مقدمات قائم نہیں کئے گئے تھے؟
رجیم چینج کی انٹرنیشنل سازش کے حوالے سے بہت سی ایسی کہانیاں ہیں جو سامنے نہیں آ سکیں کیونکہ اگر یہ واقعتاً ایک حقیقت ہے تو محض عمران خان کی ذات تک محدود نہیں ہوسکتی۔ اس سازش کا اصل ایجنڈا کیا ہے اور یہ کتنے برس کا پلان ہے، یہ باتیں وقت کے ساتھ ہی سامنے آئیں گی۔ امریکیوں نے اپنی روایت کے مطابق بہت پہلے سے یہ پلاننگ کر رکھی ہوگی اور معیشت کی تباہی اس کا آغاز ہوسکتا ہے کیونکہ یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی فیکٹری، ادارے یا تجارتی کمپنی کا قائم رہنا اس کی مالی اور انتظامی حالت ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ کسی گھر یا ادارے کے پاس سرمایہ ختم ہوجائے یا اسے اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے دوسروں کا سہارا لینا پڑ جائے اور یہ عادت اس قدر پختہ ہوجائے کہ دینے والے منہ پھیر لیں اور کہیں سے کچھ بھی نہ ملے تو پھر نوبت یہ آ جاتی ہے کہ گھر اور خود کو گروی رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ گھر سے آگے، دکان، دفتر، کمپنی اور فیکٹری سمیت کسی بھی تجارتی فرم کی مالی حالت کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ اب تک کون کون سی کمپنیاں، دفاتر، کارخانے اور تجارتی ادارے دیوالیہ ہوئے اور کیوں ہوئے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جان بوجھ کر ہمیں اس کونے تک لے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جس کے آگے سوائے ایک گہری، خوفناک اور نوکیلے پتھروں والی کھائی کے اور کچھ نہیں؟
بھارت کے لئے سلامتی کونسل کی مستقل نشست اور چین جیسے بہترین اور وفا شعار دوستوں کے مفادات سے صرفِ نظر کرنے کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ یہ وقت تو متقاضی تھا کہ ہم علاقائی ممالک سے روابط بڑھاتے۔ چین کے علاوہ روس کے ساتھ اپنی دوستی کی مضبوط بنیاد رکھتے، اس کا اعتماد جیتنے کے لئے سرگرمی اور خلوص دکھاتے لیکن انجانے خوف نے ہمارے قدم ہی جما دیئے ہیں۔ بشمول یورپ، پوری دُنیا روس سے سستا تیل اور گیس خرید رہی ہے مگر ہم اب تک اَن دیکھی، اَن سنی پابندیوں سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ ہم سستی گندم، تیل اور گیس دینے والے تک جانے کی ہمت ہی نہیں کر پا رہے۔ دوسری طرف دنیا کے چند ممالک کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ پوری دنیا کی تقدیر کے فیصلے اپنی مرضی سے کرتے رہیں؟ کشمیر کا مسئلہ، جس میں اب تک ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کا خون بہہ چکا ہے، کب کا پُرامن طور پر حل ہوچکا ہوتا، اگر روس کی ویٹو پاور با ر بار استعمال نہ ہوئی ہوتی۔ 1959ء میں سوسائٹی نے ایک تحریک شروع کرتے ہوئے نعرہ لگایا تھا کہ اقوام متحدہ کو امریکا کی پہنچ سے دور رکھو۔ آج سے 64 برس قبل اس کا موقف تھا کہ امریکا کے ہاتھوں میں اقوام متحدہ کی لگام دے کر اسے واحد سپر طاقت بنایا جارہا ہے۔ اس کرۂ ارض کی بقا کے لئے ضروری ہوچکا ہے کہ اقوام متحدہ کو امریکا اور بھارت جیسے اس کے لے پالکوں کے غلبے سے دور رکھا جائے۔