Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا، برطانیہ اور آسڑیلیا کا دفاعی اتحاد اور نئی آویزش

قاضی جاوید
براؤن یونیورسٹی کی واٹسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی طرف سے جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ بعنوان ”جنگ کی لاگت“ کے مندرجات کے مطابق افغان جنگ (2001-2021) پر امریکا کے 14 ہزار ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اس رقم کا تہائی یعنی تقریباً 5000 ارب ڈالر دفاعی سازوسامان بنانے والی پانچ کمپنیوں یا ٹھیکہ داروں بشمول لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، جنرل ڈائنامکس، ریتھون اور نارتھ روپ گرومن نے کمائے۔ رپوٹ میں لکھا گیا ہے کہ سردست تو امریکا افغانستان میں اپنی ہزیمت کے زخم چاٹ رہا ہے لیکن وہ میدان چھوڑنے والا ہرگز نہیں ہے وہ اپنی عالمی برتری قائم رکھنے کیلئے بہت جلد کسی نئی جنگ کا ڈول ڈالے گا۔ نیا میدان جنگ کہاں سجایا جائے گا، اس کا فیصلہ یہ پانچ بڑے ٹھیکیدار بھی کریں گے۔ امریکی نظام ریاست پر نظر رکھنے والے اس بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کرتے رہے ہیں کہ امریکی معیشت، جنگوں پر استوار ہے اور امریکی خارجہ پالیسی بھی اسی سوچ کے گرد گھومتی ہے، امریکا اپنی خارجہ پالیسی اور سفارتکاری کو اپنی معیشت اور معاشرت کے استحکام کے تناظر میں ترتیب دیتا ہے۔ جنگیں، امریکی کمپنیوں کی پیداوار کی طلب میں اضافہ کرتی ہیں جسے پورا کرنے کیلئے پیداواری حجم کو بڑھایا جاتا ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، گردش زر میں اضافہ ہوتا ہے، اشیاء صرف اور اشیاء تعیش کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اس طرح معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں، سرکاری خزانے میں ٹیکس جمع ہوتا ہے، ترقیاتی کام کرنے کیلئے دستیاب مالی ذرائع کی فراوانی خوشحالی لاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہی خصوصیت ہے امریکا اس نظام کا سرخیل ہے، پوری دنیا میں اس نظام کی نمائندگی ہی نہیں کرتا بلکہ اسے پھیلانے اور برآمد کرنے میں کلیدی کردار بھی ادا کرتا ہے۔ جنگ کوریا ہو یا ویتنام کی جنگ، سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کی منصوبہ سازی ہو یا خلیج میں آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم ہو یا ڈیزرٹ شیلڈ، ہر جگہ، ہر دفعہ یہی فلسفہ کام کرتا رہا ہے اور اب بھی کرے گا۔ افغانستان میں بھی یہی فلسفہ چلا ہے۔ یہاں اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نے امریکی ملٹری مشین کو فعال اور متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے رخصتی کے بعد امریکا کسی نئے محاذِ جنگ کی تلاش میں سرگرم عمل ہوچکا ہے تا کہ اس کی ملٹری مشین فعال رہے، اس حوالے سے چین اس کا نیا اور تازہ دم دشمن ہے، چین نے بغیر کسی شورشرابے کے اپنی عالمی ساکھ بنا لی ہے۔ جی-5 کی لانچ کے ذریعے اس نے اپنی تکنیکی برتری بھی ثابت کر دکھائی ہے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے دنیا کے تین براعظموں میں اپنے قدم جما لئے ہیں، افغانستان میں امریکی شکست نے امریکا کی عالمی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے، امریکا اور برطانیہ نے آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایک نئے عسکری اتحاد کی بنیاد رکھ دی ہے جس کے ذریعے چین کے انڈوپیسفک میں بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے حال ہی میں سہ افریقی دفاعی اتحاد کا اعلان کیا ہے، گو انہوں نے چین کے خلاف کسی قسم کا بیان نہیں دیا ہے لیکن اس اتحاد کے ذریعے چین کے ساتھ تائیوان اور ساؤتھ چائنا سی کے معاملات پر دو دو ہاتھ کئے جائیں گے۔ سہ فریقی اتحاد معلومات کے تبادلے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تعاون کو فروغ دے گا۔ امریکا اور برطانیہ آسٹریلیا کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی تعاون کریں گے، آسٹریلیا غیرایٹمی طاقت ہے، دونوں ممالک آسٹریلیا کو آٹھ نیوکلیئر آبدوزوں کی تیاری میں مدد فراہم کریں گے، یہ آبدوزیں ایٹمی پلانٹ کے ذریعے چلیں گی، لیکن ان پر ایٹمی میزائل نصب نہیں ہوں گے۔ آسٹریلوی وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ آسٹریلیا نہ تو ایٹمی ہتھیار حاصل کرے گا اور نہ ہی سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرے گا۔ اس سہ افریقی معاہدے کے بارے میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ علاقائی امن کو برباد کرے گا اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی کا باعث بنے گا۔ آسٹریلیا کے ہمسائے نیوزی لینڈ نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے پانیوں میں کسی قسم کی ایٹمی آبدوزوں کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں دے گا۔ آسٹریلیا کے ایٹمی بیڑے کو خطے میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چین نے مجموعی طور پر اس معاہدے کو ”غیرذمہ دارانہ“ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، لیکن امریکی پالیسیوں اور نظام ریاست و سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سہ فریقی معاہدہ خطے میں ایک نئی جنگ کی تیاری ہے جس کے ذریعے امریکا، تائیوان اور ساؤتھ چائنا سی پر چین کے اثرورسوخ اور علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو لگام دینے کی کاوشوں کا آغاز کررہا ہے، چین کا جواب اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ آسانی سے امریکی پالیسیوں کو برداشت نہیں کرے گا بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے جوابی کارروائی کرنے سے باز نہیں رہے گا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں چین پہلے ہی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے پہنچ چکا ہے۔ افغانستان میں امریکی شکست کے بعد چین، روس، ایران، ترکی اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک ایسی حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے جس سے خطے میں چینی اثرات اور بھی موثر صورت اختیار کرنے جا رہے ہیں۔ چین کی گوادر اور چابہار تک رسائی اور سی پیک کے ذریعے زمینی رسائی نے اس کی اسٹرٹیجک پوزیشن میں استحکام پیدا کیا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ دو دو ہاتھ کر کے چین نے اپنا عسکری بازو بھی دکھا دیا ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہاں ایک نئے کھیل کا آغاز ہونے جارہا ہے ایک نئی گرم و سرد جنگ جس میں امریکا اور چین مدمقابل ہوں گے۔

مطلقہ خبریں