Monday, June 9, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغان حکومت کی مجبوریاں

ضیاء الحق سرحدی

پاکستان اپنے حدود اربع کے لحاظ سے ایک دْشمن، دو مخالف ملکوں اور چوتھی جانب سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ مشرق میں ہمارا بدترین دشمن بھارت ہے، جبکہ شمال مغرب میں افغانستان اور ایران ہیں۔ جنوب میں بحیرۂ عرب اور بحر ہند ہے۔ بھارت نے قیام پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا، اس لئے وہ ہمیشہ اسے دنیا کے نقشے سے مٹانے کے درپے رہتا ہے۔ سرحدی تنازعات کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر اور آبی تنازع بھی مسلسل کشیدگی کا سبب ہے۔ بھارت نے اپنی تمام تر توانائی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں لگا رکھی ہے، جس کی وجہ سے بھارتی عوام بھوک، افلاس، بے روزگاری اور صحت کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ دفاع کے نام پر قومی بجٹ کا بہت بڑا حصہ فوج کو پالنے، اسلحہ اور گولا بارود خریدنے پر خرچ ہوتا ہے۔ چین سے ایک مرتبہ جھڑپ کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت ضرور ہے، لیکن محاذ جنگ کبھی گرم نہیں ہوا۔ بھارت کو چین کی قوت کا اندازہ ہے، اس لئے بھی وہ چین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے گریز کرتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی معلوم ہے کہ چین کے ساتھ جنگ کی صورت میں پاکستان اپنے دیرینہ دوست کی حمایت ضرور کرے گا۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کا معاملہ بالکل مختلف ہے، اول تو وہ پاکستان کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر ایک بار پھر متحدہ ہندوستان کے خواب دیکھ رہا ہے۔ دوسری طرف بھارتی حکومت اپنے داخلی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کا آئے دن سرحدی جھڑپوں میں الجھائے رکھتی ہے۔ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر دو مسلم ممالک ایران اور افغانستان ہیں۔ افغانستان پر پاکستان کے بڑے احسانات ہیں، لیکن وہاں کی حکومت احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک کو ہر وقت پاکستان کے خلاف حالت جنگ میں رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی فوجی صلاحیت، تربیت اور تجربے کے مقابلے میں افغانستان کو اپنی حیثیت کا خود بھی اندازہ ہے، لیکن امریکا اور بھارت کی پشت پناہی اس کو حاصل ہے، اس لئے وہ کاغذی شیر بن کر پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتا ہے۔ ادھر ایران کے بعض مفادات بلوچستان سے وابستہ ہیں۔ نیز وہ پاک وچین اقتصادی راہداری منصوبے کو اپنے اقتصادی مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ ایران کی حکومتیں پاکستان کو اپنا مسلکی مخالف بھی تصور کرتی ہیں، حالانکہ پاکستان میں کبھی اور کہیں شیعہ سنی جھگڑا نظر نہیں آتا۔ مشرق وسطیٰ کے دیگر مسلمان پڑوسی ملکوں کو بھی ایران سے یہی شکایت ہے کہ وہ ان پر نظریاتی غلبہ حاصل کرنے کے لئے دباؤ بڑھاتا رہتا ہے۔ باقی رہا پاکستان کے جنوب میں واقع سمندر تو ایک حد سے آگے پاکستان اور بھارت دونوں کی علمداری ختم ہوجاتی ہے اور سمندروں کی گہرائی آس پاس کے تمام ملکوں کا مشترکہ اثاثہ قرار پاتی ہے۔ یہاں بھی بھارت کے اپنے جنگی بیڑے اور امریکا کے طیارہ بردار بحری جہاز پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لئے اکثر گشت کرتے رہتے ہیں۔ پاک و افغان سرحد ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔ یہاں سے جنگجوؤں کی آزادانہ نقل وحرکت کے علاوہ منشیات سمیت کئی اشیاء کا غیرقانونی کاروبار جاری رہتا ہے، جسے روکنا دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان سے پاکستانی سرحدوں پر آئے دن گولا باری جاری رہتی ہے، جس میں شہری شہید ہوتے ہیں۔ اپنے مخصوص و مذموم مقاصد کی خاطر افغان حکومت معصوم شہریوں کی جانیں لے کر اپنی قوت ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ سب کچھ بھارت اور اس کے مغربی سرپرستوں کے ایما پر ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں افغان فوج نے چمن کے سرحدی دیہات میں مردم شماری پر مامور پاکستانی ٹیموں پر بلااشتعال فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کم وبیش 15 ہلاکتیں ہوئیں، جبکہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ بعد میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی حکام میں ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا تو صورتِ حال قدرے معمول پر آئی۔ افغانستان نے اپنی غلطی اور پاکستان کے موقف کو تسلیم کرلیا۔ حیرت انگیز امر ہے کہ مردم شماری کا عملہ پاکستانی علاقے میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا، جبکہ افغانستان کا موقف ہے کہ اس نے پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ سرحدی علاقوں کے دیہات میں مردم شماری نہ کی جائے، ورنہ ان پر حملہ کردیا جائے گا۔ افغانستان کے خیال میں ڈیورنڈ لائن کے قریب واقع دیہات متنازع ہیں۔ بالفرض افغانستان کا موقف درست تسلیم کرلیا جائے، تب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ محض اپنی انا یا ہٹ دھرمی کی خاطر معصوم شہریوں کی جانیں لینا کیا بجائے خود دہشت گردی، سفاکی اور شقاوت قلبی نہیں؟
واضح رہے کہ پاکستان میں 19 سال بعد مردم شماری اور خانہ شماری ہوئی تاکہ اس کے ترقیاتی کاموں اور آئندہ عام انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں قائم کر کے ضروری رقوم مختص کی جاسکیں۔ یہ مردم شماری ہر 10 سال بعد ہونی چاہئے، لیکن پاکستان میں حکومتوں کے عدم استحکام اور سیاستدانوں کی باہمی چپقلشوں کی وجہ سے اس میں پہلے ہی 9 سال کی تاخیر ہوچکی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دنوں سرحدوں کو بند کرنے کی کوشش کی تو افغان حکومت نے اس پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ سرحدوں کو بند کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ دہشت گرد، منشیات فروش، جرائم پیشہ عناصر اور غیرقانونی کاروبار کرنے والے لوگ جس آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کی حدود میں داخل ہوتے ہیں، اسے روکا جائے۔ افغانستان کو تو خوش ہونا چاہئے کہ اس کی شکایت کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہو کر وحشیانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ افغان حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ امریکی چھتری کے بغیر ایک روز بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ پچھلے دنوں افغانستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوئے ہیں، افغانستان میں جب دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے تو افغان حکام پاکستان کی جانب انگلی اٹھاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے ہیں جبکہ پاکستان میں پچھلے دنوں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوئیں، ان میں خودکش حملہ آور کا تعلق افغانستان سے تھا، اس صورتِ حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدی کھلی ہے اور اس سرحد پر متعدد کراسنگ پوائنٹس ہیں اور لوگ بلا روک ٹوک دونوں ملکوں میں آ جا رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان نے کبھی اس سرحد کو محفوظ بنانے کی کوشش نہیں کی جبکہ افغانستان نے بھی اسے کھلا چھوڑے رکھا، اس کوتاہی یا سستی کے نتیجے میں اس سرحد کے آر پار آنا جانا انتہائی آسان رہا، اس رجحان کے باعث پاکستان کے لئے مسائل زیادہ پیدا ہوئے کیونکہ افغانستان میں غربت اور پسماندگی سے اکتا کر روزگار کی تلاش میں سرحد پار کر کے پاکستان آنا تو برسوں سے جاری تھا لیکن افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد کے بعد اور پھر وہاں مجاہدین کے گروہوں کی باہمی لڑائیوں اور پھر طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افغان باشندے پاکستان میں داخل ہونے لگے، اس صورتِ حال نے افغانستان کے لئے تو نہیں لیکن پاکستان کے لئے سنگین مسائل پیدا کئے، ان میں دہشت گردی سرفہرست ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی اکثر وارداتوں میں افغان باشندے آلہ کار یا سہولت بنے۔ ان حقائق نے پاکستان کو مجبور کردیا کہ افغان سرحد کو کھلا رکھنا ملکی مفاد میں نہیں، یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے اصلاحات اٹھائے جا رہے ہیں جو وقت کا تقاضا ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی مفاہمت نہیں کی جانی چاہئے۔ پچھلے دنوں پاک فوج کا ایک وفد لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی قیادت میں افغانستان گیا تھا، وفد نے افغان وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی اور آرمی چیف جنرل محمد شریف یفتالی سے ملاقات بھی کی تھی۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق پاک فوج کے وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے افغانستان مزار شریف حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر تعزیت اور افغان فورسز و عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ وفد نے حملے میں زخمی ہونے والوں کے لئے پاکستان میں مفت علاج کی پیشکش بھی کی تھی، ملاقات کے دوران پاکستان اور افغانستان کے فوجی حکام نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، اس موقع پر افغانستان کے فوجی حکام نے کہا کہ افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر پر اپنی طرف دہشت گردوں پر مکمل کنٹرول پا لیا ہے، اْمید ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا، دونوں ممالک نے بارڈر مینجمنٹ بہتر کرنے پر بھی اتفاق کیا، آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے وفد نے افغان حکام کو یقین دلایا کہ پاکستانی سرحدوں پر پاک فوج نے بھی مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاک فوج کے وفد نے دہشت گردوں کو مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے انہیں شکست دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے جو شکوک وشبہات اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد پایا جاتا ہے، اسے دور کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ پاک افغان سرحد جتنی زیادہ محفوظ ہوگی دہشت گرد اتنے ہی زیادہ کمزور ہوں گے۔ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور دیگر افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لئے اقدامات کرے۔ دونوں ملک دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کریں تو اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوجائے گا۔

مطلقہ خبریں