ضمیر آفاقی
افغانستان میں جنگ 2001ء سے شروع ہو کر اب تک چل رہی ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکا نے طالبان کے عمل داری والے افغان علاقوں پر فوجی چڑھائی کردی۔ امریکا کا مقصد القاعدہ، القاعدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا۔ اس نے طالبان کو تو کچھ ہی مہینوں میں شکست دے دی لیکن، اسامہ بن لادن کو گرفتار نہیں کرسکا۔ گو کہ ابھی افغانستان میں کوئی وسیع جنگ تو نہیں چل رہی پر نیٹو کی افواج بدستور وہاں طالبان کی گوریلا کارروائیوں سے نبٹنے کے لئے موجود ہیں۔ ہر افغان کے بقول اس جنگ کے پیچھے امریکا کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ وہ طالبان کی اسلامی حکومت ہٹا دے اور یہی مقصد پورا ہوا جب افغانستان پر طالبان کی حکومت ختم ہوئی۔ اسی طرح افغانستان میں لڑی جانے والی سوویت یا روسی لڑائی 9 سال تک لڑی گئی۔ اس کا آغاز دسمبر 1979ء جبکہ اس کا اختتام فروری 1989ء کو ہوا۔ اس لڑائی میں ایک طرف تو افغان فوج کے نام پر روسی فوج لڑ رہی تھی تو دوسری طرف ساری دنیا کے مجاہدین روس کے خلاف برسر پیکار تھے۔ امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے امریکا اس جنگ میں کھل کر نہیں کود سکتا تھا مگر سی آئی اے نے آئی ایس آئی کے ذریعے کھل کر مجاہدین کی تربیت اور معاونت کی۔ اربوں ڈالر کا سرمایہ برطانیہ، امریکا، سعودی عرب، پاکستان اور دوسرے ممالک نے روس کے خلاف مجاہدین کو دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1978ء کے انقلاب کے بعد 27 اپریل 1978ء میں عوامی جمہوریہ افغانستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انقلابی حکومت نے افغانستان میں ایک غریب دوست اور کسان دوست سوشلسٹ معاشی ایجنڈا متعارف کرایا، اس دور حکومت کو افغانستان کا سنہری اور ترقی یافتہ دور کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد طویل ترین جنگوں کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس میں ایک طرف افغانستان کھنڈر بنا تو دوسری جانب ہزاروں افغانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاکھوں معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ خواتین اور بچوں کی حالت بہت ہی دگرگوں ہے۔ یہاں امن کے قیام کی کوششوں کے نام پر مزید جنگ کے شعلے بھڑکائے گئے۔ اب بھی اس طرح کی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ امریکا افغانستان میں حتمی جنگ لڑنے کے لئے اپنی فوج میں اضافہ کررہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوج میں اضافے کا فیصلہ افغانستان میں امریکی موجودگی کی مدت اور تیسری افغان جنگ کے بارے میں بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں تقریباً 8800 امریکی فوجی موجود ہیں جبکہ حالیہ فیصلے کے مطابق اس تعداد میں 3000 سے 5000 کا مزید اضافہ کیا جائے گا۔ امریکی فوجیوں کو افغان جنگ لڑتے ہوئے 16 سال کا عرصہ بیت چکا لیکن آج بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکا یہ جنگ جیت چکا ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے افغانستان میں فوج کی تعداد میں اضافے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔ حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹس سے یہ پتا چلتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے پنٹاگون کو افغانستان میں فوج میں اضافہ کے لئے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ فوج میں اضافہ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امریکا افغانستان کے مسئلے کا عسکری حل چاہتا ہے۔ طالبان کے خطرے کے مقابلے کے لئے امریکا اپریل تک اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجے گا جس سے اس ملک میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 15 ہزار ہوجائے گی۔ پچھلے ہفتے کے دوران امریکی اور افغان فوجی دستوں کی مدد کے لئے ایک درجن اے ٹین تھنڈر بولٹ طیارے وہاں بھیجے گئے۔ اطلاعات کے مطابق امریکا مزید ڈرون، جاسوسی اور امدادی سرگرمیوں میں مدد دینے والے ہیلی کاپٹر بھی افغانستان بھیج رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد طالبان کے خلاف نمایاں کامیابیوں کے لئے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہے لیکن یہ بات وثوق سے پھر بھی نہیں کی جا سکتی کہ امریکا اس جنگ کو جیت پائے گا یا وہاں امن کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔ پاکستان امن کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے لیکن امریکا پاکستان کی کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جس کا نقصان دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پہنچ رہا ہے۔
افغان جنگ کے اثرات سے پاکستان بھی بْری طرح متاثر ہوا ہے، ایک طرف دہشت گردی نے عروج پکڑا تو دوسری جانب ہماری معیشت تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہے۔ اس جنگ کا اختتام امن عمل کو بڑھانے سے ہی ہوسکتا ہے، جس کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ افغان جنگ کا حل فوجی نہیں، افغانستان کے دیرینہ تنازع کے خاتمے کے لئے تمام فریقین کی امن مذاکرات میں شمولیت اشد ضروری ہے۔ بلوم برگ کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغان سیکورٹی فروسز کی مدد کے لئے غیرملکی افواج میں اضافے پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کے لئے معاونت کے لئے تیار ہے، بالآخر افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دہشت گردی کے خلاف مختلف کارروائیوں سے متعلق امریکی صدر کے الزامات کو مسترد کردیا، انہوں نے نومبر میں 27 طالبان حقانی نیٹ ورک کے مزاحمت کاروں کو افغانستان کے حوالے کرنے کے معاملے کو قیدیوں کا معمول کا تبادلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سرحد کے پار عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ 27 دہشت گرد افغان شہری تھے جنہیں پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا تھا، اس لئے انہیں افغانستان کے حوالے کردیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی نے امریکی سپلائی کی بندش کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کے لئے امریکی سپلائی روٹس کو بند کرنے پر غور نہیں کررہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹرمپ کے موقف کے باوجود بات چیت اور انٹیلی جنس تعاون ابھی تک جاری ہے۔ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اسے متاثر نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے گہرے اور طویل مدت پر مبنی تعلقات ہیں، جبکہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھا آتا رہتا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم کے بلوم برگ کو دیئے گئے انٹرویو کے مندرجات کا تعلق ہے، تو اس بات سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ جنگوں سے امن قائم نہیں ہوسکتا، برسوں جنگ کے بعد بھی مذاکرات کی میز ہی آخری حل پیش کرتی ہے۔