لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
مغربی سرحد پر ہمارے دو ہمسائے ہیں اور دونوں مسلمان ہیں۔ ایک افغانستان ہے جس کی سرحد شمال میں چترال سے شروع ہو کر جنوب میں پہلے چمن تک جاتی ہے اور پھر وہاں سے مغرب کی طرف مڑ کر جس مقام پر ختم ہوتی ہے وہ ایرانی علاقہ ہے۔ اس طویل بارڈر کی لمبائی 2611 کلومیٹر ہے۔ اس 2611 کلومیٹر طویل بارڈر کو پاکستان نے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
یہ تقسیم ہم نے خود نہیں کی بلکہ گزشتہ 17 برسوں کے جبر نے کروائی ہے۔ یہ ’’جبرِ حالات‘‘ ابھی مستقبل قریب میں ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک حصہ وہ ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت آسان بھی ہے اور بکثرت بھی ہے۔ اصطلاح میں ایسے بارڈر کو ’’پورس‘‘ (پرووس ) بارڈر کہا جاتا ہے۔ ہاں اگر درمیان میں کوئی بڑا دریا حائل ہوتا یا ناقابلِ عبور پہاڑ رکاوٹ بنتا تو یہ بارڈر ’’پورس‘‘ نہ کہلاتا، لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے اس لئے اس کے بعض حصے پورس ہیں اور بعض غیر پورس۔ غیر پورس حصوں کے درمیان آمدورفت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان حصوں کے درمیان کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ حائل ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان حصوں میں اطراف کی آبادیاں قلیل ہیں اور دوسرے صدیوں سے ان حصوں کے درمیان آمدورفت کا کوئی معمول کا سلسلہ نہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے آغاز سے افغانستان میں ایک غیرملکی طاقت آکر بیٹھ گئی جس کی باقیات اب بھی وہاں موجود ہیں۔ اس طاقت کے ساتھ اس کی دوست دوسری کئی اور طاقتیں بھی آکر فروکش ہوگئیں۔ یہ ساری داستان آج کے پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہے اس لئے اس کا مزید ذکر لاحاصل ہوگا۔ پاکستان نے ان غیرملکی طاقتوں کے ہاتھوں اپنے ہزاروں فوجی اور سویلین شہید کروائے، لیکن کسی کو یہ بارڈر کراس کرکے ارضِ پاک کے اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ یہ کارنامہ پاکستان اور پاک فوج کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ پھر یہ ہوا کہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے بعض افغان اور دوسرے غیرملکی دہشت گرد بھی 2611 کلومیٹر کی اس سرحد کے پورس حصوں کو استعمال کرکے چوری چھپے پاکستان میں آنے لگے اور پاکستانیوں کا جینا دوبھر کرتے رہے۔ اس مشکل کا ایک حل یہ تھا کہ اس سرحد کو باڑ لگا کر بند کردیا جاتا اور دوسرا حل یہ تھا کہ پاکستان ان گھس بیٹھیوں اور دہشت گردی کو اپنے ہاں آنے دیتا۔ لیکن ایسی صورت میں ایک وقت ایسا آتا کہ یہ دہشت گرد پاکستان کو ہی ہڑپ کر جاتے۔ غیرملکی طاقتیں یہی چاہتی تھیں کہ دنیا کی واحد مسلمان جوہری قوت کو ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اتنا بے دست و پا کردیا جائے کہ وہ آخرکار مزاحمت کرتے کرتے تھک کر ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جائے۔ چنانچہ واحد اسٹرٹیجک حل یہی تھا کہ اس تمام بارڈر کو باڑ لگا کر بند کردیا جائے۔ یہ کام آسان نہ تھا۔
یہ گویا ایک دوسری دیوار چین کی تعمیر تھی جس کو سوچ کر ہی دماغ چکرانے لگتا تھا تاہم پاکستان نے آخر یہ فیصلہ کیا کہ اگر زندہ قوموں کی طرح رہنا ہے تو یہ تلخ گولی نگلنا ہوگی۔ اسی تلخی کی تفصیلات طویل اور وسیع و عریض ہیں۔ اس کے تعمیر کرنے کے لئے افرادی قوت، سازوسامان، عزم و حوصلہ اور بجٹ وغیرہ تمام اشاریئے اس کو ناقابلِ عمل تصور کرنے کے لئے کافی تھے، لیکن جب کوئی اور چارا نہ رہا تو پاک آرمی نے یہ بیڑا اٹھایا۔ اس کا نقطۂ آغاز اے پی ایس اسکول کا وہ سانحہ تھا جس کو اب چار سال ہوچکے ہیں۔ اس سانحے نے قوم کی گویا دوبارہ آنکھیں کھول دیں۔ 16 دسمبر 1971ء کے سانحے نے جہاں پاکستان کے وجود کو دو نیم کردیا وہاں اسے جوہری قوت بھی بنایا اور 16 دسمبر 2014ء کے، اے پی ایس کے سانحے نے قوم کو ایک ایسے اسٹرٹیجک منصوبے کی تعمیر و تکمیل پر آمادہ کیا جو بادی النظر میں ناقابلِ عمل تھا۔
میری مراد اسی 2611 کلومیٹر طویل باڑ کی تعمیر سے ہے! فوج نے 2017ء میں اللہ کا نام لے کر اس تعمیر کا آغاز کیا۔ پہلے پورس حصوں پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا اور اس کے بعد غیرپورس حصوں کی باری آنی ہے جو ابھی نہیں آئی۔ ترجیحی بنیادوں پر جن پورس حصوں پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا ان کی لمبائی 1200 کلومیٹر تھی۔ اس 1200 کلومیٹر حصے میں سے 800 کلومیٹر پر باڑ لگائی جا چکی ہے اور 400 کلومیٹر حصہ ابھی باقی ہے۔ اس حصے میں 843 قلعے بھی بنانا تھے جن میں سے 233 قلعے مکمل کئے جا چکے ہیں اور 610 قلعے ابھی تعمیر ہونا باقی ہیں۔
یہ قلعے کیا ہیں اور کیوں ضروری ہیں تو اس کی مثال جی ٹی روڈ سے دی جا سکتی ہے جو شیرشاہ سوری نے تعمیر کروائی تھی۔ پشاور سے کلکتہ تک اس جی ٹی روڈ کی تعمیر کا بیک وقت کئی مقامات پر کام شروع ہوا۔ ان مقامات کی حفاظت اور نیز اس کی دیکھ بھال کے لئے جو گودام بنائے گئے ان کو ’’قلعے‘‘ کہا گیا۔ ان قلعوں میں سڑک کی تعمیر کا میٹریل لا کر ذخیرہ کیا گیا اور نیز ایسے افراد بھی مقیم رکھے گئے جو جی ٹی روڈ کی تعمیر کے مخالفین کے لئے تھے اور جو تعمیر کرنے والوں پر شب خون مار کر کام کی رفتار کو سبوتاژ کرتے رہتے تھے۔ جب یہ قلعے تعمیر کئے گئے تو ان شرپسندوں کے ناگہانی حملے اور شب خون وغیرہ بند ہوگئے۔ زیادہ وسیع پیمانے پر دیکھیں تو مسلم ہندوستان میں بڑے بڑے قلعوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ بنگال سے پنجاب اور شمال مغربی ہندوستان تک درجنوں قلعے تھے۔ آج بھی ان میں سے کسی کا نام قلعہ آگرہ ہے تو کسی کا شاہی قلعہ ہے، کسی کا رہتاس ہے تو کسی کا اٹک ہے۔ ان قلعوں کی تعمیر کا مقصد بھی سلطنتِ اسلامیانِ ہند کی لاجسٹک سپورٹ تھی۔
ویسے تو ہندو دور میں بھی قلعے بنائے گئے جن کو محمود غزنوی نے آ کر مسمار کیا لیکن ان کا مقصد صرف حفاظتی تھا جبکہ مسلم دور کے قلعوں کا مقصد فوج کو کسی ایک جگہ مقید کرکے بٹھانا نہیں تھا بلکہ اس کی حرکیت (موبیلیٹی) کو برقرار رکھنے کے لئے ان میں اسلحہ، سازوسامانِ جنگ اور کمکی دستوں کا قیام تھا۔ اس 2611 کلومیٹر لمبی باڑ میں بھی قلعوں کا مقصد یہی ہے! اس باڑ کی اونچائی 9 فٹ ہے اور یہ دہری باڑ ہے۔ ان دو باڑوں کے درمیان 6 فٹ کا گیپ ہے اور ان کے اوپر کانٹے دار تاروں کے گچھے لگا دیئے گئے ہیں۔ اس کی تکمیل اگلے سال کے اواخر تک ہوجائے گی اور اس پر لاگت کا تخمینہ 60 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔
قارئین محترم! یہ جو تفصیل میں نے سطورِ بالا میں قلمبند کی ہے، یہ سب کچھ چند روز پہلے میڈیا پر آ چکا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ 12000 فٹ بلند برف پوش مقامات پر بھی یہ باڑ لگائی جا رہی ہے اور قلعے بھی تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ اس کالم کی تحریر کا مقصد ان تفصیلات کی تکرار نہیں بلکہ اس کے ان گوشوں کو بے نقاب کرنا ہے جو اس باڑ کو اسٹرٹیجک اہمیت عطا کرتے ہیں۔ پہلے تو افغانستان، امریکہ اور بھارت نے مل کر بہت شور مچایا کہ اس باڑ کو تعمیر نہ کیا جائے۔ بہت زور و شور کے ساتھ اس کی مخالفت کی گئی اور جب پاکستان کا عزمِ صمیم اس تعمیر کے سلسلے میں ٹس سے مس نہ ہوا تو مخالفین نے ’’امرِ الٰہی‘‘ سمجھ کر اسے تسلیم کرلیا۔ اس ’’تسلیم و رضا‘‘ کے بعض پہلو اب سامنے آ رہے ہیں۔
ان میں ایک، رائٹر کی وہ خبر ہے جو 14 دسمبر 2018ء کو ٹریبیون میں شائع ہوئی ہے اس کے ساتھ ایک تصویر بھی ہے۔ خبر یہ ہے کہ افغانستان نے ایک نیا بین الاقوامی تجارتی روٹ کھولنے کا آغاز کردیا ہے جس کی رسائی وسط ایشیا اور یورپ تک ہوگی۔ اس روٹ کی تعمیر کا مقصد پاکستانی روٹ سے بے نیاز ہونا ہے۔ اس ’’بے نیازی‘‘ کی کوشش افغانستان نے پہلے بھی کی تھی اور اس وقت بھی بڑے طمطراق کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ وہ روٹ افغانستان سے ایران جاتا تھا اور وہاں سے جنوبی بندرگاہ چابہار تک جا کر خلیج فارس میں مل جاتا تھا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارت کے بحری تجارتی جہاز بھارت کے دونوں ساحلوں سے آغاز سفر کرکے ایران کی بندرگاہ چابہار تک جائیں گے، وہاں سے سارا ایران طے کرکے افغانستان اور پھر افغانستان سے اوپر وسط ایشیا اور یورپ تک کا راستہ ’’صاف‘‘ ہوجائے گا۔ چابہار کی بندرگاہ کی توسیع میں بھارت نے سرمایہ کاری کی تھی اور گزشتہ سردیوں میں یہ خبریں میڈیا پر عام کی گئی تھیں کہ افغانستان سے خشک و تر فروٹ کے کئی کنٹینرز بحیرۂ عرب کی راہ بھارت جا رہے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے تجارتی حجم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ لیکن پھر اس سلسلے میں خبروں کو ’’چپ‘‘ سی لگ گئی اور افغان، بھارت تجارت کا یہ توسیعی منصوبہ گویا بظاہر ٹھپ ہو کے رہ گیا۔
افغانستان نے اب ایک اور نیا روٹ بنانا شروع کیا ہے۔ صدر اشرف غنی نے گزشتہ ماہ اس روٹ کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس کا نام سنگِ لاجورد رکھا گیا ہے۔ اس کا آغاز ہرات سے ہوگا اور یہ شاہراہ، ہرات سے اوپر اٹھتی ہوئی ترکمانستان، آذربائیجان، جارجیا اور ترکی تک جائے گی۔ یہ روٹ خشکی کے علاوہ سمندر کو بھی محیط ہوگا۔ خشکی پر، روڈ اور ریل اور سمندر کے سلسلے میں بحیرۂ اسود کو عبور کرکے ترکی جائے گا۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
اگر چین کے صدر شی جن پنگ ایسا کہتے تو دنیا یقین کر لیتی لیکن اگر صدر اشرف غنی یہ کہہ رہے ہیں تو گویا یہ پانچ سواروں میں نام لکھوانے والی بات ہے۔ امید واثق ہے کہ یہ نیا روٹ بھی چند ماہ بعد اپنی موت آپ مر جائے گا اور افغانستان کو پاکستان والے روٹ کی طرف ہی آنا پڑے گا۔ ایک پہلو اور بھی ہے۔ افغانستان میں پوست کی کاشت اس کی اکانومی میں ایک بڑا رول ادا کرتی ہے۔ پوست سے بننے والی ہیروئن کی برآمد اب بند ہونے کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ 2611 کلومیٹر لمبا بارڈر ایسا تھا جس کے ذریعے افغانی ہیروئن براستہ پاکستان بیرونی ممالک کو اسمگل کی جاتی تھی۔ اب اس باڑ کی تکمیل جب دسمبر 2019ء میں مکمل ہوجائے گی تو ساتھ ہی ہیروئن کی اسمگلنگ کے خاتمے کی ’’تکمیل‘‘ بھی ہوجائے گی!۔ اور یہی وہ اسٹرٹیجک پہلو ہیں جو اس باڑ کی تعمیر میں مضمر ہے۔