ڈاکٹر لال خان
افغانستان میں 27 جنوری کو ہونے والا ’’ایمبولنس بم دھماکہ‘‘ پچھلے 40 سال کے سب سے ہولناک قتل عام میں شمار ہو رہا ہے۔ اب تک 103 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 158 زخمی ہیں۔ کابل شہر کے مصروف ترین حصے، جہاں وزارت داخلہ کی پرانی عمارت تھی، میں ہونے والا یہ دھماکہ کروایا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس سے خوف و ہراس پھیلے اور افغانستان میں خلفشار اور بدامنی میں مزید اضافہ ہو۔ طالبان نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ دھماکہ کابل کے پرتعیش ’’انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل‘‘ میں ہونے والی دہشت گردی کے چند ہی دن بعد ہوا ہے جبکہ 29 جنوری کو کابل میں فوجی اکیڈمی پر داعش کے حملے میں 11 افغان فوجی ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق 5 حملہ آوروں نے فوجی اکیڈمی کے قریب چیک پوسٹ پر دھاوا بول دیا جن میں سے 4 کو ہلاک اور ایک کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ داعش نے شہر کے مغرب میں واقع نواحی علاقے میں مارشل فہیم ملٹری اکیڈمی کے قریب ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
امریکی سامراج کی طویل ترین جارحیت پر مبنی جنگ اور قبضے کے 17 سال بعد افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی رٹ کا کابل تک محدود ہونا ان کی شکستِ فاش کی غمازی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں یہ دہشت گردی کی کارروائیاں تواتر اختیار کر گئی ہیں۔ وسطی کابل کو ایک قلعہ نما زون بنا دیا گیا ہے۔ اونچی کنکریٹ کی بھاری دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں، لیکن یہ سب کچھ ان حملوں کو روکنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ پچھلے عرصے میں امریکا نے ایک نئی ’’حکمت عملی‘‘ سے کارروائیاں شروع کی تھیں جس سے انہیں امید تھی کہ جنگ کا پانسہ پلٹ جائے گا۔ افغانستان سے سامراجی اخراج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے جنوری کے آغاز میں امریکی میڈیا گروپ ’’سی بی ایس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نئی پالیسی فیصلہ کن ہوگی اور آخری معرکہ ثابت ہوگی۔ اس سے ہم فتح حاصل کرسکتے ہیں‘‘۔ اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجوں کے انخلا کا وعدہ کیا تھا لیکن فوجی کمانڈروں کے دباؤ کے تحت اس کو اْلٹ پالیسی لاگو کرنا پڑی اور اوباما کے دور کی فوجی تعیناتی میں، مزید فوجی دستے بھیج کر اضافہ کیا گیا۔ امریکی فوجی کارروائیاں پچھلے چند ہفتوں میں تیز تر کردی گئی ہیں اور امریکی جنگی طیاروں نے فضائی بمباری کے لئے زیادہ سے زیادہ اڑانیں بھرنا شروع کردی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے طالبان اور داعش بھی اپنے حملوں میں شدت لے آئے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ حکمت عملی انہیں کمزور کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت پر جتنا دباؤ بڑھ رہا ہے اس کی افسر شاہی بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے اس دہشت گردی کی کارروائی کا سارا الزام ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ پر لگایا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا موردِ الزام پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو ٹھہرانا چاہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے مغربی میڈیا ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کو پاکستانی ریاست کی پراکسی کے طور پر پیش کررہا ہے جبکہ حکومتِ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں ’’پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے افغانستان کی حکومت اور عوام سے یکجہتی‘‘ کا اعادہ کیا ہے۔ افغانستان میں بھارت جیسے ممالک کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ سیاسی اور عسکری پراکسیاں افغانستان کی اس خونی دلدل کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔ چھپ کر وار کرنے کی وارداتوں سے افغانستان اور پاکستان کے مغربی علاقوں کے غریب عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی اگرچہ مسلسل وفاداریاں بدلتے رہے لیکن کچھ رجائیت کا تاثر دینے کی کوشش ضرور کرتے تھے، لیکن موجودہ صدر اشرف غنی تو بالکل ہی حوصلہ ہار چکے ہیں۔ حال ہی میں ’’سی بی ایس‘‘ کی صحافی لارا لوگن سے بات کرتے ہوئے اْنہوں نے حیران کر دینے والا بیان دیا کہ ’’اگر امریکی فوجیں افغانستان سے نکال لی جاتی ہیں تو افغانستان کی فوج چھ ماہ میں ہی ڈھیر ہوجائے گی… ہم اس وقت مجبور ہیں… عوام کو دہشت زدہ کر کے طالبان نے ہماری حکومت کے بار ے میں شدید شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ اس دہشت سے عوام سڑکوں پر مظاہروں میں آئے اور ’’اشرف غنی کو پھانسی دو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے‘‘۔ یہ کسی ایسے حکمران کا بیان نہیں ہوسکتا جس کو ہار کے علاوہ کچھ نظر آرہا ہو، لیکن یہ کیفیت ہر اس حکمران کا مقدر ہوتی ہے جو اپنے ہی لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور سامراجی آقاؤں کی دلالی کرتا ہے۔ اگر ان کی زندگی کا وقت گزر بھی جائے تو وہ ننگ زمیں، ننگ آسماں اور ننگ وطن کے طور پر ہی جانے جاتے ہیں۔
پہلے عراق اور اب افغانستان میں امریکی سامراج کو شکست ہوئی ہے۔ اس کا اعتراف تقریباً آٹھ سال پہلے افغانستان میں امریکی فوجوں کے سپہ سالار جنرل اسٹینلے میکرسٹل نے اپنے استعفیٰ کی شکل میں کرلیا تھا۔ 17 سال قبل کی گئی جارحیت کا خمیازہ سامراجیوں کو بہت بُری طرح بھگتنا پڑا ہے۔ آج افغانستان کا 90 فیصد بجٹ امریکی خزانے سے آتا ہے۔ اِس کے برعکس یورپی سامراجی خاصے کفایت شعار اور منافقانہ سفارتکاری کے حامل ہیں۔ اسی عرصے میں 2400 سے زیادہ امریکی فوجی، جن کی اکثریت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھی، مارے جا چکے ہیں۔ اس جنگ پر امریکا ایک ٹریلین ڈالر صرف کر چکا ہے اور انجام ساری دنیا کے سامنے ہے۔ طالبان کے کنڑول میں، خود امریکی حکام کے مطابق 47 فیصد افغان سرزمین ہے۔
افغانستان کئی صدیوں تک سامراجی گریٹ گیم کا اکھاڑہ بنا رہا ہے۔ افغانستان کے عوام کے لئے امید کی کرن تب ابھری تھی جب 27 اپریل 1978ء کو نور محمد ترکئی کی سربراہی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (پی ڈی پی اے) نے اقتدار پر قبضہ کر کے ایک انقلابی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ اس سوشلسٹ حکومت نے جو ریڈیکل اقدامات کئے، ان میں سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ، تعلیم اور علاج کی مفت فراہمی، خواتین اور چھوٹی قومیتوں پر جبر کا خاتمہ اور دہقانوں میں زمینوں کی تقسیم شامل تھی، لیکن یہ انقلابی رجحانات عالمی سامراج اور علاقائی حاکمیتوں کے لئے بڑا خطرہ تھے۔ اس انقلابی حکومت کے خاتمے کے لئے افغانستان پر ڈالر کی یلغار کردی گئی۔ جنرل ضیاء الحق سامراجیوں کا سب سے بڑا سہولت کار تھا، جس نے اس رجعتی خانہ جنگی میں پاکستان کو دھکیل کر یہاں کلاشنکوف کلچر اور مذہبی دہشت گردی کو فروغ دلوایا۔ 14 سال بعد بائیں بازو کی حکومت تو داخلی غداریوں سے گر گئی لیکن افغانستان برباد ہوگیا اور پورے خطے کو بنیاد پرستی اور خونریزی کا ہولناک عفریت نگلنے لگا۔ آج اِنہی ’’مجاہدین‘‘ کے درجنوں گروہ ہیں، جو اپنے ہی تخلیق کاروں کے لئے درد سر بن گئے ہیں۔ سامراجی اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ روم سے لے کر خاندان مغلیہ تک‘ تمام سلطنتوں کا زوال اسی طر ح ہوا تھا۔ آج امریکی سامراج اس کیفیت سے دوچار ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی بیہودہ حرکتیں اِس عمل کو تیز تر کر رہی ہیں۔
افغانستان کو سب عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ نوچ رہے ہیں۔ کوئی ’’تعمیر نو‘‘ کے نام پر یہ کھلواڑ کر رہا ہے تو کوئی منشیات کے کالے دھن پر پلنے والی پراکسیوں کی براہِ راست پشت پناہی کر رہا ہے۔ افغان کٹھ پتلی ریاست کرپٹ اور جابر ترین جنگی سرداروں پر مشتمل ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس جیسے گماشتہ اداروں اور نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ کی اصلیت سب کے سامنے عیاں ہے۔ یہاں کے برباد عوام کے لئے 1978ء کا افغان ثور انقلاب ہی آج بھی مشعل راہ ہے۔