Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغانستان کو کس نے تباہ کیا؟

پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر
پاکستان کے حالیہ سرکاری دورے کے دوران جرمن وزیرخارجہ اینالینا بیرباک نے افغانستان کو تباہ کرنے کیلئے طالبان حکومت پر تنقید کی اور ان پر غلط سمت جانے کا الزام لگایا، اس نے کہا، والدین اپنے بچوں کو کھانا کھلانے سے محروم ہیں، لڑکیاں تعلیم کے حق سے محروم ہیں، خواتین کو معاشرے سے دور کردیا گیا ہے، اختلافی آوازیں دبا دی جاتی ہیں اور معیشت رک رہی ہے۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ایک مشترکہ پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا جب تک وہ اس راستے پر چلتے ہیں، مجھے معمول پر آنے اور یہاں تک کہ طالبان کو جائز حکمران تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ طالبان نے افغانستان میں لوگوں کیلئے ناقابل یقین مصائب اور بھوک لائی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس بحران کے نتائج افغانستان کی سرحدوں سے باہر ہوں گے اور پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ جرمن وزیرخارجہ کے اس بیان کو کہ طالبان حکومت اپنے سخت اور غیرمنطقی اقدامات کی وجہ سے افغانستان کے معاملات کو خراب کرنے کی ذمہ دار ہے، کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ انہوں نے طالبان حکومت پر لڑکیوں کو تعلیم دینے سے انکار کرنے اور ملک میں معاشی اور انسانی بحرانوں کو تیز کرنے والی غلط پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر افغان عوام کے درد اور اذیت میں اضافہ کرنے کا الزام لگایا۔ قدرتی طور پر کابل حکومت کو ان حالات میں بین الاقوامی شناخت یا قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوگی تاہم اس صورتحال کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کے بعد سے جرمنی نے دیگر ممالک کے ساتھ افغانستان میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس لئے موجودہ بحران کیلئے تنہا طالبان کو ذمہ دار ٹھہرانا غیرحقیقی ہے۔ یہ جانچنے کے قابل ہے کہ افغانستان میں جنگ، سویلین اور مسلح تصادم کو ہوا دینے کا ذمہ دار کون ہے۔ افغانستان کی تاریخ بدقسمت واقعات سے بھری پڑی ہے، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ 1996ء سے 2001ء تک طالبان اور ان کی پہلی حکومت کے آنے سے پہلے بھی ملک تباہی کا شکار تھا۔ افغانستان کی تباہی کا عمل اپریل 1978ء میں بائیں بازو کے ماسکونواز ثور انقلاب کے پھوٹ پڑنے اور اس کے بعد دسمبر 1979ء میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے شروع ہوا۔ ثور انقلاب کے دوران سینکڑوں اور ہزاروں لوگ مارے گئے، جس کی وجہ سے سوویت مداخلت ہوئی اور مجاہدین گروپ کے درمیان لڑائی۔ فروری 1989ء میں سوویت فوج واپس چلی گئی۔ لاکھوں افغان بے گھر ہوئے اور ملک نے تشدد کے بدترین مراحل میں سے ایک کا مشاہدہ کیا۔ 1994ء کے موسم خزاں میں طالبان کے ظہور کا مقصد امن لانا اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا جوکہ مجاہدین گروپوں اور جنگجوؤں کے درمیان شہری تنازعات کی وجہ سے بکھر گیا تھا۔ لوگوں نے طالبان کا خیرمقدم کیا جس کی وجہ سے وہ ستمبر 1996ء میں دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم طالبان جو امن قائم کرنے اور اپنے ملک کو جنگجوؤں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے برسراقتدار آئے، انہوں نے خود عوام کے خلاف زبردستی اقدامات شروع کردیئے۔ انہوں نے اپنا طرززندگی نافذ کیا، اپنی پہلی حکومت کے دوران طالبان افغانستان پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے میں مصروف تھے اور اسامہ بن لادن اور ایمن ظواہری کو القاعدہ بنانے سے روکنے میں ناکام رہے۔ اس نے بالآخر ملک کو بین الاقوامی دہشت گردی کے مرکز میں تبدیل کردیا، جس کی وجہ سے نائن الیون کے واقعات رونما ہوئے اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ غیرملکی قبضے کے خلاف طالبان کی مزاحمت اور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتوں کے نفاذ نے خانہ جنگی کے ایک اور مرحلے کو جنم دیا، جس کا اختتام گزشتہ سال امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کی اقتدار میں واپسی پر ہوا۔ اس طرح افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار اکیلے طالبان کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ یہ ملک سوویت یونین اور امریکی فوجی مداخلتوں اور قبضے کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ افغانستان کو کس نے تباہ کیا اور ملک آج بھی مسلح تصادم کا شکار کیوں ہے اس کا تین زاویوں سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے جدید تاریخ میں کسی دوسرے ملک میں تین دفعہ غیرملکی مداخلت نہیں ہوئی ہے، پہلے انگریزوں نے پھر سوویت یونین اور آخر میں امریکا۔ تاہم غیرملکی طاقتوں کے ساتھ، افغان اشرافیہ اور عوام کو بھی ایسے حالات پیدا کرنے کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے جو غیرملکی مداخلت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کیلئے ضروری ہوں۔ اس وقت افغانستان کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا ہے۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کی درجہ بندی بشمول اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام اور فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن نے انکشاف کیا ہے کہ خوراک کی زبردست کمی اور انسانی عدم تحفظ کی کیفیت پورے افغانستان میں برقرار ہے، ایک تباہ ہوتی معیشت اور خشک سالی کے باعث 20 ملین افغان خوراک سے محروم ہیں۔ ابتدائی طور پر امریکا نے 9.5 بلین ڈالر کی افغان رقم منجمد کردی تھی لیکن فروری میں انہوں نے اعلان کیا کہ 3.5 بلین ڈالر غیرسرکاری تنظیموں کو جاری کئے جائیں گے تاکہ افغانستان کو خوراک اور انسانی بحران سے نمٹنے میں مدد ملے۔ اس کے باوجود زیادہ تر افغانوں کو اب بھی بھوک اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے، جس سے ان کی روزی روٹی کو خطرہ لاحق ہے۔ بہت سے افغان محسوس کرتے ہیں کہ انہیں مسلسل جبر اور محرومی کا سامنا ہے۔ دوسرا، افغان اشرافیہ اور مافیاز نے طویل عرصے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور شہری تنازعات میں حصہ ڈالا ہے۔ درحقیقت بیرونی طاقتوں اور پڑوسی ممالک نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود بعض افغان حلقے پاکستان پر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور انسانی بحران کو مزید تیز کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان نے خود کو افغانستان کے اندرونی مسائل سے الگ کرلیا اور 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ اس نے معاشی اور تعلیمی مدد بھی فراہم کی ہے۔ یہ سب کچھ جبکہ پاکستان خود افغان جنگ کی وجہ سے منشیات اور ہتھیاروں کے پھیلاؤکے ساتھ ساتھ انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ تشدد میں اضافے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہا ہے۔ آخرکار خود کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے افغانستان کو جمہوری عمل اور سیاسی تکثیریت کو آگے بڑھانا چاہئے اور رواداری، اچھی حکمرانی اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا چاہئے۔ طالبان کو لوگوں کو انتخابی حصہ لینے کا حق فراہم کرتے ہوئے عملی نقطہ نظر پر عمل کرنا چاہئے۔ خواتین کے مساوی حقوق کو یقینی بنایا جائے، افغان عوام کئی دہائیوں سے مصائب کا شکار ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان سماجی اور انسانی ترقی پر توجہ دینے والی ایک نارمل ریاست بن جائے۔

مطلقہ خبریں