پاکستان نے اپنے قیام سے ہی افغانستان سے دوستانہ اور خوشگوار تعلقات کے قیام کے لئے ہرممکن کوشش کی جس کے لئے اس نے افغانستان سے ہر موقع پر تعاون کیا، افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت مہیا کی، پچاس لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی، روسی جارحیت کے خلاف جہاد میں افغان مزاحمت کاروں، امریکہ اور اس کے حامیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے بعد بھی پاکستان نے صبغت اللہ مجددی کی عبوری حکومت، طالبان کی حکومت، صدر کرزئی اور اب اشرف غنی کی حکومت سے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور تعاون کر کے دوستی کا ثبوت فراہم کیا۔ لیکن امریکی حملے، طالبان حکومت کے خاتمے اور اتحادی فوجوں کی موجودگی کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت کو بدقسمتی سے نیٹو افواج، ذمہ دار امریکی حلقے اور اپنے پیشرو صدر کرزئی کی طرح صدر اشرف غنی پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر فاٹا کو القاعدہ، طالبان، لشکرِ طیبہ، داعش، اسلامک موومنٹ اور حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کی مضحکہ خیز الزام تراشی کو اپنا معمول بنا چکے ہیں جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی اور کھچاؤ بھی پیدا کیا ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان نے افغانستان کی طرف سے دراندازی کی الزام تراشی روکنے اور منشیات کی اسمگلنگ کے ازالے کے لئے لاکھوں میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی تعیناتی کے علاوہ 1200 چیک پوسٹیں بھی قائم کر رکھی ہیں جبکہ افغانستان نے بھارت کو پاک افغان سرحد سے ملحقہ شہروں میں جابجا قونصل خانے قائم کرنے کی اجازت دے کر ان قونصل خانوں کو ’’را‘‘ کے دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کا کردار ادا کرنے میں بھرپور معاونت کی ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے سرحد کے آرپار منقسم خاندانوں کے افراد کی غیرقانونی آمدورفت روکنے کے لئے بارڈر پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان نے فاٹا، دیر بالا، چترال، خیبر اور مہمند ایجنسی کے علاوہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے صرف طاقت کے استعمال ہی کو اپنا لائحہ عمل قرار نہیں دیا بلکہ مذاکرات کے دروازے بھی بند نہیں کئے ہیں اور جو بھی تشدد کا راستہ ترک کر کے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتا ہے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ پائیدار امن کے قیام کے لئے مذاکرات، اقتصادی، سماجی اور سیاسی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی جنگ جو امریکہ اور مغرب کا ساتھ دینے پر شروع ہوئی آج شرپسند ہتھیار ڈال رہے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ تاریخی، سیاسی، مذہبی اور بالخصوص دونوں ملکوں کے ملحقہ قبائلی علاقوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی، معاشرتی، لسانی اور مذہبی اقدار و تعلقات بلاشبہ دونوں ملکوں کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان و افغانستان حکومت اور عوام مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں اور اس خطے میں پاک افغان دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے اور ترقی و خوشحالی کی جانب مثبت پیش رفت میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیں۔ اس کے لئے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اور بالخصوص پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزام تراشی اور اس کے پسِ پردہ عوامل کا خاتمہ افغان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ افغان حکمرانوں کو افغانستان میں نیٹو افواج اور افغان حکومت کے خلاف ہونے والی عوامی مزاحمت کے حوالے سے افغان عوام کے مزاج، تاریخ، حکومت سازی میں اکثریتی گروپوں کو نظرانداز کر کے ایک اقلیتی گروپ کو ایوانِ اقتدار میں بٹھانے اور بالخصوص نیٹو افواج کی طرف سے بے گناہ اور پُرامن افغان شہریوں کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی آڑ میں نشانہ بنانے کے منفی اثرات اور عوامی ردعمل کو ایک لمحہ کے لئے بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ محض طاقت کا استعمال اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی اس مسئلے کا حل نہیں۔ بلکہ پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششیں تیز کرنا ہوں گی کیونکہ دونوں ملکوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور انسانیت کے لئے سب سے بڑے چیلنج غربت و افلاس، بے روزگاری، گرانی، دہشت گردی، انتہاپسندی ایسے سنگین مسائل کے حل کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان مثبت تعاون و اشتراکِ عمل سے عوام کا مقدر بدل سکتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران پکڑے جانے والے دہشت گردوں میں بڑی تعداد غیرمسلموں کی ہے جنہوں نے بظاہر شکل و صورت اور لباس کے ذریعے قبائلی ہونے کا روپ دھار رکھا تھا۔ آخر افغانستان نے بھارت کو پاک افغان سرحد سے ملحقہ شہروں میں بڑی تعداد میں قونصل خانے کھولنے کی اجازت کیوں دی ہے۔ پاکستان دشمن عناصر کی پذیرائی، انہیں تمام تر سہولتیں اور مراعات فراہم کرنے کے عمل میں دن بدن تیزی آرہی ہے جبکہ افغان صدر پاکستان کو دراندازی اور دہشت گردی کا مرتکب قرار دینے کی بے بنیاد الزام تراشی سے باز نہیں آتے۔ افغان حکمران اور ان کے سرپرست پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی بجائے تعاون اور اشتراکِ عمل کے اس جذبے کو آگے بڑھانے اور عملی شکل دینے میں پاکستان کا ساتھ دیں۔
افغانستان کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ دونوں ممالک کی ترقی و بہبود اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک اسلام آباد اور کابل آپس میں مل کر باہمی مفادات پر مبنی ایک جامع، مربوط اور پائیدار حکمتِ عملی تشکیل دے کر اس پر پورے خلوص سے عمل پیرا نہیں ہوتے۔ چونکہ دونوں ملکوں کے باشندے دہشت گردی کی وجہ سے مصائب و مشکلات میں مبتلا ہیں اس لئے ان کا احساس کرتے ہوئے اب الزام تراشی کے پرانے رویوں کو ترک کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر گزشتہ 17 سالوں کے حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے سوا اور کوئی راستہ موجود نہیں اس لئے افغانستان کو پاکستان کے ایک خیرخواہ دوست، بھائی کی حیثیت سے پہچانا جانا چاہئے کیونکہ ہر دو ممالک کا استحکام ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام میں صدیوں پرانے جو تاریخی، تہذیبی اور مذہبی رشتے قائم ہیں بلاشبہ ان کا یہی تقاضا ہے کہ ان میں محبت و الفت کے تعلقات ہمیشہ برقرار رہیں تا کہ وہ ہر مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔ لہٰذا اسے امریکہ کی دوہری پالیسی اور کبھی حکمرانوں کی چالوں میں آ کر پاکستان دشمنی پر مبنی پالیسی نہیں اپنانی چاہئے بلکہ افغانستان کی قیادت کو چاہئے کہ بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اور پاکستان کے مفادات کے لئے ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کریں۔ یہ سوچیں کہ اگر امریکہ اپنے عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لئے سات سمند پار سے آ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ کرسکتا تو پاکستان اور افغانستان اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اسی دردمندی اور احساس کے ساتھ آپس میں سر جوڑ کر کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔
افغانستان کو اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانا ہو گی
رانا زاہد اقبال