Saturday, July 26, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغانستان میں امن واستحکام کی غیرسنجیدہ کوششیں!

طالبان روایتی اتحادیوں سے محروم اور امریکی نئی حکمت عملی کے سبب امارات اسلامیہ مضبوط ہورہی ہے

قادر خان یوسف زئی

افغانستان میں قیام امن کے لئے گزشتہ دنوں عالمی سطح پر دو بڑے اجلاس منعقد ہوئے۔ دونوں اجلاس عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنے۔ خاص طور پر سعودی عرب کے شہر جدہ میں مسلم اکثریتی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی کی جانب سے دو روزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں 57 مسلم اکثریتی ممالک نے شرکت کی۔ جدہ کانفرنس میں علما اور مذہبی دانشوروں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ بظاہر اجلاس کا مقصد افغانستان میں قیام امن کے لئے مختلف طریقوں پر غور کرنا تھا۔ ماضی میں افغان طالبان کی ریاست کو سعودی عرب نے دنیا کی مخالفت کے باوجود سوویت یونین کی شکست کے بعد تسلیم کیا تھا تاہم سعودی عرب پر امریکا کے دباؤ میں اضافے اور شاہ سلمان کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں تبدیلی میں امارات اسلامیہ کے حوالے سے بھی واضح تبدیلی آئی اور سعودی عرب نے امارات اسلامیہ کو امریکی مطالبات سمیت کابل حکومت کی جانب سے پیش کردہ فارمولے کو تسلیم کرانے کے لئے امارات اسلامیہ پر دباؤ بڑھایا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان امریکا سے براہ راست بات چیت اور مذاکرات کے لئے سیاسی عمل پر زور دیا جارہا ہے تاہم افغان طالبان کابل حکومت کی جانب سے تمام پیشکشوں کو مسترد کرتے ہوئے غیرملکی افواج کے انخلا اور امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امریکا کے لئے یہ عمل دشوار ہوتا جارہا ہے اور بالآخر امریکی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے یہ خبریں منظرعام پر آئیں کہ امریکا افغانستان کے حوالے سے اپنی مسلسل شکست کے بعد حکمت عملی تبدیل کرنے پر غور کررہا ہے اور اس نئی حکمت عملی میں قطر میں قائم امارات اسلامیہ کے سیاسی دفتر کو دوبارہ فعال بنانے کے امکانات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ امید قائم ہوتی جارہی ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی شکست کے بعد خطے میں اپنی مسلسل موجودگی کے لئے لاحاصل اخراجات کرنے کے بجائے ایسا طریقہ کار اختیار کرسکتا ہے جس میں امریکی خزانے کے بوجھ میں اضافہ بھی نہ ہو اور مخصوص مفادات کے لئے امریکا افغانستان میں موجود بھی رہے۔
امارات اسلامیہ کے لئے یہ بہت بڑا چیلنج بھی ہے کہ امریکا کو افغانستان سے مکمل طور پر انخلا کے لئے کتنا مجبور کیا جاسکتا ہے۔ گو کہ افغان طالبان کو اس وقت داعش، کابل حکومت، امریکا اور نیٹو ممالک کے علاوہ ایسی جنگجو تنظیموں کی جانب سے بھی مزاحمت کا سامنا ہے جنہوں نے کابل حکومت سے مفاہمت کرلی ہے۔ افغان طالبان جہاں اپنے روایتی اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہورہے ہیں تو دوسری جانب خطے میں امریکی بالادستی کی نئی حکمت عملی کے سبب نئے اتحادی ممالک کی شمولیت نے امارات اسلامیہ کی قوت میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ استحکام امن کے حوالے سے جدہ کانفرنس سے یہ توقعات وابستہ کی گئیں کہ افغان طالبان کے خلاف سخت موقف سے امارات اسلامیہ کے لئے کابل حکومت و نیٹو کے خلاف حملے کرنے میں مشکلات پیدا ہوں گی لیکن امارات اسلامیہ کی جانب سے مزید سخت موقف نے امریکا کی مایوسی میں اضافہ کردیا ہے۔ خاص طور پر داعش کی بڑھتی سرگرمیوں اور امریکی کردار کی وجہ سے امارات اسلامیہ کو روس، ایران اور چین کی حمایت حاصل ہونے سے روایتی اتحادیوں پر انحصار کم ہونے میں مدد ملی ہے۔
برسلز میں نیٹو کی سالانہ کانفرنس میں بھی افغانستان کی مالی امداد کے علاوہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر غوروفکر کیا گیا۔ واضح رہے کہ 2012ء میں نیٹو اتحادیوں کی جانب سے فوج کے انخلا پر اتفاق رائے پایا گیا تھا۔ گو کہ امریکا کے سابق صدر نے امریکی شہر شکاگو میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا سربراہی اجلاس میں افغانستان سے غیرملکی افواج کی واپسی کی حکمت عملی کی توثیق کی تھی۔ اعلامیے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ 2014ء میں افواج کے انخلا کے بعد نیٹو کا کردار تربیت اور مشاورت کا رہ جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود امریکا نے افغانستان میں فضائی حملوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا۔ جس سے صورتِ حال میں مزید بے یقینی بڑھ گئی۔ امارات اسلامیہ کی جانب سے افغانستان کے کئی اضلاع پر قبضے کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور کابل حکومت سمیت امریکا کی تمام تر کارروائیاں فضائی حملوں تک محدود ہوگئیں جس میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے شکاگو اجلاس کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ افغان طالبان میں اتنی قوت نہیں کہ غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرلیں لیکن صرف چار برس بعد عالمی نشریاتی اداروں سمیت خود امریکی انتظامیہ متعدد بار تسلیم کرچکی ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے اور اضلاع پر قبضے کا سلسلہ طویل ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت افغانستان کے 60 فیصد سے زائد حصے پر طالبان کی عمل داری ہے تو دوسری جانب کابل حکومت سکڑ چکی ہے۔ کابل میں بھی سخت ترین حفاظتی انتظامات کے باوجود افغان طالبان کے فدائی حملوں نے کابل و امریکی حکومت کو زچ کردیا ہے۔
برسلز اجلاس میں کابل حکومت کی جانب سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے شرکت کی، دونوں حکومتی عہدے داروں کے درمیان اختلافات برسلز اجلاس میں بھی کھل کر سامنے آئے۔ جان کیری نے پارلیمانی مدت ختم ہونے کے باوجود نئے انتخابات نہیں کروائے جس کی وجہ سے دونوں حکومتی شخصیات کی تمام توجہ اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے پر رہی۔ اطلاعات کے مطابق دونوں عہدے دار الگ الگ طیاروں میں گئے جہاں انہیں نیٹو حکام کا پروٹوکول تک نہیں ملا بلکہ کابل سفارتخانے کی گاڑی نے انہیں اجلاس کے مقام پر پہنچایا۔ یہ بڑی مضحیکہ خیز صورتِ حال تھی جس میں یہ باور نہیں کرایا جاسکا کہ افغانستان کے عوام کی حقیقی نمائندگی کون کررہا ہے۔ گو کہ اجلاس کا اہم موضوع افغانستان کی موجود صورتِ حال تھی تاہم امریکی صدر نے اجلاس کو متنازع بنا دیا اور یورپی یونین پر مختلف الزامات عائد کرتے ہوئے نیٹو اجلاس کی مقصدیت کو سبوتاژ کردیا۔ یورپی یونین پر امریکی صدر نے الزام لگایا کہ وہ نیٹو کے فریم ورک پر مالی اور فوجی تعاون نہیں کررہے۔ نیز روس اور ایران کی یورپی یونین کے جانب سے حمایت پر امریکا کافی برہم نظر آیا۔ اہم صورتِ حال یہ بھی تھی کہ امریکا کے ساتھ ساتھ برطانیہ نے بھی مزید 4 ہزار اضافی فوجیوں کا ارادہ ظاہر کیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں استحکام امن کے لئے سیاسی مذاکرات اور جاری جنگ کے تسلسل میں فرسٹریشن کا شکار ہیں اور سمجھ نہیں پا رہے کہ افغانستان کو طاقت سے فتح کرنے میں ناکامی کے بعد اب کون سا حربہ استعمال کیا جائے جس سے انہیں مزید شرمندگی کا سامنا اٹھانا نہ پڑے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’’نیٹو میں شامل تمام ممالک افغانستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور جنگ جاری رکھیں گے۔ اس ضمن میں برطانیہ نے ساڑھے چار ہزار اضافی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کا عندیہ دیا اور یہ بھی معلوم نہیں کہ تازہ ترین فوجی افغانستان میں موجود 600 برطانوی فوجیوں کی جگہ خدمات انجام دیں گے یا اس کے علاوہ ہوں گے۔ نیٹو کے ایک رکن ملک ’’مقدونیہ‘‘ نے کابل انتظامیہ کے ساتھ تعاون کا ایک عجیب اعلان کیا کہ وہ صرف 1000 ڈالر امداد فراہم کرے گا۔‘‘
دوہری حکومت کے دونوں سربراہان اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور امریکی صدر نے ان سے ملاقات نہیں کی۔ ٹرمپ نے ملاقات کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کریں گے تاہم نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹول ٹنبرگ نے بھی جلد جواب دے دیا کہ وہ ان کے ساتھ ملنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ آپ واپس افغانستان چلے جائیں اور اپنی حکومت کو بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں!!۔
نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں برسلز کانفرنس اور سعودی عرب کے شہر جدہ کانفرنس کا مقصد غیرملکی افواج میں اضافے اور مالی امداد کے لئے تھا۔ جدہ کانفرنس میں علماء سے افغانستان میں جاری جنگ و مزاحمت کے حوالے سے امارات اسلامیہ نے جاری فتویٰ پر اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور افغانستان میں جاری مسلح مزاحمت کو امریکی ایما پر متنازع بنانے پر سعودی حکومت کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کابل انتظامیہ میڈیا کے سامنے یہ وضاحت کرتی ہے کہ ’’افغانستان تنازع کے حل کے لئے غیرملکی دوستوں سے ان کانفرنسز کے انعقاد کی درخواست کی گئی ہے۔‘‘ لیکن یہ اہم سوال بھی سامنے آیا ہے کہ گزشتہ 17 برسوں میں ایسے کئی تجارب کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ افغانستان میں غیرملکی افواج و کابل حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافے نے افغانستان میں قیام امن کے لئے امن پسند دوست ممالک کی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان اور دشواریوں کا شکار کیا ہے۔ غیرملکی افواج اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کی وجہ سے نہتے شہریوں کے قتل عام اور خاص طور پر پاکستان میں شدت پسندی کی نئی لہر میں اضافے کو تشویشناک قرار دیا جارہا ہے۔ یہاں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگر، ننگرہار، خوست، ہلمند، بلخ، غزنی،زابل، قندھار اور دیگر صوبوں میں امریکی و کابل سیکورٹی فورسز کے فضائی حملوں اور چھاپوں کے نتیجے میں تباہ کن صورتِ حال کے دردناک مناظر کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا میں شیئر ہونے کے بعد کابل اور امریکی حکومت کی حمایت میں تیزی سے کمی کا رحجان جاری ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پمپیو خفیہ دورے پر افغانستان آ کر کابل انتظامیہ کے سربراہان کو یہ عندیہ دیتے ہیں کہ ’’ہم افغانستان میں موجود رہیں گے۔‘‘ اسی دن مخلوط حکومت کے سربراہ نیٹو سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے چلے جاتے ہیں تاکہ ان سے فوجی تعداد اور ڈالر بڑھانے کی اپیل کی جائے۔
کابل حکومت جانبدارانہ پالیسی میں امریکی فورسز کی جارحیت کے خلاف تضادات نے صورتِ حال کو مزید مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ دلچسپ صورتِ حال اس وقت سامنے آئی جب کابل انتظامیہ کے نمدئندے مولوی ’’ملا کشاف‘‘ نے کانفرنس سے خطاب کے دوران جو خط پڑھ کر سنایا، اس میں لکھا تھا: آخر میں ہم آپ سب علماء کو دعوت دیتے ہیں کہ افغانستان آ کر جنگ زدہ قوم کی صورتِ حال قریب سے دیکھیں۔ جنگ کے متاثرین، بیواؤں اور یتیموں کی حالت قریب سے دیکھیں۔ ہمیں یقین ہے آپ لوگ رونے پر مجبور ہوجائیں گے۔ حکومت کے خلاف جاری جنگ کو ناجائز قرار دینے کا اعلان کریں گے۔‘‘ جدہ کانفرنس میں جہاں کابل نمائندوں نے جب یکطرفہ موقف پیش کیا تو امارات اسلامیہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’سب علماء بے ضمیر اور دنیا کے لالچی نہیں ہیں، جو بند آنکھوں کے ساتھ امریکی جارحیت کو جواز فراہم کرنے کا فتویٰ جاری کریں گے۔ ملا کشاف نے کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ افغانستان کو جنگ نے تباہ کردیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ جنگ کس نے مسلط کی ہے اور کس نے یہ ملک تباہ کیا ہے؟ انہوں نے چالیس ممالک کی یلغار کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی سانحہ قندوز کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے صرف یہ مطالبہ کیا کہ کابل انتظامیہ کے خلاف طالبان کے جہاد کے خلاف فتویٰ جاری کیا جائے۔‘‘ کابل انتظامیہ کے سربراہ کچھ عرصہ قبل تک بڑے فخر کے ساتھ جنگ کو جاری رکھنے پر بہت زور دیتے تھے اور کہتے تھے کہ امن کو طاقت کے زور پر قائم کیا جائے گا۔ سلامتی کے لئے ہونا ضروری ہے، امن کا نام غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے، امن کو جنگ میں بالادستی قائم کرنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے، امن کی اہمیت کے ساتھ سطحی اور برائے نام سلوک کرنا نہ صرف امن کا خواب چکناچور کرنے کا موجب بنے گا بلکہ جنگ میں شدت لانے کا سبب بھی بنے گا۔ امن افغان عوام کی سب سے بڑی خواہش ہے، امن ملک کی آزادی، مظلوم قوم کی خوشحالی، وطن عزیز کے استحکام اور سرحدوں کی حفاظت، تمام برادر اقوام کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے، علاقائی سالمیت کے لئے اور تعصب، غصب، قوم پرستی، امتیازی سلوک، بھتہ خوری، اخلاقی اور مالی کرپشن کے خاتمے، اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی کے خلاف اور سب سے بڑھ کر عوام کی خواہشات کے مطابق نظام کے نفاذ کے لئے ایک بہترین ویژن اور اہم ضروری اقدام ہے۔
کابل حکومت کے ’’سرحدی امور کے وزیر گل آغا شیرزئی نے دعویٰ کیا تھا کہ مجاہدین کی قیادت کے ساتھ گزشتہ تین ماہ سے بات چیت کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ قندھار کے کمانڈر نے بھی گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ ہم 60 مجاہدین رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ اس سے قبل بھی انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ 50 سینئر مجاہدین رہنما ان کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔‘‘ لیکن امارات اسلامیہ کے ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے اسے پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔ پہلے اشرف غنی نے امارات اسلامیہ کے ساتھ ہر قسم کےِ مذاکرات کے امکانات کو مسترد کیا تھا لیکن اب زچ ہونے کے بعد امارات اسلامیہ کو اسٹیک ہولڈر تسلیم کرلیا ہے اور افغانستان میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بار بار اپیل کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے امارات اسلامیہ سے 2001ء میں اقتدار چھینا تھا لہٰذا قانونی اور اخلاقی طور پر امریکا پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ افغانستان کے حقیقی اسٹیک ہولڈر سے براہ راست مذاکرات کریں یا پھر جاری جنگ میں مزید نقصانات کو برداشت کرتے رہیں۔ 2001ء سے اب تک B-52 طیاروں کی وحشیانہ بمباری اور افغانستان پر ٹینکوں کی گولہ باری سے عام شہریوں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ دن رات نہتے شہریوں کے گھروں پر افغان طالبان کو پکڑنے کے نام پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ عوام پر تشدد اور ان کا قتل عام معمول بنتا جارہا ہے۔ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے میں امریکی و کابل سیکورٹی فورسز ملوث ہیں۔ مادر بم اور دیگر خطرناک بموں کی کارپیٹ بمباریوں نے عوام کو مکمل غیرمحفوظ بنا رکھا ہے۔
حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکی حملہ آوروں نے گزشتہ دو دہائیوں سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسی بھی ناکام ثابت ہوئی اور مایوس ہو کر رواں سال کے آغاز سے امن کے نام پر دوہری پالیسی اپنا لی ہے۔ اس لئے کبھی امن ریلیوں کے نام پر، کبھی علما کانفرنسوں کے تحت اور کبھی تاجکستان اور دیگر ممالک میں امارات اسلامیہ کے خلاف منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ان تمام منصوبوں کے پیچھے براہ راست امریکا کارفرما ہے۔ امن ریلیوں کے شرکاء اگر واقعی مخلص اور امن کے خواہاں ہیں تو امریکا کو براہ راست مذاکرات کے لئے مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ امارات اسلامیہ کا واضح موقف بھی سامنے ہے کہ اگر واقعی میں کوئی انہیں کچھ ایسا نظر آتا ہے جو افغانستان میں استحکام امن کے لئے عملی کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ بھی ہتھیار پھینک دیں گے اور عوام کے دفاع سے بھی دستبردار ہوجائیں گے، لیکن پہلے وہ صرف یہ آواز بلند کریں کہ جارحیت پسند اور غیرملکی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں، فضائی حملے بند کئے جائیں، افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے، فضائی اور زمینی حدود میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ختم کی جائے، غیرملکی حملہ آوروں کو بتائیں کہ آپ نے گزشتہ 18 برس کے دوران موت، تباہی، بمباری اور بے عزتی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ تمام جرائم اور مسائل کی بنیادی وجہ اور فساد کی جڑ امریکی یلغار ہے، جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ امن ریلیوں کے شرکاء ہوں یا امن دوست ممالک کو عوام کے بنیادی مسائل کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ افغانستان میں امن کا استحکام کیوں ناکام ہورہا ہے۔ عوام باشعور اور مسائل کی بنیادی وجہ جانتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ افغانستان میں بنیادی مسئلہ کہاں پیدا ہوا اور امن کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اگر امن پسند ممالک اس حقیقت کا ادراک کریں تو امن لانے کا ایک آسان راستہ انہیں میسر آسکتا ہے۔ برسلز اور جدہ کانفرنس جیسی کانفرنسیں اور بھی منعقد ہوجائیں لیکن اس کا حقیقی فائدہ اس وقت ہی سامنے آسکتا ہے جب امریکا اور موجودہ کابل حکومت امن کی قرار واقعی خواہش بھی رکھتی ہو۔ حقیقت سے خالی بیانات دینے سے مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا، امریکا کو اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہوگا، طاقت کی ناکامی کے بعد امن کا واحد راستہ مذاکرات رہ جاتا ہے، جس سے روگردانی امریکا کے لئے مزید نقصان کا سبب بنے گا۔

مطلقہ خبریں