امتیاز کاظم
افغانستان کے صوبہ کنہڑ میں نیٹو فورسز کے ڈرون حملہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملا فضل اللہ مارا گیا۔ یہ واقعہ 13 جون کو پیش آیا۔ اس سے قبل 17 مئی سے 26 مئی تک صرف 10 دن میں امریکی فورسز کے حملے میں 70 سے زائد سینئر طالبان کمانڈر مارے جا چکے ہیں جس میں 24 مئی کا بڑا حملہ بھی شامل ہے اور اس میں جدید راکٹ سسٹم کے ذریعے موسیٰ قلعہ میں 50 طالبان کمانڈر مارے گئے جوکہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں طالبان کا ہلمندکے لئے متبادل ڈپٹی گورنر کئی اضلاع کے ناظم انٹیلی جنس کمانڈر اور ہرات، قندھار، فرح اورزگان اور ہلمند صوبوں کی اعلیٰ طالبان قیادت شامل تھی۔ ان حالات میں مذاکرات کی بات ’’ظلم رہے اور امن بھی ہو‘‘ کے مترادف ہے۔
موجودہ مذاکرات غالباً اشرف غنی کی فروری پیشکش کا نتیجہ ہیں۔ فروری میں اشرف غنی نے طالبان کو پیشکش کی تھی کہ ’’اگر طالبان ہندوکش کی اس ریاست کے 2004ء میں منظور ہونے والے آئین کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی فائر بندی پر بھی تیار ہوجائیں تو ان کے ساتھ نہ صرف بات چیت ہوسکتی ہے بلکہ ایسی مکالمت کی تکمیل پر تحریک طالبان کو ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے‘‘۔
یہ پیشکش ایک دْہرا معیار لئے ہوئے ہے کیونکہ امریکا اور اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ ہی اس لئے کیا تھا کہ طالبان کی حکومت جو کہ امریکا کے لئے خطرہ بن چکی تھی، اْسے ختم کیا جائے اور اشرف غنی یا امریکا کا کہنا ایک ہی بات ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعت تسلیم کرنے کا شوشہ چھوڑ کر طالبان میں سیاسی جماعت کی سربراہی کے لئے اندرونی جنگ کا پورا سامان مہیا کردیا گیا۔ 1978ء سے پہلے تقریباً دو صدیوں تک یہاں پشتونوں کے دْرانی قبائل کسی نہ کسی صورت حکومت سے وابستہ رہے۔ اب بھی 40 فیصد پشتون یہ چاہیں گے کہ سربراہی اْن کے پاس ہی رہے جبکہ 30 فیصد تاجک 15 فیصد ہزارہ لوگوں سے مل کر ان کے مقابلے پر آسکتے ہیں یا 10 فیصد ہزارہ کے ساتھ بھی مل سکتے ہیں۔
جرمنی کے شہریوں میں 2001ء میں ہونے والی تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں شراکت اقتدار کا فارمولہ طے کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس میں جھول یہ تھی کہ اس سیاسی عمل میں طالبان کو شریک نہ کیا گیا، اب طالبان کو نہ صرف شریک بلکہ باقاعدہ سیاسی جماعت تسلیم کرنے کی پیشکش چہ معنی دارد؟ جبکہ 2004ء، 2009ء، 2014ء کے انتخابات کے بعد اب 2019ء میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور پشتون اشرف غنی 2014ء کے انتخابات میں 30 فیصد تاجکوں کی حمایت کھو بیٹھے تھے اور تاجک عبداللہ عبداللہ دھڑے میں شامل ہوگئے تھے۔ 2019ء کے انتخابات میں اگر طالبان سیاسی جماعت بن کر 30 فیصد تاجکوں کو ساتھ ملالیں تو اقتدار کا سہرا ان کے سر پر سجے گا، کیا ایسی حکومت امریکا یا اس کے اتحادیوں کے لئے قابلِ قبول ہوگی؟ دوسری طرف طالبان نے اشرف غنی کی اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے حملے تیز کر دیئے جسے انہوں نے موسم بہار کی جنگی حکمت عملی کا نام دیا ہے۔ اس کے جواب میں امریکی اتحادی افواج نے بھی اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور طالبان کو نقصان پہنچایا ہے۔
مارچ 2008ء سے افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کے اعلیٰ ترین کمانڈر اور امریکی ریزولیوٹ سپورٹ کی قیادت کرنے والے جنرل جان نکلسن اپنی فوجی حکمت عملی آزما رہے ہیں جس کے تحت زیادہ سے زیادہ نقصانات پہنچا کر طالبان کو عسکری دباؤ میں لاکر مذاکرات پر مجبور کرنا ہے لیکن یہ تماشا وہ نائن الیون سے لے کر اب تک بہت دفعہ کرچکے ہیں اور ناکام رہے ہیں۔ نکلسن کی یہ جنگی حکمت عملی بھی شاید ناکارہ ہوجائے۔ زمینی اور فضائی حملوں سے نقصان الگ چیز ہے اور ملک کے بیشتر حصوں میں طالبان کا مضبوط کنٹرول ایک الگ حقیقت ہے، یقیناً نکلسن کا طاقت کا استعمال اور عسکری دباؤ کا فارمولہ ناکامی سے دوچار ہوگا لہٰذا اشرف غنی کو نرم شرائط کے ساتھ طالبان سے مذاکرات کے لئے آگے کیا گیا ہے۔ مارو اور رونے بھی نہ دو کی پالیسی وہاں کامیاب ہوتی ہے جہاں مقابلے کی سکت نہ ہو۔ افغان کم و بیش چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں اور برابر کی چوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ 17 سے 26 مئی کے حملوں کا بھی افغان طالبان نے 9 جون کو جواب دے دیا ہے۔
صوبہ قندوز اور ہرات میں طالبان نے سیکورٹی فورسز پر حملے کرکے 18 فوجی اور 26 پولیس اہلکار ہلاک کردیئے ہیں اور یہ بات صوبائی حکومت کے ترجمان نعمت اللہ تیموری کے توسط سے منظرعام پر آئی ہے جبکہ ہرات کے صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے فرانسیسی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے 9 جون کو رات گئے ضلع زاوال میں افغان فوجی اڈے پر حملہ کرکے 18 فوجیوں کو ہلاک کردیا ہے یعنی نکلسن عسکری دباؤ کا فارمولہ مکمل ناکامی کی زد پر ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جنگ چھیڑنا امریکا کے اختیار میں تھا لیکن اب جنگ بند کرنا افغانیوں کے اختیار میں ہے، وہ جب چاہیں جنگ کو تیز کردیں، جب چاہیں جنگ کو سست کردیں، چنانچہ عید پر افغان طالبان نے 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان کرکے یہ بات ثابت کردی ہے۔ طالبان سربراہ مولوی ہیبت اللہ نے اس سیزفائر کا اعلان کیا تھا، اصل بات یہ نہیں کہ تین دن کے لئے جنگ بندی ہو۔ اصل بات مستقل امن ہے اور یہ غیرملکی افواج کے انخلاء تک ممکن نہیں اور دوسری بات جو امن کی ضامن ہے وہ بے معتبر اور قابل بھروسہ صدارتی حکومت، موجودہ حکومت بھی دو دھڑوں پر مشتمل ہے۔
ایک دھڑا (پشتون) اشرف غنی کا حامی ہے دوسرا دھڑا (تاجک)۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا حامی ہے اور اگر طالبان بطورِ سیاسی جماعت 2019ء کے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو تیسرا دھڑا (طالبان) مولوی ہیبت اللہ یا طالبان حمایت یافتہ کوئی اور شخص ہوگا لیکن اصل بات پھر وہی ہے کہ امن کے لئے بہت سے اقدامات میں سے ایک قدم یہ بھی ہے کہ وہاں ایک معتبر اور عوامی حمایت یافتہ عوامی اْمنگوں کے مطابق حکومت قائم ہو جبکہ امریکا یہ نہیں چاہے گا، اْس کی ہرممکن خواہش ہوگی کہ اْس کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہو جو اْس کے مفادات کا بھرپور خیال رکھے اور وہ جو کیسے پورا ہو ورنہ جنگ کا بازار گرم رکھا جائے گا اور قتل وغارت گری اور بے گناہ شہریوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا یقیناً ظلم کے بازار میں امن نہیں بِکتا۔
خون سے سینچی ہوئی فصل سے شہد کی مٹھاس کی توقع عبث ہے۔ بارود کی بْو والی فضا سے پھولوں کی مہک نہیں آسکتی۔ فولادی بندوقوں والے ہاتھ گلاب کی نرمی کو کیا جانیں، دھماکوں کی آواز کے عادی کان کوئل کی کْوک کے شناسا نہیں رہے۔ نئی نسل کے بچے کتابی علم کی بجائے ریموٹ کنٹرول دھماکوں کا علم سیکھ رہے ہیں۔ غلیل ہاتھ میں رکھنے والے اب بندوق ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں۔ ان بچوں کی تعلیم کی ترجیح کی بجائے اپنے علاقوں کی حفاظت اوّلین ترجیح ہے۔ انگریزوں کا انہیں دیکھتے ہی غصّے میں آنا فطری عمل ہے۔ سامراجی ظلم وجبر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بچے اب بچے نہیں رہے، تعلیم ان کا مقدر نہیں رہی۔ روزگار کے لئے مارے مارے پھرتے بچے اب گند میں رزق تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
بھوک ان کے چہروں پر ثبت ہو کر رہ گئی ہے۔ افغانوں کے لئے اب عید عید نہیں رہی۔ خوشی غمی کے موقع پر ہونے والے اکٹھ میں ہر ایک کا دل دہل رہا ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی سامراجی راکٹ ان کی راہ دیکھ رہا ہے۔ عید کا تین دن کا امن افغانوں کے لئے یقیناً خوشی کا باعث بنا ہے کہ وہ سامراجی جبرواستبداد کے سائے میں نہیں بلکہ امن کے سفید جھنڈے کے سائے تلے بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہوئے۔ تین دن کے اس امن کی خوشی کا واضح ثبوت یہ رہا کہ طالبان کو کابل کی گلیوں میں گشت کرتے اور لوگوں سے ملتے، سیلفیاں لیتے دیکھا گیا جبکہ عید کے دنوں میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جب میں افغان شہری طالبان اور دیگر زعماء سے ملک میں امن کے مستقل قیام کی استدعا کرتے نظر آئے۔ تاہم تادم تحریر یہ خبر بھی تھی کہ طالبان جنگ بندی کی مدت میں توسیع کے حامی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی لڑائی اللہ کے لئے ہے، کسی دوسرے ملک یا پاکستان کے لئے نہیں اور وہ اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجودہ ہے۔ طالبان کے اس موقف سے ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ افغانستان میں موجودہ جنگ کا سبب ملک میں امریکی اور اتحادی فورسز کی موجودگی ہے اور اگر آگ اور خون کے اس کھیل کو روکنا ہے تو امریکا کو یہاں سے نکلنا ہوگا۔
دوسری بات یہ کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے پاکستان کی اہمیت اور کوششوں سے انکار ممکن نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاک افغان تعلقات کو معمول پر لانے، خطے میں استحکام اور دو پڑوسی ملکوں کو دہشت گردی، بے اعتمادی کے خاتمے اور باہمی یکجہتی اور امن کے لئے مشترکہ کوششوں کو نتیجہ خیز بنانا ناگزیر ہے کیونکہ اس طریقے سے ہی نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ جنوبی اور وسط ایشیا میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان بلاشبہ اپنی تاریخ کے موجودہ دورانیے کی سب سے اعصاب شکن صورت حال سے دوچار ہے، جس میں افغان طالبان کے مسلسل خودکش حملوں، بم دھماکوں، داخلی بدامنی اور نیٹو فورسزکی موجودگی کے باوجود افغانستان میں امن ابھی سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، جس میں اصل کردار خود افغان حکومت کا ہے، جو خطے کی خوفناک صورتِ حال کے ادراک کے بجائے امریکا بھارت کے گٹھ جوڑ سے الگ ہونے کو تیار نہیں، حالانکہ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لئے زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔
افغان طالبان کی شورش کے تسلسل کے بعد اب داعش نے بھی وہاں اپنے خونیں پنجے گاڑ لئے ہیں، داعش بھی افغانستان میں اپنی کارروائیاں کررہی ہے اور اس کا دائرہ کار مسلسل فروغ پذیر ہے جو افغانستان میں جاری لڑائی کو مزید گہرا کرنے کا سبب بھی ہے۔ اس حقیقت کا عمل امریکا اور یورپ کی قیادت کو بھی ہے اور افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے کمانڈروں کو بھی ہے۔ لہٰذا بدامنی کے اس ناسور سے نمٹنے کے لئے کوئی ایک فریق تنِ تنہا کچھ نہیں کرسکتا، اس کے لئے سب کو مل بیٹھ کر کو ئی موثر اور دیرپا مثبت نتائج کی حامل حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔