ڈاکٹر رشید احمد خاں
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی اور دیگر اعلیٰ حکام سے بات چیت کی ہے۔ اس بات چیت کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ دونوں ملکوں نے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ اہم اقدامات کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس دورے کی ایک اہمیت تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد وزیرخارجہ کا پہلا بیرونی دورہ ہے جس کے لئے افغانستان کا چناؤ کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ یہ دورہ اوائل ستمبر میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے اسلام آباد کے مختصر دورے کے بعد کیا گیا ہے۔ امریکہ خصوصاً صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ، ایک عرصے سے پاکستان پر افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کو فروغ دینے کے لئے فعال کردار ادا کرنے پر زور دے رہی ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کی پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد امریکہ کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا تھا اس میں بھی امریکہ نے پاکستان پر بعض اقدامات جن میں مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا بھی شامل ہے، کرنے پر زور دیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس سلسلے میں مسئلہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کے موقف میں لچک کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اسی موقعے پر یہ بھی اعلان کیا گیا کہ وزیرخارجہ جلد افغانستان کا دورہ کریں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا دورہ کابل نہ صرف سیکریٹری مائیک پومپیو کی اسلام آباد میں افغان مسئلے پر پاکستانی حکام سے بات چیت کا تسلسل ہے بلکہ پاکستان کی طرف سے افغان مسئلے کے حل کی طرف کسی اہم پیش قدمی کے حصول کی ایک سنجیدہ کوشش بھی ہے، کیونکہ ایک اعلان کے مطابق وزیرخارجہ نے یہ دورہ اگلے ہفتے کرنا تھا، مگر وزیرخارجہ ایک ہفتے پہلے کابل سے ہو آئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے محاذ پر فوری پیش رفت کا خواہاں ہے۔ اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ افغانستان میں جنگ کے شعلوں میں تیزی آگئی ہے اور خطرہ ہے کہ یہ شعلے بڑھ کر کہیں پاکستان کو بھی نقصان نہ پہنچائیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے کابل روانہ ہونے سے قبل اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں دفاعی اور خارجہ امور سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام کا ایک اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں وزیرخارجہ کے علاوہ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے بھی شرکت کی تھی۔ وزیرخارجہ کے دورہ کابل کے اختتام پر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مل کر جو اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے وہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے متفقہ موقف کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن ان اقدامات میں کوئی نیا اقدام شامل نہیں بلکہ پرانے اقدامات کا ہی اعادہ کیا گیا ہے اور یہ اعادہ یا اس قسم کے اعلانات پہلے بھی کئے جا چکے ہیں مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس لئے وزیرخارجہ کے دورے سے پاک افغان تعلقات یا افغان مسئلے پر کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا سبب بننے والی چند رکاوٹوں، مثلاً: جلال آباد میں پاکستانی قونصلیٹ کی سیکورٹی کے مسئلے کو دور کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی گئی ہے مگر اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم امور پر مکمل مفاہمت ہوگئی ہے۔ وزیرخارجہ کے دورے کے حوالے سے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے جو بیان جاری کیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ کابل میں پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس میں زیادہ زور دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر دیا گیا ہے، مثلاً: آئندہ جن چار میٹنگز پر وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا ہے۔ ان میں سے ایک جوائنٹ اکنامک کمیشن، دوسرا افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈی نیشن اتھارٹی، تیسرا جوائنٹ علماء کانفرنس کی اسٹیرنگ کمیٹی اور چوتھا افغان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیریٹی (APAPS) کے اجلاس شامل ہیں۔ ان تمام فریم ورکس میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تعاون میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا بہت ضروری ہے، کیونکہ دونوں ملکوں میں اس مقصد کے لئے متعدد، دوطرفہ، یک طرفہ اور کثیر الطرفہ فریم ورک ہونے اور ان کے تحت کئی اجلاس ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات میں بہتری نہیں آئی بلکہ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت ڈھائی ارب ڈالر سالانہ سے کم ہو کر چند ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی سرحد پر پاکستان کی جانب سے آہنی باڑ لگانے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد مواقع پر مسلح تصادم ہوچکے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کے خلاف ردعمل کے طور پر پاکستان نے متعدد مرتبہ پاک افغان سرحد بند کئے رکھی ہے، اس سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اور بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے ان مسائل پر بات چیت ضروری ہے لیکن افغانستان کا اصل مسئلہ وہاں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں افغان شہری، سیکورٹی اہلکار اور غیرملکی فوج ہلاک ہوچکے ہیں۔ نہ صرف افغان عوام بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس جنگ کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان سے اہم توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں، کیونکہ پاکستان اور افغانستان نہ صرف ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں بلکہ مشترکہ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نسل، ایک ہی زبان بولنے والے اور مشترکہ ثقافتی رشتوں کے مالک ’’پشتون قومیت‘‘ کے لوگ رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ طویل مشترکہ سرحد انتہائی غیرمحفوظ ہے۔ اس لئے جنگ کی صورتِ حال میں اس سرحد سے آرپار جنگجوؤں کے آنے جانے کو مکمل طور پر نہیں روکا جاسکتا۔ پاکستان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ نہ صرف مشترکہ سرحد کے آر پار جنگجوؤں کی آمدورفت کو روکے بلکہ امریکہ اور کابل انتظامیہ سے برسرپیکار افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ امریکہ کی طرف سے یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور اسے منوانے کے لئے پاکستان پر دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ اس کی ایک شکل پاکستان کے لئے برسوں سے جاری فوجی امداد کی بندش ہے اور دوسری وہ ہے جس کا اظہار ابھی امریکہ کی طرف سے کیا گیا ہے کہ پاکستان نے اگر اپنی معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو امریکہ اس عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان کو فنڈز کی فراہمی کی حمایت نہیں کرے گا۔
دوسری طرف امریکہ اور بھارت کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں اور مائیک پومپیو کے دورے کے موقع پر دونوں ملکوں نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں پہلی مرتبہ امریکہ نے بھارت کا ہم زبان ہو کر پاکستان پر نہ صرف اپنے ہاں دہشت گردوں پر ہاتھ نرم رکھنے بلکہ انہیں خطے کے دیگر ممالک یعنی بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ پاکستان کو اپنی پوری تاریخ میں سیکورٹی کے ایسے شدید چیلنجوں کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور ان تمام چیلنجوں کی جڑ افغانستان میں جاری جنگ ہے۔ اس لئے موجودہ حکومت کو ماضی سے ہٹ کر سفارتی ڈگر پر چل کر کسی طرح فوری نتائج کی کوشش کرنی چاہئے، ورنہ پاکستان کے گرد ان خطرات کا گھیرا اور بھی تنگ ہوجائے گا۔