لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
کوئی سے دو ملکوں کے اسٹرٹیجک دفاعی تعلقات پر کالم لکھتے ہوئے (اور کالم پڑھتے ہوئے بھی) دو اہم باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ایک یہ کہ اِن کا عسکری ماضی کس نوعیت کا رہا ہے اور دوسرے اِن کے جغرافیائی عوامل اِن کے باہمی تعلقات پر کتنے اثرانداز ہوتے ہیں۔۔۔ مثال کے طور پر جب ہم پاک، بھارت دفاعی تعلقات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات شاید بھول جاتے ہیں کہ اگست 1947ء میں ہمیں جو آزادی ملی تھی وہ کسی جنگی معرکے کے پس منظر میں نہیں ملی تھی۔ ہمارے برطانوی آقا، برصغیر کو جب چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے تو اِن کے مجبوری ہماری کسی جنگِ آزادی کے نتیجے میں عمل میں نہیں آئی تھی۔ ہم 1857ء کی برطانیہ کے خلاف بغاوت کو اپنی پہلی جنگِ آزادی گردانتے ہیں اور 90 برس بعد 1947ء کی آزادی کو دوسری جنگ آزادی کا نام دیتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ 1857ء کی جنگ، ایک حقیقی جنگِ آزادی تھی جو برصغیر کے باسیوں نے انگریزوں کے خلاف لڑی تھی۔ اہلِ ہندوستان نے اِس میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا لیکن دوسری طرف انہوں نے برٹش آرمی اور ہندوستان میں مقیم برطانوی آبادی کی ایک بڑی تعداد کو بھی تہہ تیغ کیا تھا۔ اِس کے مقابلے میں 1947ء کی آزادی تو گویا ہمیں پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی تھی۔ یہ آزادی، جنگِ عظیم دوم کی بالواسطہ عطا تھی۔ اِس دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر اور اِس کی نازی افواج نے اتحادیوں کے سارے کَس بَل نکال دیئے تھے۔ چھ سال تک مسلسل لڑنے کے بعد برطانیہ نے فتح یاب ہو کر بھی نہ صرف انڈیا بلکہ اپنی ساری نوآبادیوں کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ چھ سال تک جرمنوں سے مار کھانے کے بعد برطانوی افواج میں یہ حوصلہ باقی نہیں رہا تھا کہ انڈیا جیسے وسیع و عریض خطے کو اپنی عسکری قوت کے بل پر ہولڈ کرسکتیں۔ چنانچہ 1947ء کی آزادی کو 1857ء کی جنگِ آزادی سے منسلک کرنا یا مماثل قرار دینا ہماری خوش فہمی کہی جاسکتی ہے یا پھر جنگ و جدل کے اسٹرٹیجک موضوعات سے لاعلمی۔۔۔
یہی غلطی انڈیا نے 1962ء کی چین، بھارت جنگ میں کی تھی، چین کم و بیش انڈیا کے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا، ایک دو سال کا فرق تھا، انڈیا کو زعم تھا کہ وہ چین سے آزاد ہونے کے تناظر میں اِس سے دو سال سینئر ہے کہ چین کو 1949ء میں آزاد ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جب اِس وقت کے انڈین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے چین، بھارت سرحد کے معاملے میں اپنی زمانی ”سینیارٹی“ کے پیش نظر چین کے خلاف ”فارورڈپالیسی“ اپنانے کا فیصلہ کیا تھا تو چین نے اکتوبر 1962ء میں لداخ اور نیفا (این ای ایف اے ) میں اپنی فوج بھیج کر انڈین آرمی کے چھکے چھڑا دیئے تھے اور چینی افواج گوہاٹی تک آ پہنچی تھی جہاں سے دلّی پہنچنا بہت آسان تھا لیکن چین نے ازخود واپسی کا فیصلہ کیا اور وہ علاقے کہ جن پر نہرو نے ”بھارتی علاقے“ سمجھ کر قبضہ کرلیا تھا اِن کو واپس چین (تبت) میں شامل کرلیا۔۔۔ وجہ وہی تھی جس کا ذکر سطورِ بالا میں کیا جا چکا ہے۔۔۔ چین نے تو لانگ مارچ کے طفیل چیانگ کائی شیک کی افواج کو عبرتناک شکست دے کر اِسے تائیوان تک محدود کردیا تھا۔ اِس کے سامنے انڈیا کی انڈین آرمی جو جنگ آزمودہ نہیں تھی، وہ کیسے ٹھہر سکتی تھی؟ یہ درست تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں برٹش انڈین آرمی کے ”دیسی ٹروپس“ نے یورپ اور افریقہ کے بعض محاذوں پر یہ جنگ لڑی تھی لیکن ایک تو وہ انڈین ٹروپس بالکل نوآموز تھے، دوسرے اِن کی غالب تعداد نچلے رینکوں (سپاہی، لانس نائیک، حوالدار وغیرہ) تک محدود تھی اور تیسرے اِن کو جدید سلاحِ جنگ کا کوئی تجربہ نہ تھا لیکن ماؤزے تنگ کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) تو سالہاسال تک جدید اسلحہ جات سے جدید افواج کا مقابلہ کرتی رہی تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ لداخ اور اروناچل پردیش (شمال مشرقی انڈیا) میں پی ایل اے، آندھی کی طرح آئی اور انڈین آرمی کو روندتی ہوئی سینکڑوں میل طے کرکے وسطی ہند کی طرف دوڑ لگانے کو تیار ہوگئی۔ چنانچہ جب ہم چین، بھارت جنگ کا ذکر کرتے ہیں تو اِسے پاکستان، بھارت جنگ کے ساتھ منطبق نہیں کرسکتے۔ یہ انطباق (برابری) انڈیا کو 1962ء میں بھی مہنگی پڑی تھی اور 2020ء میں بھی مہنگی پڑی جب چینی فوج نے دست بدست جھڑپ میں 20 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔
میں قارئین کی توجہ ایک اور طرف بھی دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی سویلین حکومت برسرِاقتدار آئی ہے تو اِس نے اپنا وزیردفاع ایک ایسے سویلین شخص کو متعین کیا ہے جس کو عملی طور پر جنگ و جدال کا کوئی تجربہ حاصل نہیں رہا۔ عمران خانی دور میں بھی اور اب شہبازی دور میں بھی وزیردفاع ایک سویلین ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو پاکستان کا وزیرِدفاع نہیں بنا سکتے جس کا ماضی کسی بھی حوالے سے جنگ سے متعلق رہا ہو۔ یہ درست ہے کہ ہم سیکریٹری دفاع کے سلاٹ کو پُر کرنے کے لئے ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل کو لگا دیتے ہیں، آج بھی ہم نے یہی کر رکھا ہے، نام لینے کی ضرورت نہیں لیکن سیکریٹری دفاع، وزیرِدفاع کے ماتحت ہوتا ہے۔ سویلین وزیرِدفاع کو یہ زعم رہتا ہے کہ ایک تھری اسٹار (یا ٹو اسٹار) جنرل اِس کے ماتحت ہے اور وہ اُسے ”سر“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے حالانکہ خود یہ ”سر“ ازسرتاپا غیرفوجی ماحول کا پروردہ ہوتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں ایسا نہیں ہے، کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی وزارتِ دفاع کی تنظیم دیکھ لیں، اِس کا وزیر، عسکری بیک گراؤنڈ کا حامل ہوگا۔ اگر کسی یورپی ملک کا وزیردفاع سویلین ہے بھی تو اُس کا تھیوریٹیکل نالج اتنا مضبوط ہے کہ اِس نے بے شک ساری عمر فوجی وردی زیب تن نہیں کی لیکن فوجی امور و معاملات کا مطالعہ اِس شدّومد اور اِس تواتر سے کیا ہے کہ اِس کو دفاعی معاملات گویا ازبر ہوگئے ہیں۔۔۔ ہمارے ہاں جو بھی سویلین وزیردفاع بنایا جاتا ہے وہ دفاعی معاملات و حالات سے اگر یکسر بے خبر نہیں ہوتا تو یکسر باخبر بھی نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستانی کابینہ میں وزارتِ دفاع کا قلمدان جس کو سونپا جاتا ہے وہ نظری طور پر اپنے سیکریٹری دفاع سے سینئر ہوتا ہے لیکن عملی طور پر ہر دفاعی معاملے میں اپنے جونیئر سیکریٹری دفاع کا دست نگر اور محتاج ہوتا ہے۔ میری نظر میں اِس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جو صاحبانِ سیاست الیکشن میں منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں تشریف لاتے ہیں وہ دفاعی امور سے بیگانہ محض ہوتے ہیں۔۔۔ آپ شاید ایک دو مثالیں ہماری تاریخ سے ایسی بھی دیں جو میرے استدلال کی نفی کرتی ہوں گی لیکن ”الشاذ کالمعدوم“ والی بات ہوگی یعنی یہ شاذونادر وقوعہ، نہ ہونے (معدوم) کے برابر ہوتا ہے۔ 20ویں صدی کی دونوں عالمی جنگوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نہ صرف اِن جنگوں میں وزرائے دفاع، وردی پوش تھے بلکہ وزرائے اعظم اور صدور تک ایک شاندار عسکری ماضی کے حامل تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں روس کا مارشل سٹالن،برطانیہ کاچرچل اور امریکہ کا روز ویلٹ سب کے سب سابق فوجی تھے۔ یہی حال جرمنی کے ہٹلر، جاپان کے ٹوجو اور اٹلی کے مسولینی کا تھا۔
وزارتِ دفاع کا قلمدان سنبھالنے کے لئے ہمیں اپنے اراکینِ قومی اسمبلی کی فہرست پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ میرے خیال میں اِن اراکین میں شاذ ہی کوئی ایسا رکن ہوگا جو فوج سے ریٹائر ہو کر نیشنل اسمبلی میں آیا ہوگا۔ میرے خیال میں ہماری قومی اسمبلی میں آنے کے لئے اراکینِ اسمبلی کی جو کوالی فیکیشنز مقرر ہیں، اِن میں فوجی پس منظر یا پیش منظر کی کوئی ڈگری یا ڈپلومہ زیرِغور نہیں رکھا جاتا۔
ہمارا وزیردفاع جس سیکریٹری دفاع کا باس ہوتا ہے وہ سیکریٹری دراصل جی ایچ کیو کا نمائندہ ہوتا ہے، اِس نے ساری عمر فوج کا نمک کھایا ہوتا ہے، اِس کے تمام یارانِ غار وردی پوش ہوتے ہیں، وہ اپنے کورس میٹ یا ”یارانِ باصفا“ کی تمناؤں کو خوب جانتا ہے اور اگر اِس کی تمنا، اپنے وزیرِدفاع کی تمنا سے مختلف بھی ہوتی ہے تو اِس کو اپنے باس کی تمناء کو جل دینے کا ہنر آتا ہے۔ ہر فوجی کی ٹریننگ اپنے دشمن کو دھوکا دینے پر استوار ہوتی ہے، اِس طرح دھوکا دینا (خواہ وہ دوست ہی کیوں نہ ہو) اِس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ وہ پاکستان سے محبت کرتا ہے اور اِس سے عہدِ وفا نبھانے کا پابند ہوتا ہے۔ اِسے ہر آن اِس پابندی کا پاس لحاظ رہتا ہے اور اِس کے لئے خواہ اپنے باس کو بائی پاس بھی کرنا پڑے تو وہ ایسا کر گزرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔۔۔ اِس لئے میری دُعا ہے کہ آئندہ جب بھی کوئی سویلین حکومت برسراقتدار آئے تو اِسے اپنا وزیردفاع ایک فوجی کو اور سیکریٹری دفاع ایک سویلین بیورو کریٹ کو بنانا چاہئے!
یہ دونوں موضوعات (پولیٹیکو اسٹرٹیجک اور جیو اسٹرٹیجک) مرورِ ایام سے پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں اور ساتھ ہی اِن کی تفہیم بھی قاری کے لئے مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔
پاکستان کی موجودہ مشکلات کا تعلق ایک حوالے سے اِن دونوں موضوعات سے ہے۔ اردو زبان میں لکھے جانے والے کالموں کا موضوع زیادہ تر ہماری داخلی سیاست سے ہوتا ہے۔ بیشتر کا عنوان دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ہم گلوبل برادری سے ہنوز کافی دور ہیں۔
انگریزی چونکہ ایک بین الاقوامی زبان بن چکی ہے اِس لئے اِس زبان میں اِن متذکرہ بالا دونوں موضوعات کو سمجھنے کے لئے متعلقہ اصطلاحات سے آگاہی ضروری ہے لیکن اگر ہم داخلی معاملات و موضوعات پر ہی لکھتے رہیں گے تو بین الاقوامی موضوعات کی تفہیم کی کمی کیسے دور کرسکتے ہیں۔ اردو کے کالم نگاروں کو چاہئے کہ وہ اِس طرف بھی توجہ دیں۔
ہمارے اردو اخبارات کے کالم نگار حضرات نے سمجھ رکھا ہے کہ قارئین صرف داخلی سیاسیات (پولیٹیکو اسٹرٹیجک) ہی میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن میری برادری کا فرض ہے کہ وہ کبھی کبھار اپنی گپھا سے باہر نکل کر بیرونی ماحول کی تازہ ہواؤں میں بھی سانس لے لیا کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو دُنیا کو درپیش مسائل کی خبر اپنے پڑھنے والوں کو کیسے پہنچا سکیں گے؟
آج دُنیاوی اُفق پر بھی مشکلات کی وہی گھٹائیں منڈلا رہی ہیں جو ہمارے آسمان پر چھائی ہوئی ہیں۔ فرق صرف ٹیکٹیکل اور اسٹرٹیجک لیول کا ہے۔ ہماری مشکلات اور ہمارے مسائل عرصہ دراز سے ٹیکٹیکل دائرے سے باہر نہیں نکل رہے اور ہمارے پاپولر میڈیا کے جو لکھاری اِس امر کے مکلّف ہیں کہ ٹیکٹیکل کو اسٹرٹیجک موضوعات یعنی قومی کو بین الاقوامی سطح تک لے جائیں، اُن پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملکی حدودِ اربعہ سے باہر نکل کر ریجنل اور انٹرنیشنل ممالک کے حالات کا بھی جائزہ لیں اور قارئین کو بتائیں کہ پاکستان پر آج مشکلات کے جو بادل سایہ فگن ہیں وہ باقی دنیا کے آسمانوں اور زمینوں پر بھی کیوں چھائے ہوئے ہیں۔
کچھ برس پہلے تک (1990ء تک) دنیا میں دو سپرپاورز تھیں لیکن آج تین ہوچکی ہیں۔ کہنے کو تو صرف ایک ہے یعنی امریکا، لیکن اِس کے مقابل جو دو حریف ہیں (روس اور چین) وہ کسی طرح بھی امریکا سے کم نہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ تینوں دیو اپنے اپنے دائروں تک محدود رہتے لیکن ”دنیا کی بھوک“ (جو ع الارض) ان کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ میں کل ایک انگلش میڈیا پر یہ خبر پڑھ رہا تھا کہ امریکا، یوکرین کے جنوب مغرب میں واقع ایک ملک آرمینیا میں اپنی فوج بھیج کر روس کے خلاف جنگی تیاریوں میں اضافہ کررہا ہے۔ یہ امریکی فوج 101 ایئر بورن ڈویژن پر مشتمل ہے اور بحیرۂ اسود سے لے کر روس، یوکرین سرحد تک کے علاقوں کو کور کرتی ہے۔ عسکری امور کے جاننے والے جانتے ہیں کہ ایئربورن ٹروپس کی مضبوطیاں اور کمزوریاں کیا ہوتی ہیں۔ کہنے کو تو یہ ٹروپس جنگی مشقوں میں مصروف ہیں لیکن اگر آپ کے گھر کے آنگن کے قریب آپ کا دشمن رائفل بدست ہو کر بیٹھ جائے تو آپ اِس کے ممکنہ حملے کے خلاف کچھ تیاریاں تو کریں گے۔ سو یہ تیاریاں روس کی طرف سے بھی جاری ہیں۔ دونوں (امریکا اور روس) جوہری قوتیں ہیں اور آرمینیا نیٹو میں شامل ایک ملک ہے جس کے نیٹو منشور میں یہ شق واشگاف طور پر لکھی ہوئی ہے کہ نیٹو کے 30 ممالک میں سے کسی ایک پر بھی حملہ ہوا تو باقی 29 ممالک اِس امر کے پابند ہوں گے کہ وہ اِس کی مدد کو آئیں اور مل کر حملہ آور پر ٹوٹ پڑیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کو معلوم نہیں کہ وہ ایک فاش غلطی کررہا ہے جو اِسے کسی بھی لمحے مہنگی پڑ سکتی ہے۔ ایئربورن ٹروپس کی ٹریننگ اور جنگی مشقیں کسی بھی لمحے آرمینیا کی باؤنڈری سے اُچھل کر روس کی طرف نکل سکتی ہیں اور اگر یہ ”اُچھل“ غیرارادی بھی ہوئی تو اِس کا فیصلہ کون کرے گا؟ دنیا کی ہر بڑی چھوٹی جنگ کسی نہ کسی غلط فہمی یا بلنڈر کا شاخسانہ بنی ہے اور یہ حقیقت ساری دنیا کو معلوم ہے۔
اِس وقت نہ صرف امریکا اور روس یوکرین کے محاذ پر سرگرمِ عمل ہیں بلکہ امریکا چین کے محاذ (تائیوان) پر بھی ”اُچھل کود“ کررہا ہے۔ جاپان میں جو امریکی ٹروپس موجود ہیں وہ چین کے خلاف کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ دُنیا کا تیسرا فلیش پوائنٹ چین بھارت سرحد ہے۔ بھارت نے امریکا کے ساتھ جو باہمی معاہدے کر رکھے ہیں اِن کی تفصیلات تو ہم گاہے بگاہے پڑھتے رہتے ہیں کیونکہ اِس مسئلے سے پاک بھارت سرحد کی ڈوریاں بھی بندھی ہوئی ہیں۔
قارئین گرامی! ایئربورن ڈویژن کی تنظیم کیا ہوتی ہے، امریکا کے پاس اور کتنے ایئربورن ڈویژن ہیں، روس کے پاس اِس ڈویژن کا توڑ کرنے کے لئے کون کون سے جوابی اسلحہ جات ہیں، امریکا یوکرین کی مدد کرنے کے لئے کس حد تک جاسکتا ہے اور یوکرین کے شمال مغرب، مغرب اور جنوب مغرب میں نیٹو کے جو ممالک واقع ہیں وہ روس کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہیں، امریکا اِس بلنڈر کا ارتکاب کیوں کررہا ہے؟ دوسری طرف چین اور امریکا، تائیوان اور ساؤتھ چائنا سی کے مسئلے پر دوبدو ہونے کے کتنے قریب ہیں۔۔۔ اور تیسری طرف انڈیا اور چین، بھوٹان، انڈیا اور چین ایک چھوٹی سی زمینی مثلث کی ملکیت کا دعویٰ کرنے میں کس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں جبکہ انڈیا، جاپان، آسٹریلیا، امریکا کا چار ملکی اتحاد کیا ہے اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ تمام موضوعات ”جیو اسٹرٹیجک“ امور کو محیط ہیں۔ اِن کی سُن گُن پانے کے لئے بالخصوص اُردو زبان کے قارئین کو کس کس کتاب کا مطالعہ کرنا پڑے گا تو ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
انگریزی پرنٹ میڈیا میں جب اِن موضوعات کا ذکر کیا جاتا ہے تو زبان و بیان کی مشکلات اور گرانباریوں کے علاوہ تاریخ و جغرافیہ کے وہ ابواب بھی دیکھنے اور پڑھنے پڑیں گے جو عالمی تاریخِ جنگ کا ایک بڑا موضوع ہیں۔ اگر آپ اِس کی طرف ابھی سے رجوع کرنے کا فیصلہ کریں تو خلوصِ نیت کے باوصف یہ گویا ہمالیہ سر کرنے کی مہم ہوگی۔ اِس مہم کی منازل اور اِس کے مراحل کا ایک بڑا حصہ انگریزی زبان (اور پروفیشنل انگریزی زبان) کے مطالعہ کا متقاضی ہوگا۔
ہمارے ہاں اِس موضوع پر آج تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام ملک کی مسلح افواج کی ذمہ داری ہے لیکن اگر دنیا کے باقی ممالک میں سویلین حضرات بھی اِن موضوعات کو جانتے اور سمجھتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ ہم اگر ایم بی بی ایس، انجینئرنگ، ٹیچنگ، قانون، اکنامکس اور صنعت و تجارت وغیرہ جیسے مضامین کو انگریزی میں پڑھ کر اُن پر کافی حد تک عبور حاصل کرسکتے ہیں تو دفاع پر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
حکومت کو ملٹری ہسٹری اور ملٹری امور کی تدریس کے لئے بھی ایک الگ کالج کے قیام کی طرف توجہ دینی چاہئے۔