Tuesday, July 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اسٹرٹیجک استحکام اور ایٹمی تحفظ۔۔ عالمی اور علاقائی تناظر میں

پاکستان خطے میں اسٹرٹیجک استحکام کو بگڑنے نہیں دے گا، پاکستان بھارت کی ممکنہ جارحیت کا قطعی اور فیصلہ کن جواب دے گا، بھارت میں بڑھتا ہندوتوا عالمی امن کیلئے خطرناک ہے، یوپی، پنجاب کے انتخابات مودی کی ممکنہ شرارت کا اندازہ ہے، مسئلہ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے، پاکستان کا ایٹمی اثاثہ ترنوالہ نہیں جو کسی کے کنٹرول میں آجائے
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی
خواتین و حضرات: 6 فروری 2020ء کو میں نے سینٹر فور انٹرنیشنل اسٹرتڑیجک اسٹیڈز (سی آئی ایس ایس)، دی  انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹیڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے ورک شاپ سے جو خطاب کیا تھا مجھے اُمید ہے کہ اس کے اہم نکات آپ کے ذہنوں میں محفوظ ہوں گے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ لوگ کرونا کی وبا سے محفوظ رہے ہوں گے جس نے ہماری زندگی کے معمولات کو تتربتر اور تباہ کردیا ہے۔ اس مرتبہ جو موضوع ہے اگر اُسے واضح کروں تو چار رُخ بنتے ہیں۔ تزویراتی استحکام، بین الاقوامی اور مقامی پیرائے میں ایٹمی تحفظ کیونکہ سینٹر آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز روایتی انداز سے دانشوروں کے خیالات کو پیش کررہی ہے۔ اگر جنوبی ایشیا کو اس حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے، میرے لئے یہ موزوں ہوگا کہ اس حقیقت کو بیان کروں کہ اس خطے میں مسلسل ایٹمی ٹکراؤ کے خطرات موجود ہیں۔ 6 فروری 2020ء کو جو کچھ میں نے بیان کیا تھا اُسے دہرائیں تو بین الاقوامی اور مقامی طور پر خطرات موجود ہیں۔ گزشتہ تقریر میں میں نے تین نکات کو اُجاگر کرنے کوشش کی تھی کہ جو جنوبی ایشیا کے تزویراتی استحکام کے حوالے تھی۔
پہلا نقطہ یہ بیان کیا تھا کہ تزویراتی استحکام اور عدم استحکام ایک ضابطہ کار کے تحت ہوتا ہے۔ پاکستان کا اس تزویراتی استحکام میں اہم کردار ہے۔ پاکستان کو مضطرب کرکے استحکام کی اُمید ناممکن ہے۔ اگرچہ بھارت پاکستان کے بغض میں مسلسل خطے کو غیرمستحکم کررہا ہے جبکہ پاکستان کی کوشش ہے کہ خطے میں تزویراتی استحکام برقرار رہے۔ گزشتہ دو سال میں بھارت بڑے زوروشور سے اپنے تزویراتی مقاصد کے لئے سرگرداں رہا ہے، اس کے دفاعی سسٹم میں رافیل لڑاکا طیارے ایس-400 سسٹم، پریڈیٹر ڈرون اور ایٹمی اسلحہ میں اضافہ اور بحر ہند کو نیوکلیئرائز کرنے کا عمل خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جانا ہے، پاکستان اس کو نظرانداز نہیں کرسکتا، وہ عدم استحکام کے ڈاکٹرائن کو قبول نہیں کرسکتا، پاکستان ہر قیمت پر تزویراتی توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہے گا۔
میں نے دوسرا نقطہ یہ پیش کیا تھا کہ بھارت بالاکوٹ کے فضائی کارروائی میں ناکام رہا۔ 26 فروری 2019ء کو بھارتی فضائیہ، پاکستانی فضائیہ کے مقابلے میں ہزیمت سے دوچار ہوئی، پلوامہ واقعہ کو جواز بنا کر سیاسی مقاصد کے لئے ناعاقبت اندیش حکمت عملی کے تحت پاکستان کے خلاف کارروائی کی، اس کا مقصد آنے والے الیکشن میں کامیابی تھا۔ اس حوالے سے میں دو اہم باتیں پیش کیں تھیں پہلی پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک وسیع مقصد کے لئے ہے۔ بھارت کی جارحیت کے خلاف بھرپور جواب دینے کی تیاری ہے جو بھارت کے لئے انتہائی بھیانک ہوگا، اعلیٰ قسم کی عسکری تیاری ہے، میں نے یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ بھارتی پاکستان کے مضبوط نیوکلیئر صلاحیت سے واقف ہے، جو بالکل عیاں ہے، اگرچہ بہت سے بھارتی گمراہ کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا نیوکلیئر سسٹم خامی رکھتا ہے، بھارت کی کسی بھی قسم کی غیرذمہ دارانہ عسکری جارحیت کے جواب میں پاکستان بھرپور طاقت کے ساتھ قطعی اور فیصلہ کن جواب دے گا۔ بالاکٹ حملے کے اگلے روز 27 فروری کو پاکستان نے جوابی کارروائی کے طور پر ایک نہیں بھارت میں تین اہداف کو ایئر اسٹرائیک کے ذریعے کامیابی سے نشانہ بنایا۔ پاکستان نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے، ایک بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کیا، پاکستانی فضائیہ نے بھارتی ایئرفورس کو مفلوج کردیا تھا، جس کے نتیجے میں بھارتی ایئرفورس کا ایک ہیلی کاپٹر خود اپنے ہی طیارے کا نشانہ بنا، اس میں ناکامی کے بعد بھارت کی ایک ایٹمی آبدوز 4 مارچ 2019ء پاکستان کے پانی میں کارروائی کی نیت سے داخل ہوئی، جسے ہماری متحرک نیوی نے جانچ لیا، وہ رڈار میں دیکھ کر پاکستان میں زمین، فضاء اور سمندر تینوں راستوں سے بالاکوٹ کے حملے کا بھرپور جواب دے دیا تھا، مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ بھارت ایک دن پھر ایسی ہی کارروائی کرے گا کیونکہ بھارت کی پانچ ریاستوں میں 2022ء میں انتخابات ہوں گے جس میں انتہائی حساس صوبے اترپردیش اور مشرقی پنجاب شامل ہیں، یہ بات گردش میں ہے یا اس کی اطلاع ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس سازش کے لئے سازباز کر چکے ہیں اور یہ سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا۔
تیسرا نقطہ میں نے یہ بیان کیا تھا کہ بھارت میں ہندوتوا عروج پر ہے، سیکولر بھارت جمہوریت پر جو حاوی ہوچکا ہے، دستانے اتارے جا چکے ہیں، چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے، سیکولر ازم مر چکا ہے، 2020ء میں بھارت ہندو ریاست بن چکا ہے، جو ہندوؤں کا ہے، ہندوؤں کے لئے رہے۔ہندو کے ذریعے ہو۔ 72 سال بعد اس وقت ہندوؤں کا جو مختلف ذات پات میں تقسیم ہونے کے باوجود آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بھارتی جنتا پارٹی کو ووٹ دے رہی ہے۔ 2021ء کے اختتام پر بھارت کے اندرونی پالیسی ہندو ازم پر مبنی ہے۔ یہ نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کے لئے بلکہ بھارت کے گلی کوچوں میں نظر آ رہی ہے، غیر روایتی آئین سازی سے بھارت میں مختلف گروہوں اور ذاتوں کو ابھارنے کے لئے ریاستی کوشش بھی جاری ہے، کیا یہ مہذب معاشرے کی علامتیں ہیں، پاکستان میں مہذب معاشرے کے علاوہ جس کا اظہار بھارت میں ہورہا ہے، ان طبقات کو استعمال آسانی سے کیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعے خطے میں عدم استحکام پیدا کیا جاسکتا ہے۔ بڑھتا ہوا انتہاپسندی ایک مائنڈ سیٹ کے تحت ہورہی ہے۔ جو آج کے بھارت کی شناخت بن چکی ہے۔ اسے مذاکرات کے ذریعے اور جمہوری اقتدار کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔ بھارت کی یہ انتہاپسندی اس کے پڑوس کے ملکوں کو بھی نظرانداز کرسکتی ہے۔ہمارے پاس یہ بھی موقع ہے کہ ہم خفیہ حکمت عملی یا براہ راست فوجی کارروائی کے ذریعے آسان حل ہے مگر استحکام اور امن کے لئے سنجیدہ مذاکرات کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اہم عالمی اور مقامی پروگراموں کے ذریعے جو سیاسی مسائل پر بات چیت کے ذریعے استحکام ممکن ہے خصوصاً جنوبی ایشیا میں یہ ہوسکتا ہے۔
کرونا کی وبا کے باعث دُنیا میں مسابقت اور مقابلہ کی صورت حال پیدا ہوئی ہے، وہ واپس ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی، اس کے خدوخال مختلف جہت سے نظر آرہے ہیں، جنوبی ایشیا میں امن ضروری ہے، اس کے لئے چار ملکوں پر دباؤ ہے جس میں امریکا، چائنا، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ قومی مفاد میں میں اس پالیسی کو اپنانا ہر ملک کا حق ہے، عین ممکن ہے کہ مستقبل میں جب دھول بیٹھ جائے اور دھند چھٹ جائے تو اسٹرٹیجک مقابلہ بازی کی بجائے اسٹرٹیجک مینج ایبل پیٹرن بن جائے۔
امریکا میں نومبر 2020ء کے انتخابات کے متنازع نتائج نے ایک تنازع کھڑا ہوا، جوبائیڈن اقتدار میں آگئے، یہ بھی ایک پالیسی کے تحت ہوا، جس کے تانے بانے امریکا کی C-3 پالیسی سے جڑتے ہیں، جو چین کے خلاف ہے۔ یعنی کمپٹیشن،کونٹایمینٹ اورکونفرونٹاشن اس طرح چین کو ایک حد میں رکھا جاتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا اور ٹکراؤ کرنا ہے، اس پالیسی میں امریکا کے اتحادی بھی متفق ہیں، اس پالیسی کے مختلف خطوں پر اثرات بھی پڑیں گے۔ جو وقت کے تقاضے کے ساتھ ساتھ جہاں ضرورت ہوگی محدود کرنے کی وہ کیا جائے گا، جب مقابلہ کا ماحول ہوگا تو ویسا ہی ہوگا اور جب ٹکراؤ کی صورت ہوگی تو اس سے دریغ نہیں کیا جائے گا، اس میں بہت سے ملکوں کے لئے یہ سوال ہوگا کہ وہ امریکا کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ بن جائے گا۔
دُنیا کو اپنی خواہش پر سرد جنگ کی حمایت یا اس سے دور رہنے کے مشکل فیصلے کی طرف جانا ہوگا، مختلف گروپس بنائیں گے جو مختلف خطوں میں پینٹاگون کے منصوبے کے تحت اپنی پالیسی ترتیب دیں گے، جیسے قواد ہے اور اب اوکوس کا ٹرائنگولر ہے، ان گروپ کا ہدف چین کو روکنا اور ساؤتھ ایشیا پر اثرانداز ہونا ہے۔
اس حوالے سے دو جہت نمایاں ہیں، ایک سیاسی دوسرا عسکری ہے، جس کے اثرات ابھی اتنے واضح نہیں ہیں لیکن اس کے دوررس اثرات مستقبل میں مرتب ہوں گے۔
اس کا پہلا عنصر ورچوئل میٹنگ ہے، جو چین اور امریکی صدر کے درمیان ہوئی، یہ ایک تاریخی میٹنگ ہے، دونوں صدور کی دوراندیشی کی علامت ہے، اس کے مستقبل میں اچھے اثرات پڑیں گے، جو تزویراتی عالمی تناؤ کو کم کرنے میں مددگار ہوں گے، یہ عالمی، علاقائی استحکام کے لئے نیک شگون ہے، پاکستان اس کی پذیرائی کرتا ہے۔
دوسرا چین نے اپنی ایٹمی صلاحیت کا جو اظہار ہائپر سونک گلائیڈیڈ میزائل کے کامیاب ٹیسٹ کی صورت میں نظر آیا جبکہ چین نے پے درپے دو میزائل ٹیسٹ کرکے اپنی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ ساتھ زمین کے مدار میں جو اپنا دفاعی نظام متعارف کروایا وہ متاثرکن تھا، اس کی مثال نہیں ملتی، یہ ایک سپوت نیک موومنٹ ہے، یہ حیران کر دینے والی بات تھی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ چین کی عسکری برتری نمایاں ہورہی ہے، جس کے اثرات عالمی، علاقائی خصوصاً جنوبی ایشیا کے تزویراتی استحکام پر پڑ سکتے ہیں۔

گزشتہ دو سال میں جو بین الاقوامی تبدیلی ہوئی ہے وہ بھی اہمیت کی حامل ہے، جس کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے، اس میں کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کی کشیدگی، بھارت اور چین کی 2020ء میں جھڑپ، افغانستان سے امریکی افواج کا نکالنا اس کے خطے پر اثرات پڑیں گے۔
پہلے کشمیر کی بات کر لیتے ہیں، بھارت نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35اے کو معطل کرنا، اس کے تحت کشیدگی بڑھے گی، بھارت مقبوضہ کشمیر اور لداخ کے معاملے میں غیرقانونی راستہ اختیار کر رہا ہے، جس کے سیاسی اور عسکری مسائل پیدا ہوں گے، پاکستان اور چین اس کو مسترد کر چکے ہیں، کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فورسز کو کشمیریوں پر ظلم کے لئے کھلی چھوٹ ہے، 70 لاکھ سے زائد کی آبادی محصور ہے، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کشمیری اسے برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اس سے خطے کا امن خطرے میں ہے اور یہ نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔
دوسرا لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا بھارت اور چین کا تنازع ہے، دونوں ملکوں کے درمیان اب بھی غیرطے شدہ سرحد ہے، جس کی وجہ سے 1962ء میں ایک جنگ بھی ہوچکی ہے، بھارت لداخ کے متنازع علاقے میں روڈ، انتظامی ڈھانچہ اور مواصلاتی نیٹ ورک بڑھانے پر توجہ دینے لگا، جس کو چین نے جارحانہ اقدام سمجھتے ہوئے اس کا سدباب کیا، اس حوالے سے 2020ء کی گرمیوں میں دونوں میں جھڑپ بھی ہوئی، چین نے ان علاقوں کو اپنا علاقہ قرار دیتے ہوئے اس پر کنٹرول بھی حاصل کیا جبکہ بھارت کو ہزاروں کلومیٹر کے رقبے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جبکہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے یہ کہا کہ ہم نے ان علاقوں میں کسی پوسٹ کو نہیں گنوایا۔ بھارت نے لداخ میں دوبارہ سے فوج کی تعیناتی کی اور اس سے 3800 کلومیٹر دور ارون چل پردیش کے پہاڑی علاقوں میں فوج تعینات کی کیونکہ لداخ کے معاملے میں ان کی فوج مفلوج ہوگئی تھی، چین نے حکمت عملی سے اپنے علاقے کو محفوظ کیا، بھارت کی یہ کوشش ہے کہ ارون چل پردیش کے پہاڑوں کی سیاچن کے انداز میں کنٹرول کیا جائے لیکن اس کے اثرات پاکستان کے ساتھ مشرقی سرحد پر بھی پڑیں گے، کیونکہ فوج کی تعیناتی کا دباؤ آئے گا۔
بھارت کی توسیع پسندی کو ترک کرکے ایک فیصلہ کرنا ہوگا، یہ ایسا ہی ہے جیسے بیک وقت تین شیروں سے مقابلہ کرنا ہے، لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین سے لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں سے بھارت اس حوالے سے اپنا فضول پروپیگنڈا کررہا ہے کہ چین اور پاکستان کی سرحد پر اس کے لئے زیادہ مسائل نہیں ہیں، اس لئے بھارت خطے میں امریکی اتحادی بن کر امریکا کی سی-3 پالیسی کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
تیسرا طالبان اور امریکا کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد جو معاہدہ ہوا جس کے تحت امریکی فوج کا افغانستان سے پُرامن انخلا ہوا، اس کے بعد افغان نیشنل آرمی جس طرح ناکام ہوئی اور طالبان نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا یہ دُنیا اور امریکا کے لئے حیران کن تھا اور اشرف غنی کا 15 اگست کو طالبان سے مذاکرات کرنا اس بات کی دلیل بنا کہ طالبان کی افغانستان پر مکمل رٹ ہے، اب جوبائیڈن حکومت کے لئے اہم یہ ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کیا کرتے ہیں، اس میں پنج شیر بھی شامل رہا۔
ایک بات اہم ہے کہ افغانستان کی بگڑتی صورتِ حال تشویش ناک ہے، معاشی مسائل کو دُنیا کو مل کر حل کرنا ہوگا، پاکستان کی مغربی سرحد پر پاکستان کو سیکورٹی بڑھانا ہوگی تاکہ ممکنہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹا جاسکے، کیونکہ بھارت کو سیاسی اور تزویراتی ناکامی ہوئی ہے، اس کا سرمایہ بھی کسی کام نہ آیا، نہ ہی روابط و تعلقات، اس کی انٹیلی جنس ناکامی بھی عیاں ہوئی، افغانستان کی اندرونی بدلتی صورتِ حال کا وقت پر اُسے اندازہ ہی نہیں ہوا۔
افغانستان کے معاملے میں پاکستان کو بین الاقوامی برادری کے غیرسنجیدہ رویے سے مایوسی ہوئی، امریکی افواج کے انخلا کے بعد ہونے والی صورتِ حال کا اندازہ لگانا عالمی اداروں کی ذمہ داری تھی، پاکستان نے تو امن اور امریکی فوج کے پُرامن انخلا کے لئے دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنایا، پاکستان نے امریکا سے اپنے 20 سالہ اتحادی کا کردار بخوبی نبھایا، پاکستان کو نظرانداز کرکے افغانستان کا دیرپا امن ناممکن ہے، پاکستان کی جانب افغانیوں کا انخلا ایک مشکل مرحلہ ہے، جس سے پاکستان دباؤ میں ہے، دُنیا کو افغانستان کے لئے ایک مشترکہ حکمت عملی سے کام کرنا ہوگا۔
افغانستان میں اچانک اقتدار کی منتقلی اہم مسئلہ بنی، پاکسان نے اس کو پُرامن انداز سے کرنے میں اہم کردار ادا کیا، غذائی بحران سے نمٹنے کے لئے گندم، غذائی اجناس اور دواؤں کا بڑا ذخیرہ افغانستان کو دیا، پاکستان نے بھارت سے گندم اور دواؤں کے 50 ہزار ٹن کی امداد جانے میں راہداری کی سہولت فراہم کی، پاکستان مزید تعاون بھی کرے گا کیونکہ یہ سیاسی مقاصد کے لئے نہیں بلکہ انسانی المیہ سے نمٹنے کے لئے کیا جارہا ہے، دُنیا کو بھی اس میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔
دُنیا کو بالآخر نیوکلیئر تحفظ کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، ایک اصول طے کرنا ہوگا تاکہ دُنیا کو ایٹمی جنگ سے محفوظ کیا جاسکے، اس حوالے سے سابق امریکی صدر نے نیوکلیئر سیکورٹی سمٹ میں اس کا اظہار کیا تھا۔ میں پھر یہ کہوں گا کہ یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم دُنیا کو محفوظ بنائیں، اس سمٹ میں دُنیا کے ماہرین کی رائے لی گئی تھی، اس میں بڑی تعداد میں ملکوں کے نمائندوں نے بحث کی تھی، جس کا مقصد دُنیا کو محفوظ بنانا ہے، اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔
پاکستان نیوکلیئر سیکورٹی سمٹ کی سفارشات کو اپنانا چاہتا ہے، 9/11 کے بعد دُنیا کو دہشت گردی کی جنگ کا سامنا رہا، پاکستان نے اس جنگ میں کامیابی حاصل کی لیکن ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ ہمارے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے کنٹرول میں جاسکتے ہیں لیکن دُنیا نے دیکھا کہ ہم نے کس طرح اسے غلط ثابت کیا۔ میں گزارش کروں گا کہ عالمی سطح پر نیوکلیئر سیکورٹی کے حوالے سے طے شدہ اصولوں کو رائج کیا جائے، یہ آلہ کے طور پر کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
پاکستان نہ صرف عالمی مفاد میں بلکہ اس کا بھی مفاد یہ ہے کہ وہ اپنے نیوکلیئر اثاثے کو محفوظ تر کرے جیسا کہ ہم نے کیا ہوا ہے، پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے اور نیوکلیئر سیکورٹی سمٹ سے تقریباً 11 سال پہلے پاکستان نے اپریل 1999ء میں پاکستان نیشنل کمانڈ اتھارٹی اور اسٹرٹیجک پلان ڈویژن کا ادارہ بنا چکا تھا، جو نیوکلیئر کے تمام معاملات کی دیکھ بھال اور معاملات کے ذمہ دار ادارے ہیں، پاکستان کی اولین ترجیحی تھی کہ نیوکلیئر معاملات میں مکمل تحفظ کا طریقہ کار اپنایا جائے، تحفظ کا ایک مربوط پلان پورے ملک میں قائم ہے، اس میں سیکورٹی اور انٹیلی جنس کا ایک منظم نظام موجود ہے۔
پرسنل ریلیابیلیٹی پروگرامز ( پی آر پی), مٹیریل کنٹرول اینڈ اکاؤنٹنگ (ایم سی اینڈ اے) اور اسٹیٹ آف دی آرٹ تربیتی مرکز پاکستان سینٹر آف ایکسلینس فور نیوکلر سکیورٹی (پی سی ای این ایس)جیسا ادارہ موجود ہے، جو آئی اے ای اے کے منظوری سے قائم ہے اور ہر وقت معائنہ کے لئے کھلا ہے، اس کے ساتھ مختلف سیمینارز اور پروگرامز کے ذریعے دُنیا کے ماہرین کی آراء کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ نیوکلیئر سیکورٹی کے حوالے سے تعلیم دی جاتی ہے، نیوکلیئر سیکورٹی اور اس کا طریقہ کار ایک مسلسل عمل ہے، پاکستان نے جدید نیوکلیئر ایجوکیشن کے حصول اور مہارت کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، جس کے فوائد بھی ہمیں مل رہے ہیں، 2007ء سے 2014ء کے درمیان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہونے اور اس میں غیرملکی ہاتھ کا کردار رہا، اس دوران بین الاقوامی وفود نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے نیوکلیئر سیکورٹی کے حوالے سے اعتماد کو دیکھا، ہم نے ایک پروفیشنل اپروچ کے تحت اپنے سیکورٹی سسٹم کو بہتر سے بہتر کیا۔
اختتام سے پہلے یہ کہوں گا کہ 15 اگست کے بعد افغانستان میں جو تبدیلی آئی اس میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی کے حوالے سے بات ہوئی جو افسوسناک ہے، دوسرا اس میں غلط اطلاعات، افواہ اور پروپیگنڈا کیا گیا، دباؤ بڑھایا گیا، حالانکہ پاکستان ایک مستحکم ملک ہے، پاکستان کے ایٹمی اثاثے کوئی تر نوالہ نہیں ہیں جو کسی کی دسترس میں آ جائیں، سیکورٹی کا فول پروف نظام موجود ہے۔
نیوکلیئر سیکورٹی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، دُنیا کو اسے سیاسی ڈراونے آلہ کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے حقائق پر دیکھنا چاہئے، پاکستان علاقائی اور عالمی نیوکلیئر اداروں کی گائیڈلائنز کے تحت کام کرتا ہے، ہم نے اپنے تحفظاتی نظام کے حوالے سے ان اداروں کو ہر قسم کی معلومات کا تبادلہ کیا بلکہ دُنیا کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے پڑوس میں نیوکلیئر مواد کی اسمگلنگ کا سلسلہ ہے جو ایک خطرناک اور توجہ دینے والا عمل ہے اس پر دُنیا کو کام کرنا ہوگا۔

مطلقہ خبریں