Wednesday, July 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اسلام آباد کے قدیم دیہات اور ان کا مختصر تحقیقی جائزہ

محمد امجد چوہدری

اسلام آباد کو مملکت ِخداداد پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا اعلان 1959ء میں ہوا۔ اس سے قبل اس سرزمین پر کم وبیش 160 دیہات آباد تھے۔ ارضِ اسلام آباد کا قدیم نام راج شاہی تھا۔ صدیوں سے یہ سرزمین آباد چلی آرہی تھی۔ کئی نسلیں پیوند زمیں ہوئیں۔ برفانی دور، ارتقائے انسانی کا ثانوی دور، پتھر دور کی تہذیب، قدیم آریا تہذیب، رگ ویدک دور، گندھارا تہذیب، ایرانی تہذیبی دور، یونانی دور کے اثرات، موریہ دور حکومت، سائیس تھین دور، پارتھیائی دور، کشان دور، سفید ہنوں کا دور، ترک شاہی دور، اسلامی دور حکومت کا آغاز، غوری اور مغلیہ دور، سکھوں کا دور اور برطانوی دور سے لے کر پاکستان کے وجود میں آنے تک اس دھرتی پر اربوں انسانوں کے قدم پڑے۔ اس دھرتی نے ہزاروں نشیب و فراز دیکھے۔ یہ دھرتی پوٹھوہار کی سواں تہذیب وتمدن کا مسکن رہی ہے۔ ماہرین ارضیات کی تحقیق کے مطابق یہاں پر لاکھوں سال پرانے انسانی قدموں کے نشانات ملے ہیں۔ یہاں انسانی زندگی کے آثار 20 لاکھ سال پرانے ہیں۔ اس تحقیق کی بنیاد وہ فوسلز تھے جو دریائے سواں کے اردگرد کے علاقے مورگاہ گڑھی شاہاں سواں کیمپ سے ملے ہیں۔ ماہر ارضیات ڈی این واڈیا نے 1928ء میں دریائے سواں کے کنارے ایسے اوزاروں کا پتہ چلایا ہے جو پتھر کے بنے ہوئے اوزار استعمال کرنے سے بھی قبل کا زمانہ ہے۔ راجہ راول جس کے نام سے راولپنڈی مشہور ہوا سے پہلے یہاں سوہا قوم حکمران تھی۔ اسی کے مقبوضات میں دریائے سوآں بھی شامل تھا، سوہا قوم کی مناسبت سوآں، سوہان سوہاوہ اور پیرسوہاوہ کا نام مشہور ہوا۔ یہ سوہا قوم بعدازاں اٹھ کر جلسیمر چلی گئی۔ 583ء میں موجودہ اسلام آباد کے علاقے میں ہنوں کے امیر مہر گل یا مہار گلا کو جو پوٹھوہار اور کشمیر کا حکمران تھا، گپتہ راجہ یا شودھر من نے پوٹھوہار میں شکست دی اور شمالی ہند سے ہنوں کا قلع قمع کردیا۔ مارگلہ کا نام اسی مہر گل یا مہار گلا کی مناسبت سے پڑا اور یہ اس وقت سے رائج ہے۔ خطہ پوٹھوہار میں واقع ارضِ اسلام آباد کے تاریخی پسِ منظر کا جس قدر جائزہ لیا جائے اور اس کی جغرافیائی، لسانی، تہذیبی، تمدنی اور قدیم معاشرتی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان اسباب کی اہمیت اور بھی دوبالا ہوجاتی ہے جن کی بنا پر اسے پاکستان کا وفاقی دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔
کسے معلوم تھا اس دھرتی کے سنگْ و خشت سے ابھر کر ایک نیا خوبصورت شہر جنم لے گا، 1960ء میں اسلام آباد کے تعمیر کے ابتدائی مراحل کے دوران وفاقی ترقیاتی ادارہ سی ڈی اے نے اکثر دیہاتوں کی زمینیں ایکوائر کرلیں۔ اس کے بدلے میں یہاں کے مکینوں کو ملتان، جھنگ اور سرگودھا میں الاٹیاں عطا کی گئیں لیکن مکمل قدیم آبادی کی شہر سے باہر منتقلی موجودہ دور تک مکمل نہیں ہوسکی۔ بعض دیہات ابھی تک سی ڈی اے کی ایکوائر شدہ زمین پر اسی طرح آباد ہیں۔ البتہ اکثر دیہاتوں کا نام و نشاں مٹ چکا ہے۔ مورخ اگر اس دھرتی کے ماضی پر نظر دوڑائے تو اسے ہر سیکٹر یا سب سیکٹر میں ایک گاؤں آباد نظر آئے گا بلکہ اس کے اولین آباد کار بمعہ اپنے شجرہ نسب کے آباد دکھائی دیں گے۔ دیہاتوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ بھی اپنی الگ شناخت ظاہر کرے گی۔ اسلام آباد کے مضافات کے طویل العمر باسی قدیم تہذیب و تمدن اور آثارِ قدیمہ کی خاموش زبان میں بہت سی پرانی اور معنی خیز داستانیں سناتے ہیں۔
میں نے اس دھرتی پر طویل عرصہ اپنا تخقیقی آئینے کو فِٹ کیا تو مجھے اس دھرتی پر آباد ضعیف العمر افراد کی میموری سے قدیم مناظر دستیات ہوئے، وہی کھیت کھلیان، اونچی نیچی پگڈنڈیاں، ہری بھری فصلیں، کچے گھروندے، مال مویشی، پھل دار درختوں کے باغات، انتہائی سادہ طرز زندگی، ہاں۔۔۔ بالکل وہی مناظر جو 1959ء میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے شکرپڑیاں سے دوربین کے ذریعے ملاحظہ فرمائے تھے۔ میں نے ان مناظر کو قلمبند کیا۔ دیہاتوں کی تفصیلات مرتب کیں۔ طویل تحقیق کی روشنی میں اسلام آباد کے قدیم دیہات کو لفظوں کی مالا پہنائی لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا سب تحقیقی مواد ڈیلیٹ ہوگیا۔ جس کا دلی رنج ہوا۔ اب دوبارہ اپنی دماغی اسکرین یادداشت پر زور دے کر مضمون تیار کرنے کی کوشش کی ہے جوکہ سابقہ تحقیق کے مقابلے میں انتہائی ناقص ہے لیکن تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے مضمون ہذا بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ نئی حاصل ہونے والی معلومات سے مضمون میں ترمیم و اضافہ کرکے اسے ایک جامع تاریخی دستاویز بنانے کی کوشش کروں گا۔
اسلام آباد کے مشہور دیہات میں سیدپور، نورپورشاہاں، شکر پڑیاں، ملپور، بہارہ کہو، گولڑہ شریف، سری سرال، باغ بٹاں، ملکاں ہانس، بھیگاسیداں، کٹاریاں، گیدڑ کوٹھا، شاہ اللہ دتہ شامل ہیں۔ شہر کی تعمیر کے دوران مارگلہ کے دامن میں واقع بہت سے دیہات جیسے نورپور شاہاں، شاہدرہ سیدپور اور گولڑہ شریف کو اسلام آباد کا دیہی علاقہ قرار دے کر ان کی اصل شکل کو برقرار رکھا گیاہے۔ اس دیہی علاقے کا مجموعی رقبہ 38906 مربع کلومیٹر ہے۔ سیدپور اور شاہ اللہ دتہ قدیم ترین دیہات ہیں، سید پور کا پرانا نام فتح پور باولی تھا، اسے پہلے پہل مغلوں کے ایک بزرگ مرزا فتح بیگ نے 1530ء میں آباد کیا تھا۔ 1580ء میں مان سنگھ نے کابل جاتے ہوئے سید خان گکھڑ کو یہ جاگیر عطا کی۔ بعد میں سید خان کی مناسبت سے اس کا نام سیدپور رکھا گیا۔ سید خان سلطان سارنگ خان کی اولاد میں تھے۔ سیدپور کو قدیم دور سے ہی اہمیت حاصل رہی ہے۔ 1849ء میں یہاں انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر قبضہ کیا تھا۔ یہاں ہندوؤں کے مشہور استھان رام کنڈ، لچھمن کنڈ اور مندر تھا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ مشرف دور میں سیدپور کو ماڈل ویلیج کا درجہ دے کر اپ گریڈ کیا گیا۔ اس گاؤں میں گکھڑ برادری کی اکثریت ہے جبکہ جنجوعہ راجپوت، اعوان، پیرکانجن مغل، دھنیال، گوجر، منہاس، راجپوت، بھٹی اور سید بھی آباد ہیں۔ سیدپور سے منسلک قدیمی آبادیوں میں چک، بیچو، میرہ، ٹیمبا، بڑ، جنڈالہ ہیلاں شامل تھے، چک اور بیچو موجودہ جی 6/3 اور جی 6/4 اور موجودہ ایف 6 مرکز کا ایریا ہے۔ میرہ، ٹیمبا میں پاکستان کی سب سے بڑی مسجد فیصل مسجد قائم ہے، بڑ موجودہ ایف 5 کا علاقہ ہے۔ سیکٹر ای 7 میں ڈھوک جیون نام کی بستی تھی جسے جیون گوجر نے گجرات سے آ کر آباد کیا تھا۔ بابا جیون کے ساتھ ہمارے چیچی گوت کے آباؤاجداد گاؤں کوٹلہ اور مسلم آباد کے اولین آباد کار عاصی، باسی فیروز تہوری، حسین، بلاقی بھی کوٹلہ گجرات میں قحط سالی کے دوران نکل مکانی کر کے ڈھوک جیون میں آباد ہوئے، یہ بستی فیصل مسجد سے چڑیا گھر تک پھیلی ہوئی تھی، اس آبادی کا قدیمی قبرستان آج بھی شاہین مارکیٹ کے قریب پارک میں موجود ہے، ڈھوک جیون میں ایک ہزار سالہ برگد کا درخت موجود تھا۔ جسے بدھ دور کے آثار سمجھا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں متعین کئی ملکوں کے سفارتکار اس درخت کو مقدس سمجھتے تھے اور اس کے نیچے مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ 1965ء کی جنگ میں انڈین طیاروں کی گولہ باری سے جو واحد گولہ اسلام آباد کی حدود میں پھٹا وہ اسی درخت کے اوپر آ کر گرا۔ جس سے درخت کا ایک حصہ جل کر راکھ ہوگیا۔ سیکٹر جی 5 میں کٹاریاں گاؤں آباد تھا، آج کل یہاں وزارت خارجہ کے دفاتر ہیں، کٹاریاں گاؤں کے باشندوں کو سیکٹر آئی نائن کے سامنے راولپنڈی کی حدود میں متبادل جگہ دی گئی۔ جسے آج کل نیوکٹاریاں کہا جاتا ہے، یہ گوجروں کی کٹاریہ گوت سے منسوب ہے۔ چڑیا گھر کے سامنے سیکٹر ایف 6 میں بانیاں نام کی بستی تھی جس کے اولین آباد گوجروں نے اپنی گوت بانیاں کے نام پر اس کا نام رکھا۔ اسلام آباد میں گوجر قوم کی آباد کردہ بستیوں میں ٹھٹھہ گوجراں، کنگوٹہ گوجراں، کٹاریاں بھڈانہ بانیاں، نون، بوکڑہ، داداں گوجراں، گوراگوجر، جہاری گوجر، بھڈانہ کلاں، بھڈانہ خورد، پوسوال، ڈھوک گوجراں، ڈھوک جیون، جبی، بڈھو، روملی، نڑیاس، نڑیل، موضع سورائن، بوکڑہ نئی آبادی، گوجراں نا موہڑہ، بھڈانہ گوجر اور ہڈوالہ گجراں شامل ہیں۔
راولپنڈی گزیٹئر 1884ء کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالکان گوجر تھے اور 62 دیہات گکھڑوں کی ملکیت تھے، سیکٹر جی 10 کا پرانا نام ٹھٹھہ گوجراں تھا، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور سیکٹر آئی ایٹ میں سنبل جاوہ نژالہ خورد اور نژالہ کلاں کے گاؤں آباد تھے، موجودہ ایچ ایٹ قبرستان اور ایجوکیشن کے دفاتر کے ساتھ چک جابو آباد تھا۔ زیرو پوائنٹ کے ساتھ پتن کوٹ نام کا گاؤں تھا۔ موجودہ میریٹ ہوٹل کے قریب پہالاں نام کی بستی تھی۔ ایچ 10 میں بھیگا سیداں آباد تھا۔ چراہ کے ساتھ ترار پیجا پنڈ ملکاں دروالہ آری سیداں کی آبادیاں ہیں۔ مارگلہ ٹاؤن کے ساتھ اوجڑی خورد اور اوجڑی کلاں کے گاؤں آباد ہیں، 1770ء میں سکھوں نے گکھڑوں پر مکمل بالادستی حاصل کی تو فتح پور کلوری کے پر گنوں اور 600، دیہات پر مشتمل اکبرآباد میں ملکا سنگھ نے مختلف قبائل کو جاگیریں عطا کیں اور طے شدہ خراج جسے مشخصہ کا نام دیا گیا، وصول کیا سیدپور کے گکھڑوں کو 22 دیہات تمیر کے رونیال قبیلے کو اگولڑے کے اعوانوں کو، 22 دیہات منڈلا چنیاری اور پھلگراں کے گکھڑوں کو، 10 دیہات بطور جاگیر عطا کئے گئے۔ پھلگراں کے قریب چار دیہات ڈھونڈ قبیلے تھے۔ پھلگراں کا منصب دار خان ڈھونڈ چار دیہات اور پانچویں کے کچھ حصے پر مشتمل 1080 روپے کی جاگیر کا مالک تھا، چھتر اسلام آباد کی شمال مشرقی حدود میں آخری گاؤں ہے، اس سے آگے مری کی حدود شروع ہوجاتی ہے، چھتر کے لغوی معنی سائبان اور سائے کے ہیں، چھتناور درخت بھی ایسے بڑی بڑی شاخوں والے درخت کو کہا جاتا ہے، چھتر کے مرکزی مقام جہاں آج کل چھتر پارک ہے، یہاں برگد اور جامن کے درختوں میں راولپنڈی سے مری یا کشمیر جانے والوں کا ایک اہم پڑاؤ تھا۔ یہاں ایک بڑے سرائے تھی جس کے آثار اب معدوم ہوچکے ہیں۔ شاہ اللہ دتہ اسلام آباد کا قدیم ترین گاؤں تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 650 سال قدیم گاؤں ہے جہاں سینکڑوں سال پرانی غاریں قدیم فطری تہذیب اور مذاہب کا پتہ بتلاتی ہیں۔ اسلام آباد سے بہارہ کہو جاتے ہوئے مری روڈ پر ملپور کی قدیم بستی واقع ہے۔ یہ گاؤں بھی ابتدا میں قطب شاہی اعوانوں کا تھا اور راول ڈیم کی حدود کے اندر واقع تھا۔ بعدازاں اسینیو ملپور کے نام سے بسایا گیا، یہ گاؤں سردار بدھن خان اعوان نے پہلے پہل آباد کیا تھا، بعد میں یہ گکھڑوں کی ملکیت میں آگیا، یہاں کمیال، گکھڑ، شیخ اور ملیار بھی آباد تھے، 1976ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اسے ماڈل ویلج کا درجہ دیا تھا۔ ٹیال اور کونجڑے نام کی آبادیاں داخلی ملپور کا حصہ ہیں۔ موجودہ کنونشن سینٹر کے قریب ڈھوک کی چھوٹی قسم ”ڈھوکری“ کے نام کا چھوٹا سا گاؤں آباد تھا، جو 80 کی دہائی تک ایک مزدور بستی کے طور پر آباد رہا، بعدازاں اس کا نشان مٹ گیا، البتہ ڈھوکری اسٹاپ نے اس کے نام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ موجودہ آبپارہ کے قریب باگاں یا باغ کلاں نام کی بستی تھی۔ اسلام آباد شہر کی تعمیر کی ابتدا اکتوبر 1961ء میں اسی باغ کلاں گاؤں سے کی گئی۔ نورپور شاہاں حضرت شاہ عبداللطیف کی آمد سے قبل چور پور مشہور تھا۔ یہ علاقہ ایمان کی روشنی سے منور ہو کر نورپور کہلانے لگا۔ چورپور سے قبل یہ ”کہاہوت“ کے نام سے مشہور تھا۔ نورپور شاہاں اورنگ زیب عالمگیر کے عہد سے آباد چلا آرہا ہے، سیدپور، نورپور اور بہارہ کہو کا مفصل تذکرہ میری کتاب خیابانِ مارگلہ میں موجود ہے۔ راول ڈیم نالہ کورنگ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ نالہ مارگلہ اور مری کی زیریں پہاڑیوں کے چشموں اور برسات کے پانی سے سارا سال بھرا رہتا ہے۔ ڈیم کے موجودہ رقبے میں کئی گاؤں آباد تھے جن میں پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑپن اور مچھریالاں شامل تھے۔ شکرپڑیاں کا قدیم نام شکر پہاڑ تھا۔ شکرپڑیاں اور راول ڈیم چوک کے درمیان سمبل کورک اور ڈھوک نور کی آبادی تھی۔ شکر پڑیاں میں گکھڑوں بگیال شاخ کے لوگ آباد تھے، انہیں ملک بوگا کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی حدود میں مارگلہ ہلز پر کئی دیہات زمانہ قدیم سے آباد ہیں جن میں تلہاڑ، گوکینہ، ملواڑ سرہ، گاہ، نژیاس بڈھو شامل ہیں۔ فیصل مسجد کے مغرب میں پہاڑوں پر کلنجر نام کی بستی آباد تھی۔ فاطمہ جناح پارک کے قریب روپڑاں نام کی بستی تھی، اس نام کی اسلام آباد گے گردونواح میں تین آبادیاں ہیں۔ قرین ازقیاس یہی ہے کہ اس کے اولین آبادکار انبالہ روپڑ انڈیا سے آ کر آباد ہوئے۔ پارک کے قریب قدیمی شیرِ ربانی مسجد اور قبرستان بھی موجود ہے۔ گولڑہ شریف کے مالکان قطب شاہی اعوان تھے۔ ان کے اولین آباد کار نے اپنی شاخ گوڑہ کے نام پر اس مقام کا نام رکھا گیا۔ میرا جعفر گولڑہ کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، اس کے ساتھ میرا سمبل جعفر نام کی بستی ہے، ان دونوں گاؤں کو جعفر نامی شخص نے آباد کیا۔ ملک پور عزیزال کو ترکھان قبیلے نے آباد کیا۔ یہاں کوکنیال اور مکنیال لوگ بھی آباد ہیں۔ موہڑہ نگڑیال کو راجپوت قبیلے کی نگڑیال شاخ نے آباد کیا۔ میرا بیگوال سملی ڈیم روڈ پر واقع ہے یہ پہاڑی کے قریب خوبصورت محل وقوع پر واقع ہے، اسے دھنیال قبیلے نے آباد کیا۔ موضع تمیر کو دھنیال قبیلے کی شاخ رونیال نے آباد کیا۔ کوری، کرور، کرپا بند بیگوال چارہان اور میرا بیگوال دھنیال قبیلے کے مشہور دیہات تھے۔ قدیم درو میں چراہ کا قاسم خان اور کرور کا نمانا خان دھنیال قبیلے کی نمایاں شخصیات تھیں، پھروالہ کا راجہ کرم داد گکھڑ ادمال قبیلے کا معروف شخص تھا۔ جھنگی سیداں موٹروے کے قریب اہم گاؤں ہے، اس کے مالکان سید تھے۔ جن کے نام پر اس کا نام رکھا گیا، یہاں پر ان کی واضع اکثریت ہے۔ شاہ اللہ دتہ بھی سادات کی ملکیت ہے۔ ہون دھمیال سہالہ ٹریننگ کالج کے قریب گاؤں ہے، اسے دھمیال قبیلے نے آباد ہے، یہاں مٹھیال شاخ کے لوگ آباد ہیں۔ ہر دو گہر سہالہ کے قریب گاؤں ہے، یہ سواں ندی کے دو حصوں میں تقسیم ہے، ڈھوک قاضیاں گہر راجگان چہال یاراں گہر نئی آبادی گھڑی اور دندی اس کی ذیلی بستیاں ہیں، یہ کہوٹہ روڈ پر واقع ہے، علی پور اور فراش دو علیحدہ علیحدہ گاؤں ہیں، راول ڈیم سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر لہتراڑ روڈ پر واقع ہیں۔ ان کی زمینیں ایکوائر کرلی گئی تھیں، اس کے قریب پنجگراں نام کی بستی ہے۔ علی پور کو اس کے اولین آباد بابا علی محمد کے نام پر رکھا گیا۔ ابتدائی طور پر یہاں کھوکھر، ملک آباد تھے، بعد میں ڈھونڈ راجپوت بھٹی قاضی اور جنجوعہ بھی آباد ہوئے، کری اور ترلائی کے قریب علی پور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، شاہ اللہ دتہ کے قریب پنڈ سنگڑیال، دھریک موہری جودھاں نام کے دیہات آباد ہیں، جودھاں قدیم گاؤں ہے یہاں شیرشاہ سوری عہد کے اوزار دریافت ہوئے ہیں۔ سنگ جانی جسے انگریز نے جانی کا سنگ لکھا ہے، اسلام آباد کے مغربی سلسلے کا آخری گاؤں ہے۔ اسلام آباد کی حدود میں آباد دیہاتوں اور قصبوں کی فہرست بہت طویل ہے، اکثر بستیوں کی شناخت مٹ چکی ہے، ان کی جگہ ماڈرن سیکٹر تعمیر ہوچکے ہیں۔
اسلام آباد کی حدود میں واقع قدیم اور جدید دیہاتوں کی مکمل فہرست درجہ ذیل ہے: لوہی بھیر، ملوٹ، ہون دھمیال، اراضی مسنالی، بگونال موہڑہ، بیگوال موہڑہ، باکری بدھال، چک شہزاد، علی پور فراش، جگیوٹ، جھنگی سیداں، میرا بیگوال،ملک پور عزیزال، ملپور، ممیرا جعفر،موہڑہ نگڑیال، پھلگراں، پنڈ بھیگوال، رحمان ٹاوں،سید پور،شاہ اللہ دتہ،نورپور شاہاں،شاہدرہ، ماندلہ،نڑولہ،رتہ ہوتر،نڑیل، جبی، کملاڑی، روملی، منڈیالہ، سرہ، بنی گالا، ملواڑ، گوکینہ، تلہاڑ، نڑیاس، بڈھو، بہارہ کہو سترہ میل، چک جابو، ٹیال، موہڑہ شاہ ولی، موہری گکھڑاں،نیلور،گڑھی شاہاں، اژھا، ہمک، جاوہ، روات کنالہ، موہڑہ نور، کرپا، چراہ، ٹھنڈا پانی، سملی، سہالہ، ترنول، سری سرال، میراآبادی، سوہان، چھتر، شاہ پور، سکریلہ، دوہالہ، اٹھال، چونترا، بابری پیٹھا، کرلوٹ، ہوتراں، کیتھر منگال، چنیاری، تمیر، میرا، موہڑہ گکھڑاں، کوکہ، موچی موہڑہ، منہاس، موہڑہ تولیاں، گاندھیاں، بیچو، ٹمہ، بڈھانہ کلاں، بناں ناں موہڑہ، بنی والہ موہڑہ، برلی نا، بوکڑہ، کینووالہ، چک مرزا، چنگا، چھنی، دریال دروالہ، ڈھکی والہ موہڑہ، ڈھنگی سیداں، دھریالہ ساگنہ، ڈھوک اللہ داد خان، ڈھوک مدد خان، ڈھوک موچیاں، ڈھوک تپلیاں، دھمن، ڈونگی، غوریاں ناں موہڑہ، گکھڑ ستہ، گبوترہ، گوجراں ناں موہڑہ، ہڈوالہ گوجراں، حاجیاں نی ڈھوک، جھنگا بنگیال، جھنگی حمید، کرم سنگھ، کھبلیاں ناں موہڑہ، کھنہ ڈاک، کھوجیاں ناں موہڑہ، کورٹانہ، لُنی ماواراں، مٹوعہ بنگلاڑہ، میاں حاجی صاحب، ماڈل ٹاوں ہمک، موہڑہ گھمیاراں، موہڑہ نی لنی، موہڑہ نبی شاہ، موہڑہ سیداں، مغل، نجو ناں موہڑہ، نگیال سوہال، ناوہ شاہ، بھڈانہ گوجر، پکاوی سرال، پھادیاں ناں موہڑہ، پرانا باغپور، شاہراک رلول، سوہالاں ناں موہڑہ، شاہی مہر علی، سوہاوہ مرزا، ٹلو ناں موہڑہ، ترکھانہ ناں موہڑہ، ترنالی بنگیال، ترندے نی کڑی، امناکہ، گاگری، سویرا، سرداں کلاں، ڈھوک جبی، پونا فقیراں، گاؤں سبن، ڈھوک جیلانی، ڈھوک بدھن، موہڑہ راجپوتاں، ڈھوک سجل، ڈھوک نندہ سہالی،چختان، درکلام، کنجاہ، ڈھوک لس، ڈھوک بن، بھمبھر تراڑ، چنیول، آڑہ، ڈھوک جوگیاں، نئی آبادی ہمک، کھدرپور، نیوشکریال، نوگزی، سمبل کورک، بادیہ رسمت خان، میرا آکھو، دھریک موہری، موہڑہ نئی آبادی، موضع سرائیں، ڈھوک بوٹا خان، ڈھوک ملیار، ڈھوک قریشیاں، پنڈ پراچہ، موضع مجوہاں، ڈھوک راجہ محبوب، باکر فتخ بخش، باکر آکھو، کرنول، ریحاڑہ۔۔ زیرِ تکمیل۔۔۔

مطلقہ خبریں