”پیغامِ پاکستان“ کے بیانیہ کی عالمی سطح پر بھی پذیرائی کی گئی، سعودی عرب، مصر، انڈونیشیا، ایران، عراق، لبنان اور قازقستان سمیت مختلف ممالک نے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کا کارنامہ قرار دیا اور ایسا ہی بیانیہ اپنے ملک کیلئے ناگزیر قرار دیا
سید زین العابدین
اسلامی نظریاتی کونسل کو 2 فروری 1973ء میں قائم کیا گیا، مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا ادارہ ہو جو ملک میں نافذ اسلامی قوانین و اصول کی تشریح اور عمل درآمد میں ریاست کی رہنمائی کرے۔ ساتھ ہی پاکستان میں آباد مختلف مسالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرے، جب آئین کی شق نمبر 227 شامل کی گئی جس کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا تو عملاً اس کے نفاذ کے لئے دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ تشکیل دیا گیا، جو کسی بھی قانون سے متعلق صدر، گورنر یا اسمبلی میں اکثریت کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کی اسلامی حیثیت کا جائزہ لے کر 15 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے تاکہ اُس قانون سے متعلق اسلامی احکامات اور مثالوں کی موجودگی کے باعث اس کا نفاذ ہوسکے۔ شق نمبر 228 میں اسی لئے یہ قرار دیا گیا کہ اس کے اراکین میں تمام فقہی مکاتبِ فکر کی مساوی نمائندگی ضروری ہوگی تاہم کم از کم چار ارکان ایسے ہوں گے جنہوں نے اسلامی تعلیم و تحقیق میں کم و بیش پندرہ برس لگائے ہوں اور انہیں جمہورِ پاکستان کا اعتماد حاصل ہو، جیسا کہ اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری سے متعلق تحریر کیا گیا کہ ایسے قوانین کی توثیق کرنا جو قرآن و سنت کی روشنی میں ہو اور وفاق و صوبائی اسمبلیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق سفارشات کرنا ہے، اس ادارے نے اپنے قیام سے اب تک متعدد معاملات میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، اس کے اراکین کی سفارشات پر پاکستان کے عوام کی نمائندہ اسمبلیوں نے قانون سازی کی اور قانون کی جس مشق میں ابہام یا کمی تھی اس میں اصلاح کی گئی مثلاً سود کے خاتمے پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد کی صورتِ حال کے لئے وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ٹاسک فورس کے قیام اور اس کی رہنمائی اسلامی نظریاتی کونسل کے ذمہ لگائی گئی۔ اسی طرح اس ادارے نے غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے خلاف سفارشات دیں، کاروکاری یا اس طرز کے الزامات کے تحت کسی عورت کو مارنے کو قتل کرنا قرار دیا، ونی یا صلح کے لئے لڑکی کی زبردستی شادی کو قابل تعزیر (سزا) جرم قرار دیا، کسی عورت کا مذہب جبراً تبدیل کروانے والے کو تین سال قید کی سزا دینے کی سفارش کی۔ عورت کی قرآن پاک سے شادی جرم ٹھہرائی اور مرتکب افراد کو 10 سال کی سزا دینے کی سفارش کی، تین طلاقوں کو بیک وقت دینا جرم قرار دیا، جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی لگوائی، عورت سے زبردستی مشقت لینے پر پابندی لگوائی، عاقلہ، بالغہ عورت کو مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دی، شوہر اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر نس بندی (اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم) نہیں کرسکے گا، چونکہ جاگیردار طبقے میں یہ چلن ہے کہ دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کرلی اور نس بندی کروا لی گئی تاکہ ان سے اولاد پیدا نہ ہو اور پہلی خاندانی اہلیہ سے پیدا ہونے والے بچے اور آنے بچوں کے درمیان جائیداد کا جھگڑا ہی نہ ہو، اس طرزِ عمل کو عورت کا استحصال قرار دے کر ممنوع قرار دیا گیا، کیونکہ ماں بننا ہر منکوحہ عورت کا بنیادی حق ہے غرض کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے متعدد حوالوں سے قانون سازی اور عائلی قوانین سے متعلق رہنمائی کا بہترین فریضہ انجام دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کے وقت جسٹس ابوصالح محمد اکرم کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ اس ادارے کے پہلے چیئرمین بنے جبکہ ابتدائی اراکین میں جسٹس محمد شریف، مولانا اکرم خان، مولانا عبد الحامد، مولانا حافظ کفایت حسین، ڈاکٹر آئی ایچ قریشی، مولانا عبد الہاشم اور سید نجم الحسن شامل تھے۔ 13 علمی شخصیات کو اس ادارے کی صدارت کرنے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے، جن میں ڈاکٹر ایس ایم زمان، مولانا محمد خان شیرانی اور موجودہ چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کو دو مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی کا اعزاز مل چکا ہے، لیکن سب سے طویل مدت بطور چیئرمین پروفیسر علامہ علاؤالدین صدیقی رہے ہیں جن کا عرصہ 1964ء سے 1973ء تک کا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے تمام چیئرمینز نے اپنے فرائض منصبی کو بخوبی ادا کیا۔ لیکن سب سے زیادہ نمایاں ڈاکٹر قبلہ ایاز ہوئے کیونکہ ان کے دونوں ادوار میں ایسے امور انجام دیئے گئے جو خاصے مشکل تھے، کچھ نکات کا ذکر ہوچکا لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ پیغامِ پاکستان کا متفقہ بیانیہ ہے جس پر موجودہ عہد کے تمام اہل علم شخصیات کے دستخط ہیں بلکہ اس قومی دستاویز پر 31 ہزار علماء نے دستخط کئے ہیں، جس سے اس کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، 31 ہزار علمائے کرام نے ایسے ہی تو دستخط نہیں کر دیئے انہوں نے اس کا مطالعہ کیا ہوگا، اس میں اپنی رائے اور تجاویز پیش کی ہوں گی، پیغامِ پاکستان کے بیانیہ کی عالمی سطح پر بھی پذیرائی کی گئی، سعودی عرب، مصر، انڈونیشیا، ایران، عراق، لبنان اور قازقستان سمیت مختلف ممالک نے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کا کارنامہ قرار دیا اور ایسا ہی بیانیہ اپنے ملک کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اس کارنامے میں سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل علامہ سید افتخار حسین نقوی کا بھی اہم کردار ہے کیونکہ انہوں نے اس بڑے کام کے لئے اپنے ذاتی اثرورسوخ اور علمی تجربے کے ذریعے ڈاکٹر قبلہ ایاز کا ہاتھ بٹایا اور اپنے رسائی ادارے کے ذریعے اس کی نشرواشاعت کو یقینی بنایا، اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ اہم اقدام عالم اسلام کے 57 ممالک کے لئے بہترین مثال ہے کہ وہ بھی اسی طرز کا روڈمیپ تشکیل دے کر مسلکی ہم آہنگی کو یقنی بنا سکتے ہیں۔
پیغامِ پاکستان کے بیانیے کے نکات درج ذیل ہیں
تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کریں۔ ریاست پاکستان کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں اور ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری دستور پاکستان میں درج تمام بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی بنائیں، ان میں مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہارِ خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہیں۔
دستورِ پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانینِ پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لئے پُرامن جدوجہد کریں۔
اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی، مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی کے اداروں کے افراد سمیت کسی بھی فرد کو کافر قرار دے۔
علماء، مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو چاہئے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔
ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازع اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔
کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکری کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
انتہاپسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں، خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں، کے خلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کئے جائیں گے۔
اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں، مگر کسی کو کسی شخص، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
کوئی شخص خاتم النبین حضرت محمدؐ، جملہ انبیائے کرامؑ، امہات المومنین، اہل بیت اطہارؑ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کی توہین نہیں کرے گا۔ کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ بنے گا۔
کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی اسکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا۔ البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے (مسلمان کی تعریف اور وہی معتبر ہوگی جو دستورِ پاکستان میں ہے)۔
کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، دہشت گردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت نہیں کرے گا، ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوگا۔
سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلافِ رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لئے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔
تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستورِ پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔
بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔
پاکستان کے غیرمسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔
اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے۔ ہر فرد غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے، کیونکہ یہ اسلام کی رو سے ممنوع ہیں۔
کوئی شخص مساجد، منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات اور ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازع گفتگو نہیں کرے گا۔
آزادی اظہارِ اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اس لئے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔