بہتر ہوگا کہ ہم اپنا موجودہ چلن اور طور طریقہ تبدیل کریں اور ملک کے ساتھ مذاق بند کریں، دنیا ہمیں مشورہ دیتی آرہی ہے کہ ایمانداری اور محنت کو اپناؤ، ورنہ تم اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ سکو گے، ایٹم بم اور راکٹ تمہیں بچا نہیں پائیں گے
جاوید صدیق
پاکستان کے شہروں اور قصبوں کی سڑکوں پر قمیتی گاڑیوں کو چلتے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ غریب ملک ہے۔ ہر مہینے سامنے آنے والے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کاریں بنانے یا پرزے جوڑ کر کاریں بنانے والی کمپنیاں بے پناہ منافع کما رہی ہیں۔ ماہانہ بنیادوں پر کاروں کی فروخت میں بھی پچاس فیصد تک اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ دوسری طرف بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں تعمیر ہوتے ہوئے قیمتی گھروں پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے لوگوں کے پاس اربوں روپے ہیں کہ وہ محل نما مکانات بنا رہے ہیں۔ شہروں کے پرانے علاقوں میں اگرچہ پرانی طرز کے چھوٹے مکانات اب بھی موجود ہیں لیکن ان قدیم بستیوں یا محلوں سے نکل کر لوگ نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں آباد ہورہے ہیں۔
دوسرا منظر دیکھیں تو حکومت کی آمدنی کے کھاتے بتاتے ہیں کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف چند لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اخراجات پورے کرنے کے لئے بالواسطہ (ان ڈائریکٹ) ٹیکس لگا کر تنخواہ دار اور دیہاڑی دار لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔ بجلی اور گیس کی چوری سے ہونے والے اربوں روپے کا نقصان بھی عام شہریوں سے پورا کیا جارہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کم وبیش تین کھرب ڈالر پاکستان اور پاکستان سے باہر جائیدادوں بھی انویسٹ کر دیا گیا ہے، یہ سارا پیسہ ڈیڈ انویسٹمنٹ ہے، اس سے حاصل والی آمدنی چند لاکھ لوگوں کی جیبوں میں جارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ انویسٹمنٹ بھی لوٹ مار کے پیسے اور قومی خزانے سے چوری ہونے والے سرمایہ سے کی گئی ہے۔ اس وقت پاکستان پر ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض چڑھا ہوا ہے۔ اس قرض پر سود کی ادائیگی کے لئے اربوں ڈالر چاہئیں۔ یہ سود ادا کرنے کے لئے مزید قرض لیا جارہا ہے۔ موجودہ وزیراعظم شہبازشریف سعودی عرب میں موجود ہیں، اس دورے کا مقصد عمرہ کرنا نہیں بلکہ سعودی عرب سے ادھار تیل لینا اور تین ساڑھے تین ارب ڈالر لے کر مزید قرضے لینا ہے۔
سعودی حکمران خاندان کو بھی علم ہے کہ پاکستانی وفد پیسے اور تیل مانگنے کے لئے آرہا ہے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کو دیتے ہی رہے ہیں۔ دوسرا ملک جہاں سے مانگ تانگ کر دن گزارے جاسکتے ہیں وہ چین ہے، چین ہماری گداگری سے تنگ آچکا ہے۔ ایک طرف ہم ایٹمی طاقت ہونے پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم واحد اسلامی ایٹمی قوت ہیں، دوسری طرف ہم اپنے لوگوں کو روٹی کھلانے اور دوسری بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دُنیا بھر سے قرض مانگتے پھر رہے ہیں۔ ہم اپنے ایٹمی اثاثوں اور اپنی عزت اور انا کو کب تک بچا سکیں گے؟ کچھ سیانے اور سمجھ دار لوگ کہتے ہیں کہ اسی طرح ہم قرض لیتے رہے اور اپنی آمدنی اور پیداوار کو نہ بڑھا پائے تو ہمیں ایٹمی اثاثے گروی رکھنے پڑیں گے خدانخواستہ۔
بہتر ہوگا کہ ہم اپنا موجودہ چلن اور طور طریقہ تبدیل کریں اور ملک کے ساتھ مذاق بند کریں۔ دنیا ہمیں مشورہ دیتی آرہی ہے کہ ایمانداری اور محنت کو اپناؤ، ورنہ تم اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ سکو گے، ایٹم بم اور راکٹ تمہیں بچا نہیں پائیں گے۔