ضمیر آفاقی
پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیرقانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 67 لاکھ ہے اور ان میں بھی سب سے بڑی تعداد 25 سے لے کر 39 برس تک کی عمر کے افراد کی ہے، دوسرا سب سے بڑا گروپ 15 سال سے لے کر 24 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔
بحیثیت معاشرہ اور ملک ہم تنزلی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ کسی بھی ایسے ملک یا معاشرے کو مثالی کیسے کہا جا سکتا ہے، جس میں مصیبت زدگان کو ناصرف تنہا چھوڑ دیا جائے بلکہ انہیں انسان بھی نہ سمجھا جائے۔ پاکستان بھر میں صحت عامہ کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ لوگ بیماری سے یوں بدکتے ہیں جیسے پولیس کو دیکھ کر شریف آدمی بدکتا اور خوف زدہ ہوتا ہے۔ سرکاری اسپتال بوچڑ خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسز کے رویے مریضوں کے ساتھ غیرانسانی ہیں۔ المیہ ملاحظہ کیجئے ڈاکٹرز کی مجرمانہ غفلت کی بنا پر اموات ہوتی ہیں یا ان کی وجہ سے کوئی مریض عمر بھر کے لئے معذور ہوجاتا ہے یا اس کے علاج میں کوتاہی برتی جاتی ہے، ان کو معمول کی کارروائی قرار دے کر معمولات کو جاری رکھا جاتا ہے۔
پنجاب میں ایک طرف اتائیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں تو دوسری طرف نشے کے مریضوں کی علاج گاہوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ یہ سارے عمل ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے کے لئے ضروری ہیں لیکن اس سے پہلے حکومت کو صحت عامہ کی سہولیات عام آدمی تک پہنچانے کا بندوبست کرنا چاہئے۔ سرکاری اسپتالوں میں اگر مریضوں کا علاج انہیں ذلیل کئے بنا ہوتا اور ہر یونین کونسل کی سطح پر سرکاری شفاخانے قائم کر دیئے جاتے تو حکام کے اس عمل کو عوام الناس میں پذیرائی ضرور ملتی۔ گلی محلوں میں کھلنے والے اتائیوں کے کلینک کے پیچھے چھپی وجوہات تلاش کرنے کی کسی نے زحمت گوارا کی؟ غربت کی چکی میں پسے لوگ نہ ہی مہنگا علاج کرا سکتے ہیں اور نہ سرکاری اسپتالوں میں خوار ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے لئے یہی کلینک کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ اسی طرح نشے کا شکار مریضوں کے لئے کھلی علاج گاہیں ہیں، جہاں نشے کے مریضوں کو کچھ علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہونے کے ساتھ جتنے دن وہ وہاں رہتے ہیں، بندش ملتی ہے جس سے کچھ دن ان کے گھر والوں اور معاشرے کو سکون نصیب ہوتا ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہاں کیسا علاج ہو رہا ہے؟ سوال اس بات پر اٹھایا جانا چاہئے کہ حکومت اس ضمن میں کیا کر رہی ہے؟ لاہور جیسے بڑے شہر، جس کی آبادی پونے دو کروڑ کے قریب ہے، جہاں لاکھوں منشیات کے عادی افراد ہیں، جن میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کے لئے ایک بھی سرکاری شفاخانہ نہیں ہے۔ مینٹل اسپتال لاہور میں جو ایڈکشن وارڈ بنائی گئی ہے، اس کا ابھی تک افتتاح ہی نہیں ہوا۔ سرکاری ڈاکٹر ایڈکشن کے مریضوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کرتے ہیں، یعنی انہیں ادویات کی ہیوی ڈوز دی جاتی ہے جس سے وہ ٹھیک ہونے کے بجائے ذہنی مریض اور پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق شہر کے پارکوں اور فٹ پاتھوں پر انجکشن اور ادویات کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور کے 25 مقامات جن میں لکشمی چوک، رائل پارک، ڈیوس روڈ، کوئنز روڈ، مزنگ، علی پارک، داتا دربار، مال روڈ، بند روڈ، چوبرجی پارک، ریواز گارڈن اور اندرون شہر کے کئی علاقوں کے علاوہ ریلوے اسٹیشن شامل ہیں، وہاں نشہ کا استعمال کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ انجکشن کے ذریعے نشہ ایڈز میں اضافے ایک وجہ ہے۔ نشئیوں کی اکثریت کا ٹھکانہ داتا دربار اور مال روڈ لکشمی چوک ہے۔ دوسری جانب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً سات ملین ہے۔ ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی اور اس میں منشیات کے عادی افراد کے تناسب کے لحاظ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت منشیات کی روک تھام کے لئے جتنی بھی کوششیں کررہی ہے، وہ ابھی تک کافی ثابت نہیں ہوئیں اور ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد کتنی ہے، اس بارے میں وفاقی یا صوبائی حکومتیں کوئی سالانہ اعدادوشمار جمع کرنے کے لئے کوئی ریسرچ نہیں کراتیں۔ اس سلسلے میں ایک بااعتماد ذریعہ اقوام متحدہ کا منشیات اور جرائم کی روک تھام کا دفتر ہے، جو یو این او ڈی سی کہلاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ دفتر بین الاقوامی سطح پر منشیات کے استعمال اور ان کی تجارت سے متعلق حقائق جمع کرتا ہے۔ یو این او ڈی سی کے کچھ عرصہ پہلے کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیرقانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 67 لاکھ ہے اور ان میں بھی سب سے بڑی تعداد 25 سے لے کر 39 برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا گروپ 15 سال سے لے کر 24 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔ ان قریب سات ملین افراد میں سے 42 لاکھ ایسے ہیں، جو مکمل طور پر نشے کے عادی ہیں۔ ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات فروشوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے سے قاصر رہے ہیں، تو دوسری جانب ان بدنصیبوں کے لئے کوئی علاج گاہ بھی نہیں ہے اور جو کلینک پرائیویٹ لوگ چلا رہے ہیں، وہاں علاج اتنا مہنگا ہے کہ کوئی غریب آدمی افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔ جنہیں اور جو کچھ سستے ہیں انہیں ہلیتھ کیئر کمیشن بند کیے جا رہا ہے۔ پاکستان میں منشیات کا استعمال کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں دہشت گردی کے نتیجے میں قریب 60 ہزار افراد مارے گئے لیکن اس سے چار گنا زیادہ تعداد میں پاکستان ہی میں ہر سال منشیات کی وجہ سے انسانی ہلاکتیں دیکھنے میں آتی ہیں، لیکن اس کو کوئی بڑا مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومتوں کے نزدیک انسانی جان کی کتنی اہمیت ہے۔
پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ترجمان کے مطابق ’’اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں ایسے بہت جدید علاج اور بحالی کے مراکز کام کر رہے ہیں، جہاں منشیات کے عادی مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری فورس اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ سے زیادہ آگہی کے لئے مختلف ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام بھی کرتی ہے۔‘‘ لیکن حیرت ہے کہ نہ ہی ایسے کسی ادارے کے بارے عوام الناس کو آگاہی ہے اور نہ ہی منشیات استعمال کرنے والے افراد میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کے مطابق نشے کے عادی ایک مریض کے علاج پر کم سے کم 25 ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے اور اس بحالی میں کم از کم بھی تین سے چار ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔۔۔ لیکن اگر نشے کی عادت کے ساتھ ساتھ مریض کو دیگر نفسیاتی یا جسمانی مسائل کا سامنا بھی ہو، تو علاج کا دورانیہ خاصا لمبا ہوجاتا ہے۔
یہ بھی المیہ ہے کہ منشیات ضبط کر کے اسے جلا تو دیا جاتا ہے مگر منشیات کی فروخت سے منسلک گروہ اتنے بھی فعال ہیں کہ کھلے عام فروخت ہو رہی ہوتی ہے، منشیات کی اس لعنت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بہت چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ پاکستان میں تمام اقسام کی منشیات آسانی دستیاب ہیں اور ان کی فراہمی گھروں تک باآسانی میسر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 4.5 ملین منشیات کے عادی افراد کو علاج و معالجہ اور خصوصی طبی اقدامات کی سہولیات کی کمی ہے جبکہ یہ سہولیات سال بھر میں 30 ہزار افراد سے بھی کم افراد کو میسر ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ مختلف قسم کا منظم علاج معالجہ بھی مفت نہ ہونے سے ہزاروں افراد منشیات سے چھٹکارا حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت پاکستان نے منشیات کے روک تھام کی لئے ہنگامی بنیادوں پر حساس اقدامات نہ اٹھائے تو یہ زہر اس ملک کی نسلیں نگل جائے گا۔ ذہنی و جسمانی مفلوج نسلیں اس ملک پر بوجھ ہی نہیں بلکہ اس ملک کے لئے ناسور ثابت ہو رہی ہیں۔ منشیات کے خاتمے کے لئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ منشیات کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لئے باقی ملکوں کی طرح پاکستانی قوم کو بھی باہمی قوت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔