Friday, July 18, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

آٹھ ارب آبادی والی دُنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

ڈاکٹر لوئے شعبانیہ یواین ایف پی اے کے نامزد سربراہ

پندرہ نومبر 2022ء تک دُنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ گئی ہے۔ اس بات کو لے کر آبادیاتی و ترقیاتی ماہرین، ماہرین اقتصادیات، منصوبہ سازوں اور سیاست دانوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اور خیالات آتے ہوں گے۔ کیا زمین میں اتنی صلاحیت باقی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی و انسانی ساختہ تباہیوں کے بیچ انسانی آبادی میں بے ہنگم اضافے کا بوجھ برداشت کرسکے جبکہ یہ مسائل خوراک کی کمی اور تعلیم و صحت کے وسائل تک عدم رسائی کا بھی باعث ہیں اور آنے والی نسلیں کس طرح اپنے طرزِ زندگی کو تشکیل دیں گی اور اپنے بنیادی حقوق سے لطف اندوز ہوں گی؟
پاکستان ان آٹھ دیگر افریقی و ایشیائی ممالک میں شامل ہے جو 2050ء تک دُنیا کی متوقع آبادی کے نصف حصے کے حامل ہوں گے۔ حالیہ عالمی اعدادوشمار کے برعکس پاکستان کے اعدادوشمار موجودہ اور مستقبل کے پاکستان میں معیارِ زندگی، فلاح و بہبود اور لوگوں کی خوشحالی کے حوالے سے ایک مشکل منظرنامے کی عکاسی کرتے ہیں۔
پاکستان کی آبادی 1.9 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے، جو 2022ء میں 0.8 فیصد کی عالمی سالانہ شرح سے دوگنا (237 فیصد) سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں شرح افزائش نسل 3.6 فیصد ہے جو عالمی شرح سے 157 فیصد زیادہ ہے۔ اس سے قدرتی وسائل، معیشت اور اس کے نتیجے میں ملک میں معاشرتی تانے بانے کے ساتھ ساتھ ریاست کی تمام لوگوں کو آئین اور آئی سی پی ڈی 25 اور ایف پی 2030 کے متفقہ بین الاقوامی معاہدوں میں دیئے گئے حقوق فراہم کرنے کی صلاحیتوں پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔
زندگی کے معیار کے حوالے سے گہری تحقیق اور اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان طویل عمری کے حوالے سے دُنیا سے پیچھے ہے، دُنیا میں اوسط زندگی 73 سال ہے، جو پاکستان کے لوگوں کی اوسط زندگی سے سات سال سے بھی زیادہ ہے۔ صحت کے اچھے نظام اور طبی نگہداشت کی وجہ سے افزائش نسل کی صلاحیتوں میں کمی اور متوقع عمر میں اضافے کے نتیجے میں قومیں تیزی سے عمر رسیدہ ہورہی ہیں۔ عالمی سطح پر 10 فیصد آبادی 65 سال سے زائد عمر کی ہے جبکہ 4.4 فیصد پاکستانی اس سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آخر میں نقل مکانی گزشتہ دہائی میں عالمی آبادی کی حرکیات پر اثرانداز ہوئی ہے۔ تقریباً 281 ملین افراد (3.5 فیصد) اپنے پیدائشی ملک سے باہر رہتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ شرح انتہائی زیادہ ہے، جہاں 9 ملین یا تقریباً 4 فیصد لوگ ملک سے باہر رہتے ہیں۔
مذکورہ بالا اعدادوشمار کی روشنی میں معیشت، فلاح و بہبود اور آنے والی نسلوں پر آبادی میں اضافے کے بوجھ کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔ اگر ہم وبائی امراض، ماحولیاتی تبدیلی اور موجودہی غربت کی سطح پر غور کریں تو بڑھتی آبادی سے منسلک مسائل مزید گھمبیر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس پر مستزاد، ممکنہ خراب معاشی صورتِ حال کی پیش گوئی توانائی اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ اور خدمات کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے عالمی غذائی تحفظ پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔
ان پریشان کن حالات میں منطقی سوالات ابھرتے ہیں کہ آگے مزید کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے یا کیا جانا چاہئے۔ اگرچہ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے کوئی واضح حل نہیں ہے، لیکن راستے واضح ہیں۔ حقیقت میں تاریخ کامیابیوں اور ناکامیوں کی ایک وسیع ادارہ جاتی یادداشت کا نام ہے۔
صرف پاکستان کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر توجہ مرکوز کرنے سے اصل مصیبت سے ہماری توجہ ہٹ جائے گی۔ آبادی کے بڑھنے گھٹنے کا رجحان بذات خود اچھا یا بُرا نہیں ہوتا، بلکہ آبادیاتی استحکام کی تعمیر پائیدار ترقی کے لئے اہم ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی تولیدی صحت اور حقوق آبادیاتی تبدیلیوں سے گزرتے معاشروں کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کی عمروں کی طوالت، صحت کی دیکھ بھال تک رسائی، حقوق اور معیارِ زندگی میں واضح فرق موجود ہے، ماحولیاتی تبدیلی اور صحت کی دیکھ بھال تک غیرمساوی رسائی جیسے مسائل خواتین اور لڑکیوں سمیت سب سے زیادہ کمزور افراد کو غیرمتناسب طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔
آبادیاتی رجحانات کو سمجھنے اور پیش بندی کرنے کی صلاحیت آبادیاتی لچک اور استحکام کی ایک علامت ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے شہریوں کی ترقی کے لئے انہیں مہارت، ذرائع اور مواقع فراہم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ صحت، تعلیم اور انسانی حقوق کی بہتر فراہمی سے آبادی میں اضافے کے باوجود اموات کی شرح میں کمی اور افزائشِ نسل کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ان مسائل کا حل کم یا زیادہ لوگ نہیں بلکہ مواقع تک مساوی رسائی ہے۔ پاکستان تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری کرکے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی سے معاشی ترقی کے مواقع پیدا کرسکتا ہے۔
مستقبل میں عالمی سطح پر آنے والے اگلے ایک ارب لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لئے پاکستان کو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات، جیسے معائع حمل، زچگی کی معیاری دیکھ بھال اور خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق کے بارے میں درست اور بروقت معلومات تک آسان رسائی حاصل ہو۔
خاندانی منصوبہ بندی وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ایک قومی، پائیدار، بین الشعبہ جاتی اور سیاسی اور مالی طور پر حمایت یافتہ ایجنڈا ہونا چاہئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہر حمل مطلوبہ ہو (مرض اور ارادے سے ہو)، ہر زچگی محفوظ ہو (کوئی بھی عورت زندگی کو جنم دینے دیتے ہوئے اپنی جان نہ کھوئے) اور ہر نوجوان شخص (قوم کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے) اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے قابل ہو۔ ان میں سے تعلیم، خاص طور پر ثانوی تعلیم، صحت اور لڑکیوں اور خواتین کو مہارتوں کی فراہمی میں موثر سرمایہ کاری شامل ہونی چاہئے۔ یہ خوشحالی اور امن کا راستہ ہے جو ہر کوئی چاہتا ہے اور اس کا مستحق ہے۔
حالیہ تحقیق سے انتخاب اور اپنی مرضی کے فیصلے کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے جن سے قدرتی طور پر آبادیاتی اور ترقیاتی اشاریوں کو درست سمت میں موڑا جاسکتا ہے۔ خدمت، آگہی کے فروغ اور سماجی بہتری کے معیارات پر استوار اور حقوق پر مبنی خاندانی منصوبہ بندی کی مہمات کے ذریعے معاشی ترقی کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور قدرتی وسائل کی دیرپا دستیابی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کی کامیابی کے لئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ میاں بیوی کو آزادانہ طور پر انتخاب کا اختیار حاصل ہو کہ وہ کس طرح اور کب بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ ریاست، ترقیاتی ماہرین اور سماجی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو صحیح انتخاب کے لئے تمام مطلوبہ وسائل (معلومات، خدمات اور ذرائع) فراہم کریں۔

مطلقہ خبریں