جنرل مرزا اسلم بیگ
حالیہ منعقد ہونے والے انتخابات صاف شفاف ہوئے جس کی شہادت سلیم سافی نے یکم اگست 2018ء کو شائع ہونے والے مضمون ’’انتخابات جو میں نے دیکھے ہیں‘‘ میں دی ہے۔ لیکن اس کے باوجوددھاندلی، جانبداری اورغیرشفافیت کے بارے میں شور مچا ہوا ہے خصوصاً ان سیاستدانوں نے زیادہ واویلا مچایا ہوا ہے جنہیں شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ وہ نہ صرف الیکشن کمیشن کی نااہلی اور جانبداری پر انگلی اٹھا رہے ہیں بلکہ انتخابی عمل میں شریک قومی اداروں کو بھی موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ عمران خان کی جماعت کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دراصل یہ عمران خان کی حکمت عملی تھی کہ ڈی چوک پر طویل دھرنا دیا اور پاکستان کے گلی کوچوں میں مظاہرے کرکے پارلیمنٹ سے ماورا نتائج حاصل کئے اور وہ پارلیمنٹ جو عوامی سیاسی طاقت کا محور سمجھی جاتی ہے اس سے دور رہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کا پُرزور چرچا کرکے عوامی نفسیات پر اتنا اثر ڈالا کہ عوام تبدیلی لانے پر مائل ہوگئے اور بلآخر ان کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی اور تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کے سامنے آئی ہے۔
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا فوری ردعمل یہ تھا کہ عمران خان کو ان کے اپنے رویے کا مزہ چکھانا ضروری ہے جیسا کہ 1976ء میں پی این اے نے کیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا تھا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اس طرح کا ردعمل اختیار کرنے پر رضامند نہ ہوئیں اور پالیمنٹ میں بیٹھ کر جمہوری انداز سے تبدیلی لانے کا مشورہ دیا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں۔ بلاشبہ یہ ایک صائب سیاسی فیصلہ ہے جس سے سیاسی محرکات اور جمہوری روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تبدیلی لانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ تبدیلی وہی سودمند ہوتی ہے جو پارلیمنٹ کے اندر سے آئے کیونکہ جو تبدیلی اب آئی ہے اس سے ہماری قومی نظریاتی شناخت اور جمہوری روایات اور ثقافت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو نہایت پریشان کن ہیں۔
جمہوری روایات
حالیہ انتخابات کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلی کی ثقافت سڑکوں اور گلیوں میں پروان چڑھی ہے جسے ہوا دینے میں ہمارے میڈیا کا کردار بہت نمایاں رہا ہے اور سب نے مل کر ایسی زبان اور طریق کار اختیار کیا جس نے ہماری روزمرہ کی زندگی میں سیاست کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے مضر اثرات نہ صرف ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہوئے بلکہ پوری سیاسی ثقافت کی بدنامی ہوئی ہے۔ ان حالات نے ہماری مذہبی جماعتوں کوبھی بیدار کیا جنہوں نے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا لیکن وہ زیادہ کامیابی حاصل نہ کرسکیں البتہ انہوں نے چند اہم علاقوں میں سیاسی توازن کو گڈ مڈ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچایا اور ان کے لئے مشکلات کھڑی کیں جس سے تحریک انصاف کو فائدہ ہوا اور ’’اب کپتان کے ہاتھوں میں ایک بھاری بھرکم ٹرافی ہے جسے جیتنے کے لئے انہیں اس جنجال سے گزرنا پڑے گا جو اس انتخابی طریق کار کے سبب پیدا ہوا ہے۔‘‘
نظریاتی و ثقافتی تبدیلی
ان انتخابات کے نتائج سے جو جمہوری دور ابھرا ہے اس کی نوعیت بہت منفرد ہے کیونکہ اس میں اہم کردار نقاب پوش خاتونِ اول محترمہ بشریٰ خان کا ہے جنہوں نے عمران خان کے انتخابی عمل اور روحانی پرورش پر خاص اثرت مرتب کئے ہیں۔ مستقبل کی خاتونِ اول کے ایک واقف حال دانشور بیان کرتے ہیں کہ: ’’بشریٰ خان کی عمران خان کے وزیراعظم بننے کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی ہے۔ انتخابات سے بہت پہلے ان کا یہ کہنا بھی درست ثابت ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں 116 سیٹیں ملیں گی۔ وہ بہت عملی خاتون ہیں جو اپنے شوہر کو مذہبی، روحانی اور سیاسی امور پر صائب مشورے دیتی ہیں جن کی بدولت سیال شریف کے پیروں، سلطان باہو شریف کے پیروں حتیٰ کہ مانکی شریف کے پیروں کو پاکستان تحریک انصاف میں جگہ دلوانے میں بھی ان کا کلیدی کردار ہے۔ پاکپتن شریف کے بابا فرید کے دربار کے منتظم دیوان مودود مسعود کی تائید بھی انہیں حاصل ہے۔ مستقبل کی نقاب پوش خاتونِ اول کو بریلوی اور روحانی حلقوں میں خاصا اثرورسوخ حاصل ہے جس کی وجہ سے انہوں نے تحریک لبیک کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی تھی۔ انہی کے مشورے اور کوششوں سے عمران خان کی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن سے تین گھنٹے طویل ملاقات ممکن ہوئی جس میں انہیں اہل سنت و جماعت کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس نقاب پوش خاتون کی موجودگی نے بنی گالہ پر بہت مثبت اثرات مرتب کئے ہیں اور اب مستقبل کے وزیراعظم عمران خان پانچ وقت نماز باقائدگی سے پڑھتے ہیں اور نئی حاصل ہونے والی روحانی طاقت کی بدولت اپنے اردگرد کے ماحول کو پاک و پاکیزہ محسوس کرتے ہیں۔‘‘
بلاشبہ گزشتہ چند مہینوں میں عمران خان کی شخصیت میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے جو حیرت انگیز ہے اور اب وہ مقبروں اور پیروں کے پجاری بن چکے ہیں اور تعویز گنڈوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور شاید ان کے نئے پاکستان کے تصور کو بھی ایسے ہی نظریات کا حامل ہونا ہے اور اب کسی طرح بھی وہ پاکستان کی فاتح قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان نہیں لگتے بلکہ ایک نابگارزمانہ شخصیت کا روپ دھار چکے ہیں جو اپنی بیوی کی روحانیت کے اسیر ہیں اور وہی ان کی سیاسی مرشد بھی ہیں۔
قومی اسمبلی میں قابل قدر سیٹیں جیتنے کے بعد عمران خان کی جماعت کی کوشش ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں اور گروپوں کو ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کرلیں گے جبکہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کا تعاون حاصل کرنے کو نظرانداز کرچکے ہیں جو انہیں واضح اکثریت دلا سکتی تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی سے فاصلے بڑھانا ان کے لئے پالیسی بلنڈر ہے۔ (اور شاید اس غلطی کا احساس کرتے ہوئے عمران خان پس پردہ پیپلزپارٹی سے روابط قائم کررہے ہیں)۔ اب انہیں پارلیمنٹ میں ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہوگا جس کے سامنے ان کی معمولی اکثریت قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ صورتِ حال ان کے لئے مستقل پریشانی کا سبب بنی رہے گی کیونکہ وہ ایک غیرمستحکم حکومت کے سربراہ ہوں گے جو اپنا زیادہ تر وقت حکومت کے توازن کو برقرار رکھنے پر صرف ہوگا جبکہ سینیٹ میں انہیں قانون سازی کے عمل پر بھی سخت مشکلات پیش آئیں گی اور انہیں کہنہ مشق سیاستدانوں، دو بڑی جماعتوں اور ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہوگا جو ہر وقت ان کی حکومت گرانے کی کوششوں میں لگا رہے گا تاکہ وہ یہ سچ ثابت کرسکیں کہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔
حزب اختلاف کو عمران خان کو ناکوں چنے چبوانے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ امر ملک کے لئے کسی طور نیک شگون نہیں ہے۔ حزب اختلاف نے اسمبلی کے اندر بیٹھ کر کھیل کھیلنے کا مضبوط سیاسی فیصلہ کیا ہے اور اسی حکمت عملی کی تحت عمران خان کو اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم بننے اور پنجاب میں حکومت بنانے کی کھلی چھٹی دی ہے تاکہ ان کی حکومت کو گرا کے اخلاقی اور سیاسی برتری حاصل کریں اور یہ عمل پارلیمنٹ کے اندر ہوگا جہاں وہ ’’خلائی مخلوق‘‘ کی پہنچ سے دور رہتے ہوئے جمہوری طریقے سے عمران خان کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اس طرح یہ سیاسی دنگل نہ تو ٹی ٹونٹی (ٹی-20) میچ ہوگا اور نہ ہی ون ڈے (اودی آئی) بلکہ پانچ دنوں کا بھرپور ٹیسٹ میچ ہوگا جس سے پاکستانی قوم خوب لطف اندوز ہوگی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے ڈی چوک (دی چوک ) پر اپنی پچ (پچ ) بنائی تھی لیکن اب حزب اختلاف نے پارلیمنٹ کے اندر پچ بنائی ہے جہاں فیصلے کے لئے ایمپائر کی انگلی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ البتہ ہمارے میڈیا کو بہتریں کمائی کے لئے اس سے بہتر موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔ ان حالات میں بظاہر عمران خان کی پالیسیوں کا انجام یہی نظر آتا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی کرشماتی شخصیت کی حامل خاتونِ اول ’’خدائی مداخلت‘‘ حاصل کرکے ان کی عزت بچا سکتی ہیں۔