رپورٹ: سید زین العابدین
سال ایک فرد کیلئے تو بہت ہے مگر قوموں کی زندگی کیلئے بڑا عرصہ نہیں ہے، ڈاکٹر شاہد ریاض
آزادی کے بعد ہماری سمندری حدود 4 میل تھی اب 350 میل ہے، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
آزادی کے بعد 70 سال میں ہمیں کچھ شعبوں میں نمایاں کامیابی ملی، طلعت وزارت
ہم اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہیں، یہ اعزاز کم نہیں، کموڈور (ر) سید عبید اللہ
انیس سو چھپن میں پی اے ای سی نے دفاع کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی کامیابی حاصل کی، وقار مرتضیٰ بٹ
کامیابی کے ساتھ ہمیں مشکلات اور خدشات کا بھی ادراک ہونا چاہئے، نصرت مرزا
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے تحت پاکستان کے 70 سال۔۔ عظمت، مشکلات اور خدشات کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین اور سینئر تجزیہ نگار و کالم نگار نصرت مرزا نے سیمینار کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ آزادی ایک نعمت ہے، گزشتہ 70 سال میں نامساعد حالات کے باوجود ہم نے بعض شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ اس سیمینار میں شریک ماہرین مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے نوجوانوں خصوصاً طلبا کو یہ جاننا چاہئے کہ کیا ہماری سمت کا تعین درست ہے یا ہمیں ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے اکابرین نے جن مشکل حالات میں یہ وطن حاصل کیا تھا بعد میں آنے والے سیاسی رہنما اُن مشکلات کو کم کرسکے یا اُن کی نالائقیوں کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا۔ رابطہ فورم انٹرنیشنل کی کوشش ہے کہ وہ اپنے طلبا کی رہنمائی کرے اور ملکی و غیرملکی حالات سے انہیں باخبر رکھے۔ آج کا سیمینار ہماری آزادی کی 70 ویں سالگرہ کی مناسبت سے ہے۔ میں اپنے مہمانوں اور طلبا کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس سیمینار میں شریک ہونے کی دعوت کو قبول کیا۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ترجمان ڈاکٹر شاہد ریاض، پی اے ای سی کے سابق ممبر وقار مرتضیٰ بٹ، وائس ایڈمرل ریٹائرڈ آصف ہمایوں، کموڈور ریٹائرڈ سید عبیداللہ، پروفیسر ڈاکٹر طلعت اے وزارت، پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت، پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد، پروفیسر ڈاکٹر سیما ناز صدیقی، ڈاکٹر شجاعت حسین، ڈاکٹر محبوب حسن مقدم اور محمود عالم خالد کے خیالات طلبا کی رہنمائی کا باعث بنیں گے۔
ڈاکٹر شاہد ریاض
(ترجمان پاکستان اٹامک انرجی کمیشن پی اے ای سی)
پاکستان ایک نعمت ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے، ہمارے اکابرین کی انتھک کوششوں سے یہ ملک حاصل ہوا، جسے سنوارنے کا کام بعد کے لوگوں کا تھا، ہمیں اپنی غلطیوں کا ادراک ہونا چاہئے، مشکلات اور خدشات کا درست انداز لگانا ہوگا، تب ہم اپنی سمت کا تعین کرسکیں گے، بہت سی کوتاہیوں کے باوجود ہم نے کچھ شعبے میں بڑی ترقی کی، نیوکلیئر سائنس کے شعبے میں ہم نے روایتی حریف سے زیادہ کامیابی حاصل کی، ہمارے سائنسدان اور ماہرین کی صلاحیتوں کو دنیا نے تسلیم کیا، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے دفاع کے ساتھ سوشل سبجیکٹ میں بھی گراں قدر کام کیا، پی اے ای سی تعلیم، صحت اور زراعت کے شعبے میں بہت کام کررہا ہے، ہماری انجینئرنگ یونیورسٹی (پی آئی ای اے ایس)کا شمار بہترین جامعات میں کیا جاتا ہے، نیوکلیئر سائنس میں ہماری کامیابی کا سفر ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے بعد رُکا نہیں بلکہ جاری ہے۔ پی اے ای سی میں میریٹ کا نظام رائج ہے، ابتدا سے یہ ادارہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد رہا، جس کے باعث باصلاحیت اور ذہین طالب علم اس کا حصہ بنتے آرہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دفاع اور دیگر شعبوں میں ہم نمایاں کام کررہے ہیں، نئی تحقیقات پر ہماری نظر رہتی ہے، جسے ہم اپنے نوجوان ماہرین تک منتقل کرتے ہیں، قوم نے پی اے ای سی سے جو امیدیں وابستہ کیں ہیں، انشااللہ وہ پوری ہوتی رہیں گی۔
(وقار مرتضیٰ بٹ (ممبر پی اے ای سی
آزادی حاصل کرنے کے بعد 70 سال میں ہم نے چند شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کیں، ان میں ایک شعبہ نیوکلیئر سائنس کا ہے، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام مارچ 1956ء میں عمل میں آیا، اس وقت حسین شہید سہروری وزیراعظم تھے، پی اے ای سیکے پہلے سربراہ ڈاکٹر نذیر احمد تھے، ابتدا میں اس ادارے نے منصوبہ بندی اور دائرۂ کار کا تعین کیا پھر ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی اس کے سربراہ بنے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی خوش نصیبی یہ تھی کہ اسے پروفیشنل سربراہان ملتے رہے جنہوں نے کسی دباؤ کو قبول کئے بغیر میرٹ کو بنیادی اصول بنائے رکھا، ہمارے ادارے نے سوشل سیکٹر میں اپنی خدمات شروع کیں، اسی تناظر میں 1960ء میں پہلا میڈیکل سینٹر کراچی میں قائم کیا گیا، آج پورے ملک میں کینسر کے علاج کے لئے ہمارے 18 سینٹرز کام کررہے ہیں۔ جس میں 8 سے 9 لاکھ مریضوں کا مفت علاج ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ مزید شہروں میں بھی کینسر اسپتال قائم کئے جارہے ہیں۔ ہیلتھ کے ساتھ ہم نے زرعی شعبے پر بھی توجہ دی۔ 1962ء میں این آئی اے کے نام سے نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف ایگری کلچر ٹنڈوجام میں قائم کیا گیا۔ اس سینٹر نے زراعت کے شعبے کی ترقی کے لئے بہت کام کیا، 1970ء میں نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ فار ایگری کلچر اینڈ بائیولوجی (این آئی اے بی) صنعتی شہر فیصل آباد میں قائم کیا گیا۔ اس ریسرچ سینٹر کی منظوری 1967ء میں دی گئی تھی، 6 اپریل 1972ء کو اس ریسرچ سینٹر کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ 1982ء میں نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ فار فوڈ اینڈ ایگری کلچر (این آئی ایف اے) پشاور میں قائم کیا گیا، پھر 1994ء میں فیصل آباد ہی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جنیٹک انجینئرنگ (این آئی بی جی ای) قائم کیا گیا۔ یہ تمام مراکز ہماری زراعت اور لائیو اسٹاک کی پیداوار کو بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ مختلف اقسام کی 88 فصلوں کے بیج ہمارے ادارے تیار کررہے ہیں۔ 1964ء میں پی اے ای سی نے اسپارکو قائم کیا، 1976ء میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (پی آئی ای اے ایس) قائم کیا گیا۔ اس سے قبل 1967ء میں سینٹر فار نیوکلیئر سائنس کے نام سے یہ ادارہ قائم ہوا تھا۔ اپلائیڈ فزکس اور بیسک فزکس پر بہت کام ہوا۔ 1999ء میں نیشنل سینٹر آف فزکس کے نام سے اسلام آباد میں ایک سینٹر بنایا گیا۔ 2001ء میں نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن این ای ایس سی او اہم) اسلام آباد میں بنا، اس ادارے نے شاہین سیریز کے میزائل بنانے کا کام شروع کیا۔ ہمارے روایتی دشمن نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ 18 مئی 1974ء کو بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کا ٹیسٹ کیا۔ اس کے بعد ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھائیں۔ 28 مئی 1998ء میں ہم نے 7 ایٹمی دھماکے کرکے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کیا۔ یہ ہمارے سائنسدانوں، انجینئرز اور کارکنوں کی برسوں کی محنت کا پھل تھا۔ 1976ء میں ہم نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (کے آر اہل) قائم کیا۔ 2000ء میں گوادر پورٹ بنا تو وہاں پینے کا پانی نایاب تھا۔ اس مسئلے کو پی اے ای سی نے حل کیا۔ پینے کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے سی فوڈز کی برآمد میں مسئلہ ہورہا تھا۔ پاکستان نیوی نے ہم سے رابطہ کیا تو ہم نے سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کا پلانٹ لگایا۔ اس سے قبل کینپ کراچی میں ہمارا ایک پلانٹ کامیابی سے چل رہا تھا۔ اس وقت 6 ادارے ہمارے پراجیکٹ کے پانی کو استعمال کررہے ہیں۔ کینپ ہم نے کینیڈا کے تعاون سے لگایا تھا جب ہم پر پابندی لگی تو عالمی ماہرین کا خیال تھا کہ ہمارا پاور پلانٹ بند ہوجائے گا لیکن ہمارے ماہرین نے اسے کامیابی سے چلا کر یہ ثابت کردیا کہ نیوکلیئر انرجی کے شعبے میں ہم کسی ملک سے کم نہیں ہیں۔ 1980ء میں نیوکلیئر فیول کے معاملے میں ہم خودکفیل ہوگئے تھے۔ 1976ء میں ہماری ملاقات مصر کے اٹامک انرجی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سے ہوئی، انہوں نے بتایا کہ امریکہ مصر کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی دے گا، ہمارا معاہدہ ہونے والا ہے، 1982ء میں دوبارہ میری اُن سے ملاقات ہوئی تو وہی بات دہرائی کے ہمارا معاہدہ عنقریب طے ہوجائے گا لیکن ابھی تک مصر کو امریکہ نے نیوکلیئر سول ٹیکنالوجی نہیں دی، ایٹمی ٹیکنالوجی ایسا شعبہ ہے جو کوئی ملک کسی کو سجا کر پیش نہیں کرتا، آپ کو خود کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایسوسی ایشن (آئی اے ای اے) کی ٹیم کا 18 رکنی وفد چشمہ پاور پلانٹ کے معائنے کے لئے آیا، آئی اے ای اے کا وفد ہمارے ماہرین کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوا، آج کل ملک میں توانائی کا بحران ہے، پی اے ای سی توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے بھی کوشش کررہا ہے، 2020ء تک ہم نیشنل گرڈ سسٹم میں 8800 میگاواٹ بجلی دینے لگیں گے۔ اس کے علاوہ ہم 300 میگاواٹ کے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو کسی غیرملکی مدد کے بغیر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارے سائنسدان اور انجینئرز جلد یہ صلاحیت حاصل کرلیں گے۔ چین کے ماہرین کو پہلا پراجیکٹ بنانے میں 17 سال لگے تھے حالانکہ اس دوران اُن پر پابندی بھی نہیں لگی تھی۔ ہمارا ادارہ مختلف شعبوں میں کام کررہا ہے۔ اب تک جتنے پراجیکٹس پی اے ای سی کے حوالے کئے گئے انہیں ہم نے کامیابی سے مکمل کیا۔
وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
50، 70 یا 100 شخصی زندگی کے لئے طویل مدت ہوسکتی ہے لیکن قوموں کی زندگی کے لئے یہ بہت مختصر وقت ہے، قوم بننے میں اس سے زیادہ وقت لگتا ہے، ریاستی نظام کے مستحکم ہونے کے لئے 70 سال کی مدت زیادہ نہیں ہے، اس کی مثال ہم یورپ کے کئی ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔ دُنیا کی بڑی طاقت امریکہ کو بھی اس مقام پر پہنچنے کے لئے کئی صدیاں لگی ہیں، یورپ کے ممالک کئی سال تک باہم دست و گریباں رہے، مسلکی اور قومی اختلافات شدید تھے لیکن پھر انہوں نے اس لاحاصل لڑائی سے سبق حاصل کیا، اپنی توجہ سیاسی استحکام اور تعلیم کے فروغ پر مرکوز رکھی جس کے نتیجے میں ترقی حاصل کرتے چلے گئے اور آج اُن کا شمار معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط ممالک میں ہوتا ہے، اس مثال کو دینے کا قطعاً مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر نہ ڈالیں جن حالات میں ہم نے آزادی حاصل کی، اس کے بعد کچھ شعبوں میں ہم نے اہم اور نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جب ہم آزاد ہوئے تھے تو ہمارے پاس وسائل نہیں تھے، مشرقی پاکستان میں چٹاگانگ کی ایک بندرگاہ تھی، وہ بھی پوری طرح فنکشنل نہیں تھی، مشرقی پاکستان کا جوٹ کلکتہ کی بندرگاہ سے جاتا تھا جو بھارت کا حصہ تھی، پھر ہم نے چاؤلہ کی بندرگاہ کو فعال کیا، آج بھی اس سمندری راستے کا نام ذوالفقار ہے۔ مغربی پاکستان میں کراچی کی بندرگاہ تھی، پھر ہم نے 1980ء میں پورٹ قاسم کی تعمیر کی، 1954ء میں ہم نے سلطنت آف عمان سے گوادر خریدا، ہمارے کمشنر جب اس کی عملداری لینے گئے تو وہاں تک پہنچنے کے لئے سڑک بھی نہیں تھی، کچے راستے تھے، آج گوادر کی بندرگاہ بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم نے بعض نعمتوں سے استفادہ حاصل نہیں کیا، دنیا میں لوگ کلر بلائینڈ ہوتے ہیں مگر ہم سی بلائینڈ ہیں۔ اتنا بڑا سمندری رقبہ رکھنے کے باوجود اس سے استفادہ حاصل نہ کرسکے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر پاکستان نیوی نے پسنی، اورماڑہ اور جیونی کی بندرگاہ بنائی، آزادی کے وقت ہماری سمندری حدود 3 سے 4 میل طویل تھی، 1950ء میں 12 میل ہوگئی، 1957-58ء تک 50 میل تک پہنچی، یو این او کلاز ٹریٹی سے قبل یہ حد 250 میل ہوگئی تھی، آج اس خطے میں ہم واحد ملک ہیں جس کا ایسکلوسیو اکنامک زون 350 میل طویل ہے، یعنی اپنی بندرگاہ سے ہم 350 میل آگے تک کے سمندری رقبے کے مالک ہیں، ہماری پیش قدمی جاری ہے، ہمارے 2 مشن انٹارٹیکا گئے جہاں کے گلیشیئرز کو زونز میں تقسیم کرکے مختلف ملکوں کے حوالے کیا جارہا تھا لیکن پھر ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ روک دیا گیا۔ ہم ایک مضبوط بحریہ رکھتے ہیں اس لئے ہمیں اطراف کے ممالک کے مسائل پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ علاقائی مسائل کی بنا پر اپنی پالیسی ترتیب دینی ہوگی، قطر اور سعودی عرب کی مثال سامنے ہے چند ماہ قبل لگ رہا تھا کہ کشیدگی ٹکراؤ میں بدل جائے گی، دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑنے کے آثار پیدا ہوگئے تھے لیکن پھر سب نارمل ہوگیا۔ اسی طرح چین اور بھارت کا مسئلہ اٹھ گیا پھر ساؤتھ چائنا سی کا مسئلہ بھی ہے، ایسی صورتِ حال میں ہمیں ذہانت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اپنے ملک کی مشکلات کا ادراک کرنا ہوگا، کیونکہ ہمارے ملک میں سی پیک منصوبے پر کام ہورہا ہے، اس سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے اپنے نوجوانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا ہوگا، پروفیشنل افرادی قوت سے سی پیک کے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں، ہمارے نوجوان ذہین اور قابل ہیں، صرف ان کے لئے سمت کا تعین کرنا ہے۔
کموڈور (ر) سید عبیداللہ
کموڈور ریٹائرڈ سید عبیداللہ نے تقسیم کے بعد کے دلسوز واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہجرت کے وقت دریائے راوی کے کنارے جب کچھ مسلمان پناہ گزین تھے تو سکھوں نے حملہ کردیا، مسلمانوں کو اس حملے کی اطلاع پہلے ہی مل گئی تھی۔ مسلمان مردوں نے تمام خواتین کو جمع کیا اور اُن سے کہا کہ ہم ان کا راستہ روکتے ہیں جب نعرہ تکبیر کی آواز سننا تو سمجھ لینا ہم کامیاب ہوگئے اگر اس نعرے کی آواز نہ آئے تو سمجھ لینا کہ ہم شہید ہوگئے ہیں، اُس وقت اپنی عزت بچانے کے لئے آپ لوگ دریا میں کود جانا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مسلمان خواتین نے مردوں کی شہادت کے بعد عزت بچانے کی خاطر دریا راوی میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دیں، قربانی کی ایسی کئی مثالیں ہیں، ہم نے یہ ملک اتنی آسانی سے حاصل نہیں کیا، لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی ہے۔ دشمن گزشتہ 70 سال سے دشمن ہمارے خلاف سازش کرنے میں مصروف ہے جسے سمجھنا چاہئے۔ ہمیں لسانی اور مسلکی اختلافات میں الجھایا جارہا ہے، ہم پر دہشت گردی کا وبال مسلط کردیا گیا ہے، اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس جال سے نکلنے کے لئے دانشمندی کا مظاہرہ کریں، ہمارے پاس کیا نہیں ہے، وسیع و عریض رقبہ کاشت کاری کے لئے، بڑے صنعتی ادارے ہمارے ملک میں موجود ہیں، معدنی دولت کے ذخائر موجود ہیں، باصلاحیت نوجوان ہمارے پاس ہیں، ہم دنیا کی واحد خوش نصیب قوم ہیں جس کی کُل آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، اتنی بڑی افرادی قوت کے ساتھ ہم مختلف شعبوں میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں، صرف درست سمت کا تعین کرنا ہے، ہمارے پاس وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں چھپے وسائل ہماری ملکیت ہیں، جس سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے۔ آزادی کے بعد ہم نے دفاع اور دیگر شعبے میں بڑی کامیابی حاصل کی، آج ہم ایٹمی طاقت ہیں، پاکستان کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔ ہم نے کھیل کے میدانوں میں بڑا نام کمایا۔ ہاکی، کرکٹ، اسکواش، اسنوکر اور دیگر کھیلوں میں ہم نے عالمی اعزازات حاصل کئے۔ ہماری ہر چھوٹی بڑی کامیابی دشمن پر ناگوار گزرتی ہے۔ دشمن کی سازشوں کی وجہ سے مسائل ہیں مشکلات اور خدشات پر اپنے اتحاد سے قابو پائیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر طلعت اے وزارت
یہ ملک بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا، ہمارے اکابرین کی دیانت داری کی وجہ سے اس کا قیام عمل میں آیا ورنہ ہندو تو مسلمان کے کھلے دشمن تھے، انگریز بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کررہے تھے لیکن قائداعظم اور اُن کے ساتھیوں کی قیادت میں علیحدہ ملک کے حصول کی تحریک ہندوستان کے کونے کونے تک پھیل گئی، 23 مارچ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک میں جب مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی قرارداد پیش کی گئی تو پھر برصغیر کے مسلمانوں کا ایک ہی ہدف تھا اور وہ تھا پاکستان، ہم نے انگریزوں سے تو آزادی حاصل کرلی لیکن انگریز کے بنائے ہوئے نظام سے آزاد نہ ہوسکے اور اُسی نظام کو اپنے ملک میں رائج کرلیا لیکن جس طرح کا جمہوری نظام برطانیہ میں رائج ہے، ہم نے اس کی روح کو مجروح کرکے اپنے ملک میں جمہوریت کا راگ الاپنا شروع کردیا۔ یہاں صرف جمہوریت کا نام لیا گیا اُسے نافذ نہیں کیا گیا، ہم نے اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم بھی نہیں کرسکے جس کے باعث ٹکراؤ کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ گزشتہ 70 سال میں ہم نے اداروں پر تنقید کی حالانکہ کچھ ادارے ایسے ہیں جن کی مضبوطی سے ہماری سلامتی وابستہ ہے، موجودہ سیاسی صورتِ حال میں ملک میں سیاسی انقلاب لانے کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں لیکن یہی گروہ جب اقتدار میں رہتا ہے تو اُسے نہ تو عوام، نہ ہی ان کے مسائل یاد آتے ہیں، اگر ہمیں اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو پہلے ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا، ہمیں اپنے تعلیمی نظام پر غور کرنا ہوگا، پاکستان کی تحریک تعلیمی ادارے سے ہی اٹھی تھی، اس کے علاوہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا واضح رُخ متعین کرنا پڑے گا۔ خطے کی صورتِ حال کے مطابق اپنی پالیسی ترتیب دینی ہوگی، چین کے ساتھ مل کر ترقی کے سفر کو طے کرنا ہے تو اپنے ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسی میں ٹھوس تبدیلی لانا ہوگی۔
پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد
بے لوث قیادت کے باعث ہم نے ملک تو حاصل کرلیا لیکن 70 سال میں جس مقام تک لے جانا چاہئے تھا وہاں نہ لے جاسکے، ہم سیاسی نظام اور ریاست کے دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کا توازن قائم نہیں کرسکے، ہمارے ملک میں آج کل پھر سے احتساب کا شور ہے لیکن احتساب صرف عوامی لیڈروں کا نہیں بلکہ تمام اداروں کے بااختیار افراد کا بھی ہونا چاہئے۔ ایک شفاف اور منصفانہ نظام جب تک قائم نہیں کریں گے ہمیں مسائل کا سامنا رہے گا، اگر ایک گروہ کا احتساب ہوگا اور دوسرے کی غلطیوں کو نظرانداز کردیا جائے گا تو اس سے جانبداری کا تاثر پیدا ہوگا جو سیاسی استحکام کے لئے نقصان کا باعث بنے گا۔ کئی مرتبہ احتساب کا نعرہ لگایا تو گیا لیکن اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ سیاسی استحکام پر ہم نے خاص توجہ نہیں دی۔ ہم ابھی تک آئین کے آرٹیکل 62,63 پر متفق نہیں ہوسکے۔ دیگر شعبوں میں ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوری نظام کو اُس کی روح کے مطابق نافذ نہیں ہونے دیا، ہماری جمہوریت کا اصول دنیا سے مختلف ہے۔ جمہوری نظام کے نقاد کہتے ہیں کہ یہ بے وقوف لوگوں کا نظام ہے، جس میں بے وقوف لوگ اپنے اوپر بے وقوف لوگوں کو مسلط کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم کے شعبے کو بھی ہم اب تک نظرانداز کرتے آرہے ہیں۔ لیکن ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے گزشتہ 70 سال میں نیوکلیئر فیلڈ میں بڑی کامیابی حاصل کی، بھارت کی دشمنی اور امریکہ کی مخالفت کے باوجود ایٹمی صلاحیت حاصل کی جو ہمارے ماہرین کا اہم کارنامہ ہے، اگرچہ اس دوران ہمیں عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ ہماری خارجہ پالیسی پر بھی سوالیہ نشان رہا ہے، افغان روس جنگ کے دوران جو جہادی گروہ ہمارا اتحادی تھا آج وہ ہمارا اولین دشمن بن گیا ہے۔ ہماری مغربی اور مشرقی سرحدیں غیرمحفوظ ہوتی جارہی ہیں۔ ہمیں اپنے خطے کے ماحول کے مطابق پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔ اپنے پڑوس میں ایران کو دیکھ لیں جس نے ہر طرح کے بین الاقوامی دباؤ کو نظرانداز کرکے اپنے سیاسی نظام کو مستحکم کیا، ایک طرف اُس کے تعلقات بھارت سے بڑھتے جارہے ہیں تو دوسری جانب ترکی سے تاریخی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جارہا ہے۔ آج کل سی پیک کا بڑا شہرہ ہے، اس منصوبے کی زیادہ افادیت چین کے لئے ہے، وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا، ہمیں صرف خواب دکھائے جارہے ہیں، مال چین کا فروخت ہوگا، راہداری ہماری استعمال ہوگی، ہماری مقامی انڈسٹری پہلے ہی تباہ حال ہے مزید برباد ہوگی۔ ہماری معیشت کا انحصار چین پر ہوجائے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کا توازن یکطرفہ ہے۔ فری ٹریڈ کے تمام فوائد چین کو حاصل ہورہے ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز کو تاجروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے مشاورت کرکے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
(ڈاکٹر شاہدہ وزارت (آئی اوبی ایم
سیمینار کا موضوع ہے پاکستان کے 70 سال، عظمت، مشکلات و خدشات، ہمارے اکابرین نے انگریزوں کی غلامی سے نجات تو حاصل کرلی لیکن غلامانہ نظام سے ہمیں چٹکارا نہیں مل سکتا، بیورو کریسی شروع ہی سے ہمارے سیاسی نظام پر حاوی ہوگئی، جس کے منفی نتائج نکلے بدترین لوگ اوپر آگئے، قابل، ذہین اور ایماندار لوگ پیچھے رہ گئے، تعلیم کے شعبے میں بیوروکریسی کی وجہ سے آئی ایم ایف کا قبضہ ہوگیا، 1990ء سے یہ سلسلہ جڑ پکڑ گیا، یونیورسٹیز میں باہر سے فنڈز آنے لگے، غیرملکی ایجنسیوں کا اثرورسوخ بڑھنے لگا، بدعنوانی صرف سیاست میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں سرایت کر چکی ہے، آرٹیکل 62, 63 کے تحت صرف حکمرانوں کی صداقت و امانت جانچی جارہی ہے حالانکہ اس کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے میں ہونا چاہئے، ہمارے تعلیمی اداروں میں ہونے والی بدعنوانی جب منظر عام پر آئی اور تحقیقات شروع ہوئیں تو سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے اسے رُکوا دیا کیونکہ اس کے تانے بانے اُن تک بھی پہنچ رہے تھے۔ زرعی شعبے کا ذکر کریں تو ایک بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم فوڈ کرائسیز کا شکار ہیں، ہم نے منافع بخش بین الاقوامی کمپنیوں کے جھانسے میں آکر اپنی زراعت کو تباہ کرلیا ہے، یہی حال دیگر صنعتوں کا ہے جہاں غیرملکی براڈکٹس خصوصاً چین کی سستی اور غیرمعیاری اشیا نے ہماری مقامی صنعت کو تباہ کردیا ہے، اب ہم سی پیک منصوبے سے آس لگائے بیٹھے ہیں، اس کا سارا فائدہ چین کے حق میں جارہا ہے، اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو درست انداز سے استعمال نہیں کیا تو اس منصوبے کے خاطرخواہ فوائد حاصل نہیں ہوسکیں گے، چین پر ہمارا ضرورت سے زیادہ انحصار درست نہیں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سیما ناز صدیقی
پاکستان بننے کا عمل اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب 16 ویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان آئی تھی، مسلمانوں کو دُہری مشکلات تھیں، ایک طرف انگریز استحصال کررہے تھے تو دوسری جانب ہندو بھی ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی کا بدلہ لے رہے تھے، ہمارے قائدین نے ان مشکلات کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں، ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں، مذہبی و ثقافتی اور معاشرتی اعتبار سے دونوں کا رہن سہن بالکل مختلف ہے، انگریز دور میں مسلمانوں کا تعلیمی استحصال ہورہا تھا، جس کے پیش نظر علی گڑھ اور دیگر علاقوں میں علمی تحریک شروع ہوئی جو قیامِ پاکستان پر منتج ہوئی، آزادی کے بعد ہمیں جس طرح نظام وضع کرنا چاہئے تھا ہم وہ نہ کرسکے، کچھ شعبوں میں یقیناً بہتر نتائج حاصل ہوئے لیکن تعلیم کے شعبے کو ہم بہتر نہ کرسکے، ترقی کی ساری منازل تعلیم کے زینے پر چڑھ کر ہی طے کی جاسکتی ہیں، اگر اگلی نسل کو تابناک مستقبل دینا ہے تو جدید خطوط پر تعلیم کا نظام وضع کرنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر شجاعت حسین
پاکستان بہت عظیم ہے کیونکہ اسے ہمارے عظیم قائد نے بنایا قائداعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور ان کے ساتھیوں کی مخلص اور ایماندار قیادت کی وجہ سے ہمیں یہ ملک حاصل ہوا۔ ان قائدین سے قبل سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر اور دیگر اکابرین نے جس طرح ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی رہنمائی کی، اس کی بنا پر ہم نے یہ وطن حاصل کیا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کو جمہوری اور آئینی جدوجہد کے تحت بنا رہا ہوں اور اسی اصول کے تحت یہاں نظامِ سیاست رائج ہوگا لیکن ہم نے دیکھا کہ اس ملک پر جنرلز حکمرانی کرتے رہے، ہم نے قائد کے متعین کردہ اصولوں سے انحراف کیا، قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر نظام حکومت کے لئے ایک واضح روڈ میپ ہے، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی جس طرح اُس میں نشاندہی کی گئی ہے ہم نے اُس پر عمل نہیں کیا۔ قراردادِ پاکستان میں بھی اقلیتوں کے تحفظ کا ذکر تھا۔ یہ ملک دوقومی نظریے پر ضرور بنا ہے لیکن یہاں رہنے والے غیرمسلموں کا ریاست پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مسلمانوں کا ہے۔ جب تک ہم جمہوری نظام کو اس کی روح کے ساتھ نافذ نہیں کریں گے، مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے، ہماری کُل آبادی میں نوجوانوں کا تناسب 60 فیصد ہے، جو دُنیا میں سب سے زیادہ ہے، ہمارے پاس مختلف شعبوں میں ساڑھے چار کروڑ گریجویٹس ہیں جن کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ علم کے فروغ اور جدید تعلیم کے حصول کے بغیر ترقی کا سفر طے کرنا ناممکن ہے، ہمیں اس پر توجہ دینی چاہئے، آزادی کے بعد ہمیں مختلف مشکلات کا سامنا رہا، اس کے باوجود ہم نے کچھ شعبوں میں بڑی کامیابی حاصل کی، جن میں نیوکلیئر سائنس کا شعبہ سرفہرست ہے، ہم نے صنعت و زراعت کو بہتر کیا، پاکستان کھیلوں اور آلات جراحی کا سامان برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے، کھیلوں کے مقابلے میں ہم ہاکی، کرکٹ، اسکواش، اسنوکر کے عالمی چیمپئن ہماری شناخت ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ)، ارفع کریم اور شرمین عبیدچنائے ہیں، گزشتہ 70 سال میں کچھ ناکامی رہی تو کامیابیاں بھی بڑی حاصل ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر محبوب حسن مقدم
سیمینار کا موضوع ہے پاکستان کے 70 سال، عظمت، مشکلات اور خدشات، ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے کیا غلط کی اور کتنی کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں استحکام نہ ہونے کی وجہ سے سیاستدانوں کا کردار ہے، ہمارے سیاسی رہنما اقتدار حاصل کرنے کے بعد بدعنوانی کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، عوام سے کئے گئے وعدے اور منشور پر عمل نہیں کرتے، پھر جب فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو عوام اُسے مایوسی کی وجہ سے ویلکم کرتے ہیں اور سیاستدانوں کا ہی ایک گروہ فوج آمر کے آنے پر خوشیاں مناتا ہے، اس کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوجاتا ہے۔ ایوب خان نے سیاستدانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کیا لیکن اُسی دور میں پاکستان میں صنعتی ترقی ہوئی، بڑے صنعتی ادارے قائم ہوئے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، عوام کو مالی آسودگی حاصل ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے اور اپنے منہ بولے ڈیڈی کی کابینہ میں وزیرخارجہ کے منصب تک پہنچے، بعد میں انہی کے خلاف سیاسی تحریک شروع کی، ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت فوجی آمروں کے زیرسایہ پروان چڑھی، آج ملک میں سیاسی انقلاب کی باتیں کی جارہی ہیں، میاں محمد نواز شریف شاید بھول گئے ہیں کہ اُن کی سیاسی تربیت جنرل جیلانی نے کی، اُن جنرل ضیاء الحق کا دستہ شفقت رہا ہے لیکن آج انہیں جمہوری اصول یاد آرہے ہیں، ہمارے سیاستدانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو نہ انہیں عوام کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی جمہوری نظام کا، وہ صرف مال بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سے قبل پیپلزپارٹی زرداری صاحب کی قیادت میں مال بنانے میں مصروف رہی، دونوں جماعتوں نے باری لگا رکھی ہے، اب تحریک انصاف کی صورت میں سیاسی کلچر تبدیل ہونے کی اُمید پیدا ہوئی ہے، عمران خان کی شخصیت بدعنوانی کے الزامات سے پاک ہے، اس لئے لوگ ان کی طرف راغب ہورہے ہیں، اگرچہ ان کی سیاسی تنظیم ابھی تک اتنی مضبوط نہیں ہوسکی کہ وہ اقتدار حاصل کرسکیں۔ گزشتہ 70 سال میں سیاستدانوں نے عوام کو بہت مایوس کیا ہے۔ اگرچہ سیاسی میدان میں ہم ناکام رہے لیکن دیگر شعبوں میں ہمیں کچھ کامیابیاں بھی ملی ہیں، ہم دُنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتے ہیں، دفاعی اعتبار سے ہم مضبوط ملک ہے، ہم ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اسی لئے اس خطے پر ہمارا ایک دائرۂ اثر ہے، ہمارے نیوکلیئر سائنسدانوں نے دفاعی اعتبار سے ہمیں ناقابل تسخیر بنا دیا ہے، اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں ہم گندم، چاول، گنا، کپاس کی پیداوار کے اعتبار سے بڑے ممالک میں شمار کئے جاتے ہیں۔ دودھ کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا میں ہمارا تیرا نمبر ہے، اس کے علاوہ لائیو اسٹاک میں بھی ہم آگے ہین، ہمارے ملک کی توقیر و عزت سب سے زیادہ اسپورٹس کے میدان میں ہوئی جو ہمارے کھلاڑیوں کا کارنامہ ہے، ہماری ہاکی کی ٹیم نے مشکل حالات کے باوجود سارے ٹائیٹلز جیتے، اسکواش کے کورٹ میں ہم 10 سال تک ناقابل شکست رہے۔
(محمود عالم خالد (ایڈیٹر ماہنامہ فیروزاں
آزادی کے بعد 70 برس گزر گئے ہمیں اجمالی جائزہ لینا چاہئے کہ کس شعبے میں کتنی کامیابی حاصل کی اور کہاں ہم سنگین کوتاہی کے مرتکب ہوئے، میں اپنے شعبے ماحولیات کا ذکر کرتا ہوں اس وقت ہم 20 سے 22 کروڑ کے درمیان ہ یں، ہمارے پاس 4 موسم ہوا کرتے تھے، گرمی، سردی، بہار اور خزاں اب اس کا تصور نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں معمول حد تک بارش ہوا کرتی تھی، ہم نے جنگلوں اور درختوں کو کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیز اور فلیٹس بنانے شروع کردیئے، کراچی کو دیکھ لیں بلند عمارتوں کا جنگل بنتا جارہا ہے، سبزہ ختم کردیا گیا ہے، 2015ء کے ہیٹ اسٹروک کے بعد بھی ہوش نہیں آیا، ہماری غفلتوں کی وجہ سے بارش میں کمی ہوئی، نتیجتاً ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہے، آزادی کے بعد ہم نے 2 بڑے ڈیمز منگلا اور تربیلا بنائے، جو مٹی سے بھرتے جارہے ہیں، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 50 دنوں کی ہے جو درست نہیں ہے، ہم 22 دنوں تک کے پانی کا ذخیرہ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے اس حوالے سے اقدامات بھی نہیں کئے جارہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا روایتی حریف بھارت 120 دنوں تک کے پانی کا ذخیرہ رکھتا ہے اور مختلف منصوبوں کے ذریعے اسے 500 دنوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ 2030ء تک پانی کا ذخیرہ 1000 دنوں تک لے جانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ہماری مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کاشتکاری برباد ہورہی ہے۔ آج سے دو عشرے قبل جو لوگ زمینداری کرتے تھے اور کھاتے پیتے لوگ تھے، زراعت کی تباہی کی وجہ سے شہروں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، ہمیں احساس ہی نہیں ہورہا کہ قدرتی ماحول ایک نعمت ہے جسے ہر حال میں محفوظ بنانا چاہئے۔ گزشتہ 70 سالوں میں پاکستان میں بہت سے شعبوں کو نظرانداز کیا گیا لیکن سب سے زیادہ ماحولیات کے شعبے کو نظرانداز کیا گیا۔ پورے ملک میں جنگلات کو تباہ کیا گیا۔ کراچی شہر کو ہی دیکھ لیں کس طرح بلڈرز اور رئیل اسٹیٹ مافیا نے جنگلات کا صفایا کیا ہے۔ اس شہر کے کچھ علاقوں میں گھنے درخت ہوا کرتے تھے لیکن اب اُن درختوں کی جگہ بلند و بالا عمارتوں نے لے لی ہے، یہی صورتِ حال ملک کے دیگر شہروں کی ہے۔ اب تو چھوٹے چھوٹے اضلاع میں بھی معروف رئیل اسٹیٹ کنگ کی جانب سے ہاؤسنگ اسکیم شروع کردی گئی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی
مسلم لیگ پاکستان بنانے کی تحریک میں تو کامیاب رہی لیکن ملک کا نظم و نسق چلانے میں ناکام ثابت ہوئی، ابتدا سے جمہوری کلچر کو فروغ نہ دے سکی، جس کے باعث ہماری سیاست میں جمہوری انداز پنپ نہیں سکا، البتہ ہمارے معاشرے کا رویہ جمہوریہ تھا جسے بعد میں بگاڑا گیا، ہم نے آئین کی تشکیل میں 9 سال لگا دیئے، قیام سے ہی ہمیں سیکورٹی مسائل درپیش تھے، 47 سے 64 تک ہماری خارجہ پالیسی بہتر تھی، ہم امریکی بلاک میں گئے تو اس سے فیضیاب بھی ہوئے، 73 تک بھی خارجہ پالیسی کی سمت بہتر تھی، اگرچہ ہم نئے دوست بنا رہے تھے۔ جیسا کہ چین اور عرب ممالک سے تعلقات پر کام ہوا، 80 کی دہائی سے ہماری خارجہ پالیسی میں جو تبدیل آئی وہ بعد کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی، دو سپر پاور کی افغانستان میں لڑائی کے دوران ہم نے جو کچھ کیا، اس کے نتیجے میں انتہاپسندی ہمارے ہر شعبے میں پروان چڑھی، اس پالیسی کے باعث جو ڈومیسٹک کرائسز سامنے آیا اس کا ہم نے درست اندازہ نہیں لگایا اور نہ ہی تدارک کیا، غلطیوں سے قومیں سیکھتی ہیں، اب ہمارے پاس پھر موقع ہے سی پیک منصوبہ گیم چینجر اسی وقت ثابت ہوگا جب ہم اس کے تقاضوں کے مطابق پالیسی مرتب کریں گے، صرف اقتصادی راہداری میں شامل ہونے سے معاشی استحکام نہیں ملے گا، بلکہ اس کے مختلف پراجیکٹس میں ہمیں کام کرنا ہوگا، اپنے باہنر اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس کے ہر شعبے میں شامل کرنا ہوگا اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک روشن اور تابناک مستقبل ہمارا مقدر ہوگا۔ عالمی طاقتیں جنگ کروا کر اپنی معیشت کو فروغ دیتی ہیں، پہلی عالمی جنگ کے بعد کساد بازاری کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کا میدان سجایا گیا، کساد بازاری کی ایسی ہی لہر 2008ء میں آئی، جس سے امریکہ اور یورپ متاثر ہوئے، اس کے نتیجے میں عرب ممالک میں جنگی ماحول پیدا کیا گیا اور اسلحہ فروخت کرکے دولت سمیٹی گئی، امریکی فارمولا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کو لڑاؤ اور اپنی معیشت کو بڑھاؤ، چین کی پالیسی اس کے برخلاف ہے، وہ ترقی پذیر ملکوں میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کر کے اُن کے ساتھ تجارت بڑھا رہا ہے، سی پیک کا منصوبہ اس پالیسی کے تحت ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی کساد بازاری کے اثرات چین پر نہیں پڑے، ہمیں اپنے مفاد کے حصول کے مطابق پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔