پاکستان معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، عسکری و سول قیادت زراعت، صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں کو فروغ دینے کے لئے کام کررہی ہے، خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے پلیٹ فارم سے دوست عرب ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر کے ساتھ معاہدے کئے گئے، جن پر پیشرفت جاری ہے۔ گزشتہ ماہ ایگزم بینک کا افتتاح نگراں وفاقی وزیرخزانہ شمشاد اختر نے کیا جس سے چین کے ساتھ درآمدی اور برآمدی معاملات میں لین دین میں تاجروں کو آسانی ہوگی۔ چین تزویراتی لحاظ سے پاکستان کے لئے بہت اہم ہے، سی پیک منصوبوں میں تیزی پاکستان کے لئے نہایت سودمند ہے، گزشتہ چند سالوں سے سی پیک منصوبے سست کا شکار تھے، چند ماہ سے سی پیک کے جاری منصوبوں کے تعمیراتی کام میں تیزی آئی ہے، چین اور پاکستان کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے پر نظرثانی کے ثمرات آنے لگے ہیں، پاکستان سے سرخ مرچ اور پنک سالٹ سمیت مختلف اشیاء کی چین کو برآمد بڑھی ہے، جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوگا، چین سے تجارتی توازن بہت ضروری ہے، پاکستان سے چین کو برآمد کا حجم بڑھنا چاہئے، بھارت اور چین کے درمیان شدید سرحدی تنازع کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان 137 ارب ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے وسیع امکانات ہیں، اسی طرح عرب ملکوں کو بھی ہم بہت کچھ برآمد کرسکتے ہیں، حلال میٹ کی عالمی مارکیٹ 500 ارب ڈالر سالانہ ہے، جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، انڈونیشیا، براعظم افریقہ، یورپ، امریکا اور کینیڈا بڑے Bayer ہیں، پاکستان کے لئے ان ممالک کو بڑی مقدار میں حلال میٹ بھیجا جاسکتا ہے، ہمارے ملک میں لائیواسٹاک کے فروغ کے لئے ماحول بھی ہے، افرادی قوت بھی ہے، پنجاب حکومت اور متحدہ عرب امارات کے درمیان لائیواسٹاک کے چارہ سے متعلق معاہدہ بھی ہوا ہے، جس سے اس شعبے میں پاکستان کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، بحرین سمیت مختلف عرب ملکوں کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ بھارت ان ملکوں کی آئی ٹی مارکیٹس پر چھایا ہوا ہے، ہمارے نوجوان اور ماہرین انفارمیشن ٹیکنالوجی پر اچھی دسترس رکھتے ہیں، آئی ٹی کا شعبہ زرمبارلہ حاصل کرنے کا اچھا ذریعہ ہے، پاکستان اس کے ذریعے کم وقت میں بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے، اس کے ساتھ ہی ہمیں جدید ٹیکنالوجیز کی طرف جانا ہوگا، ملک بھر میں تقریباً ایک کروڑ 50 لاکھ گاڑیاں اور موٹربائیکس ہیں، جس کو چلانے کے لئے سالانہ 18 ارب ڈالر کا پیٹرول، ڈیزل اور لبریکینٹ آئل امپورٹ کیا جاتا ہے، جوکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر ایک بڑا بوجھ ہے، اس کو کم بلکہ بتدریج صفر پر لانے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے، یورپ امریکا کی مثال تو بعد میں دی جائے گی، بھارت نے الیکٹریکل وہیکلز ٹیکنالوجی کا جال بچھانا شروع کردیا ہے لیکن ہمارے ملک میں حکومت کی جانب سے ابھی تک اس جدید تبدیلی کی جانب وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی ضرورت ہے، اگرچہ گوجرانوالہ کے ایک نوجوان صنعتکار عمر اشرف مغل کا کہنا ہے کہ 2024ء میں ہمارے ملک کی 10 فیصد وہیکلز الیکٹریکل ٹیکنالوجی پر منتقل ہوسکتی ہے، اس کے بعد کے چند سالوں میں بہت تیزی سے اس پر کام ہوگا کیونکہ اس کی لاگت زیادہ آ رہی ہے، جس کو کم سے کم کرنے پر کام ہورہا ہے تاکہ عام خریدار تک اس کو رسائی ہوسکے، بہرحال موسمیاتی تبدیلی اور زرمبادلہ کی بچت کے لئے اس جدید ٹیکنالوجی کی طرف جانے کے اقدامات میں تیزی لانا ہوگی۔ 2023ء میں گاڑیوں کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے کے باعث خریداری میں 55 فیصد کمی آئی، آٹو انڈسٹری نے نئے سال سے اُمیدیں باندھ لیں ہیں جو ہائی برڈ ٹیکنالوجی کا سال ہوگا، ہمارے ملک میں تمام شعبوں میں فروغ کے مواقع موجود ہیں، صرف پالیسی کا تسلسل ضروری ہے، ملک کی تمام کاروباری اور تجارتی تنظیموں کے سربراہان اور عہدیداروں کا مطالبہ ہے کہ 15 سے 20 سال کے لئے معاشی پالیسی کو تشکیل دیا جائے اور اس پر سختی سے کاربند رہا جائے، ترجیحات کا تعین کئے بغیر معاشی گرداب سے نہیں نکلا جاسکتا، اوورسیز پاکستانی بہت مددگار ہوسکتے ہیں، اگر انہیں اعتماد دلایا جائے کہ ان کا لگایا ہوا سرمایہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس کو فروغ بھی مل رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دورۂ امریکا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب میں انہیں اعتماد دلایا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، ان کے لئے ایس آئی ایف سی کا پلیٹ فارم موجود ہے۔ آرمی چیف جنرل کا دورۂ امریکا عسکری، معاشی اور تزویراتی لحاظ سے انتہائی اہم رہا، انہوں نے امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا پرسنز سے ملاقات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو واضح کیا کہ ہم کسی علاقائی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے، پاکستان متوازن پالیسی پر گامزن رہے گا، چین سے دوستی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکا سے دوری اختیار کریں، روس سے تجارتی لین دین شروع کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی بلاک کا حصہ بن رہے ہیں، پاکستان تمام ملکوں سے دوستانہ تعلقات کا خواہش مند ہے۔ خطے کی سیکیورٹی سے متعلق آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے اقدامات عالمی قوانین، جنیوا معاہدے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہیں، مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا بھارت کا جارحانہ اقدام ہے جسے تسلیم نہیں کرسکتے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے لیکن اس کے لئے عالمی طاقتوں کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ افغانیوں کے واپس جانے سے متعلق آرمی چیف نے واضح کیا کہ ہم نے ہر مشکل گھڑی میں افغانوں کی مدد کی، انہیں پناہ دی لیکن پاکستان کو اس کے بدلے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، دہشت گردی میں اضافہ ہوا، اسمگلنگ بڑھتی گئی، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر منفی اثرات پڑے بلکہ امریکی ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ ہونے لگی، پاکستان غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کا انخلا چاہتا ہے، جسے پاکستان آنا ہے، تجارت کرنی ہے وہ قانونی دستاویزات اور ویزا کے ساتھ پاکستان آئے۔ آرمی چیف نے مشرق وسطیٰ جنگ پر بھی اصولی موقف اپنایا اور اسرائیل کی حد سے زیادہ جارحیت کو غلط قرار دیا، انہوں نے دو ریاستی حل کی طرف جانے پر زور دیا، فلسطینیوں پر اس طرح بے دریغ اور ظالمانہ بمباری کو بلاجواز قرار دیا، نہتے عام شہریوں، پناہ گزین کیمپس اور صحت کے مراکز کو نشانہ بنانے کو قابل گرفت قرار دیا۔ آرمی چیف نے امریکی وزیرخارجہ، وزیر دفاع اور سینٹ کام کے کمانڈر سے ملاقات میں بھی انہی مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور امن کے لئے خطے کے تمام ملکوں کے مثبت کردار پر گفتگو کی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں کا تذکرہ کیا اور دیرپا امن میں پاکستان کے اہم کردار کو اُجاگر کیا۔ پاکستان کی خطے میں اسٹرٹیجک اہمیت ہے، امریکی بخوبی واقف ہیں، امریکی میڈیا کے نمائندوں کو اس بات کا پرچار کرنا ہوگا، بھارتی سحر سے باہر نکلنا ہوگا، افغان مسئلہ ہو یا مقبوضہ کشمیر میں کئے جانے والے بھارتی مظالم ہوں امریکی میڈیا کو درست تصویر دکھانا ہوگی، امریکی آشیرباد کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت، کینیڈا اور امریکا تک میں دہشت گردی کررہا ہے۔ امریکی ترجمان جان کربی نے کھل کر اس پر سرکاری موقف پیش کیا، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے تو اپنی پارلیمنٹ میں اس کا اظہار کیا۔ بھارت امریکا اور کینیڈا کے شہریوں کو قتل کروا کر یہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ نسل پرست ملک ہے، جس نے سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، مودی کی اس پالیسی کو امریکی میڈیا کو کھل کر پیش کرنا ہوگا، امریکی میڈیا اب تک کشمیر میں ہونے والے مظالم پر خاموش رہا ہے، اب اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے بھارت کے خلاف آواز بلند کرے کیونکہ امریکی حکومت اور ادارے اپنے شہریوں سے متعلق بہت حساس ہیں، ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے امریکا دوسرے ملک پر حملہ بھی کرتا رہا ہے، اب بھارت کے خلاف وہ کیا کرتا ہے یہ وقت بتائے گا۔ بھارتی حکومت نے گزشتہ ہفتے نیا مطالبہ کیا کہ پاکستان جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو بھارت کے حوالے کرے کیونکہ وہ بھارت کے خلاف دہشت گردی کروانے میں ملوث رہے ہیں۔ اگر یہی اصول بھارت پر بھی اپلائی کرلیا جائے کہ محض الزامات کے تحت کسی شخص کو دوسری ریاست کے حوالے کردیا جائے تو پھر مودی کو تو پاکستان کے حوالے یا کینیڈا کے حوالے کیا جانا چاہئے کیونکہ مودی حکومت کلبھوشن یادیو کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرتی رہی ہے اور کینیڈا میں اس کے شہری پردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث رہی ہے، یہ سب تو حقیقت ہے مودی تو حافظ سعید پر صرف الزام لگا رہے ہیں جب کہ مودی خود دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں، یہ سب کچھ دُنیا کے سامنے ہے، پاکستان تو گزشتہ 22 سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اس کے فوجی ہر دوسرے تیسرے روز دہشت گردوں کا ہدف بن رہے ہیں۔