Tuesday, December 3, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستانی معیشت اور سی پیک

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ثمرات آنا شروع ہوگئے ہیں، چین نے گزشتہ 10 سال کے دوران پاکستان میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، توانائی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی جبکہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں بھی بہت کام ہوا، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں خصوصی اقتصادی زونز کا قیام شامل ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قائم ہونے والے ان اقتصادی زونز کے درمیان باہمی ربط قائم کرنے کے لئے مواصلات کے شعبے کو ترقی دینا نہایت ہی اہم ہے، گوادر سے کاشغر ریلوے ٹریک کی تعمیر اسی سلسلے کی کڑی ہے، 62 بلین ڈالر کے اس منصوبے کی تکمیل سے تجارت و معیشت کو ایک نئی سمت ملے گی، شاہراہ قراقرم کے ذریعے تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں، ساتھ ہی طورخم اور چمن کے راستے بذریعہ افغانستان تجارتی کنٹینرز ازبکستان اور آذربائیجان تک جارہے ہیں، اسی راستے سے گیس کی درآمد ہوئی۔ سی پیک منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے، چینی نائب وزیراعظم نے سی پیک کے 10 سال مکمل ہونے پر پاکستان کا تین روزہ کیا۔ ان کے ہمراہ 4 وزراء بھی شامل تھے۔ انہوں نے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے سی پیک کی منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ اس پر عمل درآمد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 68 سالہ چینی نائب وزیراعظم ہی لی فنگ گزشتہ پانچ سال سے صنعتی پالیسی سے لے کر تجارتی مذاکرات کی نگرانی کرتے رہے ہیں، وہ چین کی معیشت کے فیصلہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں، چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتی تجارت خطے میں اہمیت کی حامل ہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ امریکی دباؤ پر پاکستان چین کے ساتھ قربت میں کچھ کمی لائے گا لیکن مغربی تجزیہ کاروں کا تجزیہ غلط ثابت ہورہا ہے کیونکہ سی پیک منصوبہ خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگا، پاکستان کو حالیہ معاشی بحران میں اندازہ ہوگیا کہ کون اس کا گہرا دوست ہے اور کون سا ملک زبان پر دوستی کے راگ تو الاپتا ہے مگر دوستی کا حق نہیں نبھاتا، آئی ایم ایف نے جس انداز سے پاکستانی معیشت کو جکڑ رکھا ہے اور 3 ارب ڈالر کے پیکیج کے لئے پاکستان کو کئی ماہ تک غیریقینی کا شکار رکھا، اُس سے اندازہ ہوگیا کہ کس ملک کے پس پردہ کردار کے باعث ایسا کیا جارہا تھا، چین نے تو ناصرف مزید ڈالر پاکستانی بینک میں رکھے بلکہ چینی بینک نے 2 ارب ڈالرز سے زیادہ سرمایہ کو رول اوور کیا، ساتھ ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستانی معیشت کو سہارا دیا، دوست ممالک تو پاکستان کی مشکلات کو حل کرنا چاہتے ہیں، اب یہ حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چین کی مالی اور ٹیکنالوجی سپورٹ کی نعمت سے کس طرح بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی مالی مدد کو کس طرح کارآمد بناتے ہیں، ساتھ ہی اوورسیز پاکستانیوں کے بھیجے گئے سالانہ 35 سے 38 ارب ڈالرز کو کس شعبے میں لگاتے ہیں، چین کی مثال سامنے ہے جس نے چھوٹی، بڑی صنعتوں کے ذریعے ملک کو اُس مقام پر پہنچا دیا جہاں امریکا اور یورپ بھی اس کے محتاج ہوگئے ہیں۔ اگر منصوبہ سازی اچھی کی گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان معاشی خوشحالی اور ترقی کے اہداف کو حاصل نہ کرسکے، اگر ملک کے چاروں صوبوں میں چین کی مدد سے قائم کئے جانے والے اقتصادی زونز کی بات کریں تو کراچی سے 61 کلومیٹر کے فاصلے پر دھابیجی انڈسٹریل زون کا قیام اہم پیش رفت ہے، 1530 ایکڑ رقبے پر مشتمل اس انڈسٹریل اسٹیٹ میں صنعتوں کا لگایا جانا ملک کی اقتصادی خوشحالی کے لئے نہایت ضروری ہوگا، اس اکنامک زون کا فیز ون 750 ایکڑ اور فیز ٹو 780 ایکڑ رقبے پر ہوگا، پورٹ قاسم سے نزدیک اس اقتصادی زون میں ایسی انڈسٹری لگانا ہوگی جس سے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ خیرپور میں 140 ایکڑ رقبے کے انڈسٹریل زون پر بھی کام جاری ہے جبکہ 2021ء میں لاڑکانہ انڈسٹریل اسٹیٹ کا افتتاح ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ کیٹی بندر منصوبہ اور کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کے مزید دو اہم منصوبے ہیں جن پر پیش رفت ہورہی ہے۔ تھرکول پاور پلانٹ سی پیک منصوبے کا ایک اہم ثمر ہے جس سے 1950 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل ہوچکی ہے۔ توانائی کے مزید منصوبوں پر کام جاری ہے، ساتھ ہی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے بھی بڑی مقدار میں بجلی کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے اور نئے منصوبوں کا سنگ ِبنیاد بھی رکھا جارہا ہے۔ اب تک 6000 میگاواٹ کے منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ اس منصوبے کے ذریعے 9 اسپیشل اکنامک زونز تعمیر کئے جائیں گے جس میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ صنعتیں قائم ہوں گی۔ گوادر سی پیک کا اہم منصوبہ جس کا افتتاح 2006ء میں ہوا۔ گوادر پورٹ فعال ہوچکا ہے جو سی پیک کا ایک خاص ثمر ہے، اس کی تجارتی و اقتصادی کے ساتھ تزویراتی اہمیت بھی ہے۔ گوادر اقتصادی زون، پاک چائنا ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ سمیت بلوچستان کے 12 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے نہ صرف بلوچستان کی پسماندگی دور ہوگی بلکہ پاکستان میں خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ گوادر انڈسٹریل زون بہت اہم منصوبہ ہے، خیبرپختونخوا میں رشکئی اقتصادی زون کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے، تعمیراتی اسٹیل بنانے کے پروجیکٹس سے سالانہ 15 لاکھ ٹن سستی اسٹیل حاصل ہوسکے گی، اسی طرح پنجاب میں مختلف اقتصادی زونز کی تکمیل سے صنعتی پیداوار میں اضافہ اور برآمدات میں تیزی آئے گی۔ سی پیک کے ساتھ گرین پاکستان منصوبہ ملکی معیشت کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اگر ہم سی پیک کے منصوبوں کی افادیت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے زراعت کے شعبے کو اہمیت دینا ہوگی، اگر ٹیکسٹائل اور دیگر شعبے کی صنعتیں ان اقتصادی زونز میں لگ گئیں تو ان کو خام مال کی فراہمی کے لئے زراعت کو دیکھنا ہوگا، کپاس فراہم ہوگی تو ٹیکسٹائل کی صنعت چلے گی، اس لئے گرین پاکستان کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ تقریباً 50 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سے زراعت کے جدید تقاضوں کے مطابق پیداواری عمل شروع کیا جائے گا۔ اس پانچ سالہ منصوبے سے 40 لاکھ لوگوں کو براہ راست روزگار ملے گا۔ یہ منصوبہ زراعت کے ساتھ لائیو اسٹاک کے لئے بھی انتہائی سودمند ثابت ہوگا۔ لاکھوں ایکڑ پر کاشتکاری ہونے سے اجناس کی درآمد ختم ہوسکتی ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے سالانہ 1 ارب ڈالر کی گندم درآمد کی جاتی ہے۔ 600 ملین ڈالر کی چائے منگوائی گئی۔ 4.5 ارب ڈالر کا خوردنی تیل خریدا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اجناس میں 4 ارب ڈالر کا بھاری زرمبادلہ استعمال کیا گیا۔ اس طرح ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں سالانہ 10 ارب ڈالر کی اجناس درآمد کی گئیں۔ گرین پاکستان منصوبے سے آئندہ دو سال میں زراعت میں بہتری نظر آنا چاہئے۔ ٹیکسٹائل جو پاکستان کی برآمد کا 60 فیصد ہے، اس کا انحصار کپاس کی ملکی پیداوار پر ہوتا ہے، کپاس کی پیداوار 2017ء اور 2018ء میں تقریباً 17 ملین بیلز تھی جو گزشتہ پانچ سال میں بتدریج کم ہو کر 5 سے 6 ملین بیلز رہ گئی ہے۔ اس منصوبے سے کپاس کی پیداوار میں اضافے سے ٹیکسٹائل صنعت کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ معدنیات کا بھی ایک ذخیرہ موجود ہے، خصوصاً بلوچستان اس سے مالامال ہے، ریکوڈک کے علاوہ چاغی کے پہاڑوں میں بہت کچھ ہے، اسی طرح بلوچستان کے دیگر اضلاع کے پہاڑی دامنوں میں بھی قیمتی معدنیات موجود ہیں، وزیرمملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کے مطابق صرف معدنیاتی مٹی کی قیمت ہی 6.1 ٹریلین ڈالر ہے، جنوبی پنجاب کے پہاڑی اضلاع بھی اہم معدنیات رکھتے ہیں، خیبرپختونخوا کے اضلاع معدنیاتی دولت سے مالامال ہیں، صرف ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی ہونا چاہئے وہ چین کے پاس موجود ہے، چین کی مدد سے ہم قیمتی معدنیات کا ذخیرہ نکال کر مالی فوائد حاصل کرسکتے ہیں، معدنیات، زراعت اور برآمدات کے ذریعے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت سی پیک اور گرین پاکستان منصوبے میں باہمی ربط قائم کرے اور طے شدہ مدت میں منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنائے تو معاشی بحران سے نکلا جاسکتا ہے، قرض لے کر ملک چلانے کی روش ہمیں ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر لے آئی، اس سے نکلنے کے لئے مختلف شعبوں میں پیداواری عمل کو بڑھانا ہوگا، ساتھ ہی بے ہنگم بڑھتی آبادی کی روک تھام کے لئے بھی خصوصی مہم چلانا ہوگی، دستیاب وسائل اور آبادی میں ہم آہنگی ضروری ہے، بدقسمتی سے حکومت نے اس حوالے سے اب تک کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے ہیں، توجہ دی جائے تو اسے بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے، مواقع ہمارے سامنے ہیں، سنہرا مستقبل نظر آرہا ہے، بس نیتوں کا درست ہونا اور کام کرنے کی لگن ہونا چاہئے۔

مطلقہ خبریں