پاکستان کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے، یہ ایسی ہی صورتِ حال ہے جو 2001ء میں اٹلی کو درپیش تھی، گزشتہ سال جس کا سامنا سری لنکا کرچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے ہونے والے رابطے بالآخر مثبت نتائج لے آئے، بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے 23 ویں جائزے کے لئے 9 ماہ میں 3 ارب ڈالر دینے کا معاہدہ کرلیا، جس میں سے 1.1 ارب ڈالر رواں ماہ دے دیئے جائیں گے۔ اس معاہدے کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کم ہوئی، غیریقینی معاشی صورتِ حال میں یہ ڈیل پاکستان کے لئے اسی وقت دیرپا مثبت اثرات ڈال سکتی ہے جب اس سرمائے کو پیداواری یونٹس میں استعمال کیا جائے۔ اگر ماضی کی طرح شاہانہ اللے تللے جیسا انداز ہی برقرار رہا تو یہ بھی چند مہینوں میں ختم ہوجائے گا اور پھر آئی ایم ایف کی دہلیز پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ پاکستان کی معیشت کی کئی سطحیں ہیں جو ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچاتی رہی ہیں، ساتھ ہی چین کی مالی مدد اور عرب ملکوں کی امداد نے ہماری معیشت کو ڈوبنے سے بچایا، اربابِ اقتدار کے لئے چیلنج یہ ہے کہ اس صورتِ حال سے نکل تو گئے ہیں لیکن ایسا کیا کریں کہ آئندہ ایسی مشکل میں نہ پڑیں، پاکستان کے پاس نئی عالمی صف بندی کے ذریعے کئی مواقع ہیں، جن سے فائدہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم درست اور بروقت فیصلے کریں۔ سی پیک منصوبوں میں تیزی لا کر ہم چین سے سرمایہ کاری کی مد میں بڑی رقم حاصل کرسکتے ہیں، ماضی میں چین کی جانب سے کہا جاچکا ہے کہ ہم تو سی پیک منصوبوں میں سو کی اسپیڈ سے جانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی صلاحیت نہیں ہے، سی پیک کے منصوبوں میں چین کی جانب سے جتنی زیادہ اور جلدی سرمایہ کاری ہوگی وہ پاکستان کی معیشت کے لئے سودمند ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ روس سے جو تیل اور گیس کی تجارت کا انداز اپنایا جارہا ہے اُس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوگا، اب تک روس سے ایک لاکھ ٹن خام تیل حاصل کیا گیا ہے، جس کی ادائیگی چینی کرنسی میں کی گئی ہے۔ اسی طرح LPG کی خریداری میں یہی پالیسی اپنائی گئی، روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ ایگریمنٹ بھی بہت کارآمد رہے گا، پاکستان کا چاول روس کی مارکیٹ کا پسندیدہ آئٹم ہے، اشیاء کے بدلے اشیاء کا لین دین بھی پاکستان کو روس سے اجناس کو محفوظ کرنے کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لئے روس سے مدد لینی چاہئے۔ ہماری زرخیز اراضی گندم، چاول، گنا، کپاس اور دیگر اجناس کو بڑی مقدار میں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صرف اس کے لئے زراعت کے جدید انداز کو اپنانا ہوگا، اس میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور زرعی ماہرین کی مشاورت ضروری ہے، خاص طور پر PAEC کے سائنسدانوں کی رہنمائی ضروری ہے کیونکہ زراعت میں تقریباً 105 اجناس کے بیج اس ادارے کی جانب سے فراہم کئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ زرعی ترقی کے لئے چین کی معاونت بھی اہم ہے، چین کی زرعی تجربات کی روشنی میں پاکستان اپنی خوراک میں خودکفیل ہوسکتا ہے، ساتھ ہی جاپان سے جدید ٹیکنالوجی کا حصول اس میں بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ دورے میں بہت سے شعبوں پر گفتگو ہوئی، چند معاہدے بھی ہوئے، ماضی میں بھی جاپان ہمارے آم، کینو اور دیگر پھلوں کو تادیر محفوظ رکھنے کے لئے ٹیکنالوجی دے چکا ہے۔ اس میں مزید پیش رفت کی گنجائش ہے۔ وفاقی حکومت کی جاری کردہ بارٹر ٹریڈ پالیسی کے مطابق سرکاری و نجی تجارتی ادارے افغانستان، ایران، روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرسکیں گے لیکن اس کے لئے نجی اداروں کا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس ٹیکس اندراج ہونا ضروری ہوگا۔ بارٹر ٹریڈ کے لئے سنگل ونڈو سسٹم قائم کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان، ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ سو ارب ڈالر کی برآمدات اور دو ارب ڈالر سے زائد درآمدات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بارٹر ٹریڈ کے ذریعے پاکستان ایران سے 20 فیصد، افغانستان سے بھی 20 فیصد اور روس سے 45 سے 50 فیصد مال کے بدلے مال تجارت کرے گا، روس سے بارٹر ٹریڈ کے ذریعے گندم، دالیں، پیٹرولیم مصنوعات، نامیاتی کھاد اور ٹیکسٹائل مشینری درآمد کی جائے گی۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ گیس کے شعبے میں گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل ہوجائے اور گیس آنا شروع ہوجائے تو پاکستان میں گیس کی گھریلو اور صنعتی مانگ پوری ہوسکتی ہے، ساتھ ہی بجلی پیدا کرنے کے پاور یونٹس کو سستی گیس فراہم ہونے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔ ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کو بھی قانونی انداز دینا چاہئے، فی الحال تو اسمگلنگ ذریعہ ہے، اسمگلرز اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، اگر پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کا ایک طریقہ کار طے کرلیا جائے تو زرمبادلہ کی بچت کے ساتھ قومی خزانے کی آمدنی بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔ بارٹر ٹریڈ کے فروغ سے امریکی ڈالر پر انحصار کم ہوگا، اگرچہ دُنیا میں تیل کی تجارت کا 80 فیصد لین دین ڈالر میں ہورہا ہے۔ 95 فیصد اقتصادی لین دین میں ڈالر ذریعہ ہے، صرف پانچ فیصد تجارت بارٹر ٹریڈ کی جاتی ہے۔ چین، روس کی جانب سے بارٹر ٹریڈ کو اہمیت دینا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ڈالر کی اجارہ داری چیلنج ہورہی ہے۔ پاکستان کو خطے کی تجارتی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ بعض یورپی ممالک بھی بارٹر ٹریڈ کی طرف راغب ہورہے ہیں، جرمنی، فرانس بارٹر لین دین کے تحت تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔ افریقی ممالک بھی اس جانب متوجہ ہورہے ہیں، بارٹر ٹریڈ کا رحجان بڑھنے سے امریکی ڈالر کی اجارہ داری خطرے میں پڑ جائے گی، جس کا ردعمل بھی آسکتا ہے، پاکستان کو محتاط اندازے سے اپنی تجارت کے رُخ کو بدلنا ہوگا، زرمبادلہ کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے، اس لئے درآمدات میں بھی کمی لانا ہوگی، برآمدات کے فروغ کے لئے ہر طرح کی سہولت فراہم کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف ڈیل کے مثبت اثرات آنے لگے ہیں، ڈالر کی قیمت کم ہونے لگی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں تیزی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ظاہر کررہی ہے، اس صورتِ حال کو برقرار رکھنا حکومت کے لئے ضروری ہوگا، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رہے گا تو معاشی بھنور سے نکلا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ بجلی کی مد میں دی جانے والی 1300 ارب روپے کی سبسڈی ایک بہت بڑا بوجھ ہے، اس کے ساتھ قومی اداروں پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، اسٹیل مل کا مالی خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ ان اداروں کو مالی طور پر خودکفیل کرنے اور بحال کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے، عالمی مالیاتی ادارے ہماری ان نااہلیوں کو بھی دیکھتے ہیں۔ گزشتہ 9 ماہ پاکستانی معیشت کے لئے بہت سخت رہے ہیں، مستقبل میں ایسی صورتِ حال سے بچنے کے لئے مربوط پالیسی بنانا ہوگی۔