Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دُہری ذمہ داریاں

سمیرا انور

افسانہ
”بابا! آپ کب تک گھر آئیں گے؟ یہ عید بھی گزر گئی لیکن آپ نہیں آئے۔“ دس سالہ زرش نے روتے ہوئے فون پر اپنے باپ سے گلہ کیا۔ ”میری جان! میری شہزادی بہت جلد آپ کے پاس ہوں گا۔“ انہوں نے ہمیشہ کی طرح تسلی دی کہ وہ بھی کیا کریں مجبور ہیں دو سال پہلے ہی دبئی میں کام ملا اب بار بار چھٹی لے کر تو نہیں آسکتے تھے۔ ”دیکھو ربیعہ ہماری بیٹی کا بہت خیال رکھا کرو وہ بہت حساس ہوگئی ہے۔“ انہوں نے بیوی کو تاکید کی۔ ”آپ کو کیا معلوم چار بچوں کی کتنی ذمہ داریاں ہیں، انہیں اسکول بھیجنا اور پھر گھر کی الگ پریشانیاں۔“ وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھی کہ بچوں کی ذمہ داری، گھر کو دیکھنا، سودا سلف لانا، بجلی وگیس کے بل جمع کرانے اور رشتے داروں کے ہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں جانا، سب کچھ اسے اکیلے ہی نبٹانا تھا۔ بچے بُری طرح نظرانداز ہورہے تھے، باپ کی کمی کو بُری طرح محسوس کررہے تھے۔ زرش تو بہت چڑچڑی ہوگئی تھی۔ کسی سے زیادہ بات کرتی اور نہ ہی کھیل کود میں حصہ لیتی۔ ”میں تو شام میں روزانہ سیر کیلئے اپنے بابا کے ساتھ پارک جاتی ہوں۔“ زرش کی سہیلی نے اسے بتایا جسے سن کر زرش مزید دکھی ہوگئی اور اسے اپنے بابا بے تحاشا یاد آئے۔ جب وہ یہاں تھے تو وہ خوب مزے کرتی اور گھوما کرتی تھی۔ پردیس رہنے والوں کے بچے بہت جذباتی ہوجاتے ہیں، انہیں ہر لمحے باپ کی کمی محسوس ہوتی ہے مائیں انہیں سمجھانے لبھانے کی خاطرخواہ کوشش کرتی ہیں، لیکن ان کی زندگی میں ایک خلا رہ جاتا ہے وہ اپنے ساتھی، دوستوں اور سہیلیوں سے قصے سنتے ہیں کہ آج ان کے بابا ان کیلئے کھلونے لائے تھے اور آج وہ آئس کریم کھانے گئے تھے، تو کچھ ننھے منے دل شور مچا کر احتجاج کرکے باپ کی غیرموجودگی کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ چپ چاپ کونے میں بیٹھ کر آنسو بہاتے ہیں۔ مائیں اس صورتحال سے نبٹنا سیکھیں اور یہ قبول کریں کہ آپ کے شوہر کی مجبوری ہے کسی شہر یا ملک میں انہیں روزگار تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اس موقع پر آپ کو دُہری ذمہ داریاں نبھانا ہوتی ہیں اس لئے کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ وقت دیں۔ بچوں کے خوبصورت اور یادگار لمحات کو اچھے انداز سے منائیں اور انہیں ساتھ ساتھ سمجھائیں کہ ان کے والد ان کیلئے اتنی محنت کررہے ہیں تاکہ ان کا مستقبل محفوظ کرسکیں۔ بچوں کے اسکول میں کوشش کریں ایسا کوئی موقع خالی نہ چھوڑیں کہ جب والدین کو بلایا جائے۔ بچوں کی پوزیشن آئی ہے تو اس خوشی کو ان کے والد کی طرف سے بھی منائیے۔ اگر والد کوئی خاص طریقے سے پارٹی دیتے تھے، کہیں گھماتے پھراتے تھے، تو کوشش کیجئے کہ ان کی غیرموجودگی میں اس کمی کو پورا کرتے ہوئے بالکل وہی کیجئے۔ اگر بچوں نے یہ محسوس کیا کہ والد ہوتے تو وہ یہ کرتے یا ویسا کرتے، تو یہ امر ان کے دل میں ایک خلا پیدا کردے گا۔ اس خوشی کے موقع پر آپ کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ سراہیں ان کی خوشی کو بھرپور انداز سے منائیں اور آج کے جدید دور میں سب کچھ ایک سیکنڈ کے فاصلے پر دور ہے ان کے باپ سے ویڈیو کال پر بات کرائیں۔ ان کی طرف سے تحفہ دلائیں اور دل جوئی کریں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں، سب کے بابا شہر سے ملک سے باہر روزگار کیلئے جاتے ہیں اور وہ بالکل اداس نہ ہوں۔ پارک لے جائیں گھر میں کوئی اچھی سی پارٹی کرلیں یا کچھ بچوں کی پسند کی چیز بنا کر بچوں کو کھلائیں، اس طرح ان کا ذہن بٹے گا اور وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں لگے رہیں گے۔ نفسیاتی تقاضوں کے مطابق بچوں کو جب کسی رشتے کی کمی محسوس ہو اور گھر میں انہیں بھرپور وقت نہ ملے تو وہ چور راستے تلاش کرتے ہیں، بُری صحبت انہیں بگاڑنا شروع کردیتی ہے اور وہ اپنی تنہائی دور کرنے کیلئے غلط طریقے اختیار کرنے لگتے ہیں، اس لئے توجہ دیں کہ اگر باپ موجود نہیں ہے تو آپ پر دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے دوست احباب تک رسائی کریں کہ وہ کس طرح کے بچوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ان کے لیپ ٹاپ پر نظر رکھیں اور ایک اچھے ساتھی اور دوست کی طرح انہیں مجبور کریں کہ وہ سب باتیں آپ کو بتائیں۔ باپ کی دوری کی وجہ سے بہت سے حساس بچے اپنے آپ میں ہی سمٹے رہتے ہیں وہ خود کو بہت الگ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ماؤں کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے بچوں کو بھرپور توجہ دیں اور انہیں اپنی روٹین پر لائیں اور نفسیاتی طریقے اختیار کرتے ہوئے انہیں سمجھائیں کہ فلاں کا والد گھر پر نہیں ہے، لیکن وہ کس طرح خوشی خوشی اپنا سب کام کرتے ہیں اور زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ماں کہاں کہاں اکیلی توجہ دے اسے گھر، اس کے اخراجات، سودا سلف اور بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے لیکن بچوں کو بھی توجہ نہ ملے تو وہ مرجھا جاتے ہیں۔ ایسا نہ کریں کہ بچے اگر والد کو یاد کرکے افسردہ ہوں تو الٹا آپ انہیں ڈانٹ پلا دیں۔ یہ ایسے مواقع ہوتے ہیں جب بچے اپنے قریبی رشتوں کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔ نہ تو خود انہیں ڈانٹیں اور نہ دوسروں سے ڈانٹ ڈپٹ کرائیں بلکہ انہیں پیار سے سمجھائیں اور باپ کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جو مٹھاس ماں کے لہجے اور آغوش میں ہوتی ہے وہ اور کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل