پاکستان میں بڑھتا معاشی بحران سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جارہا ہے، عام آدمی کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ درست بھی ہے لیکن اس سے بڑا مسئلہ پولرائزیشن ہے جو اداروں سے لے کر عوام تک واضح نظر آ رہا ہے، پاکستان دشمن یہ جانتے ہیں کہ انہیں اپنے مذموم مقاصد میں اُسی وقت کامیابی ہوسکتی ہے جب قوم کے اتحاد میں دراڑ ڈالیں اور انہیں اداروں کے سامنے لاکھڑا کریں، یہ منظرنامہ بن رہا ہے موجودہ سیاسی صورتِ حال میں قوم واضح طور پر تقسیم نظر آ رہی ہے، ادارے بھی ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ہونا جمہوریت کا حُسن ہوتا ہے لیکن گزشتہ پانچ سال سے یہ اختلاف دشمنی میں بدل چکا ہے، ایسے میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کی ذمہ داری ہے کہ معاملات کو مل بیٹھ کر حل کریں، جلتی پر تیل ڈالنے کا کام نہ ہو۔ ماضی میں جب بھی سیاسی مخاصمت انتہا پر پہنچی ہے تو اسٹیبلشمنٹ نے صلح کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر اس وقت صورتِ حال بالکل تبدیل ہے، اسٹیبلشمنٹ براہ راست دونوں فریقین کا تختہ مشق بنی ہوئی ہے، ایک کو عسکری قیادت سے شکوہ ہے تو دوسرے کو عدلیہ کے فیصلوں اور عدالتی طریقہ کار سے بیزاری ہے، ماضی میں اپوزیشن کے احتجاج پر حکومتیں فکرمند ہوتی تھیں اور تیسرے فریقی کو معاملات طے کرنے کے لئے استعمال کرتی تھیں مگر موجودہ صورتِ حال میں یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا،سیاسی تقسیم کے باعث عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات طے کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے،آئی ایم ایف نے پاکستان پر بھرپور دباؤ ڈال رکھا ہے، دوست ممالک بھی کھل کر مدد کا اعلان کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں،اس کے پس پردہ بھی عالمی قوت لگتی ہے، پاکستان کو افغان جنگ میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دے کر بدلہ لینے کی کوشش ہورہی ہے، سیاسی تقسیم اور معاشی بحران ایٹم بم کے حملے کی تباہی سے زیادہ ہلاکت خیز ہوسکتے ہیں، دشمن کی کوشش ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی کروائی جائے، حکومت یا اپوزیشن کی ایک غلطی خانہ جنگی کروانے کا سبب بن سکتی ہے، پاکستان کو چومکھی لڑائی کا سامنا ہے،ایک جانب سیاسی،معاشی اور ادارتی تناؤ کے مسائل ہیں تو دوسری طرف ہارپ ٹیکنالوجی کا تختہ مشق بھی بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال طوفانی بارش و سیلاب آیا تو گزشتہ ماہ میں ملک کے تقریباً 80 فیصد علاقے میں زلزلے کے جھٹکے آئے جس سے جانی و مالی نقصان ہوا، اگر دشمن نے ہارپ کے ذریعے کراچی اور دیگر بڑے شہروں کو ہدف بنایا تو تاریخی تباہی آئے گی، جیسا کہ 2005ء میں ایبٹ آباد زلزلہ میں آئی تھی، پھر مشرقی سرحد پر روایتی دشمنی کی چھیڑچھاڑ جاری ہے لیکن تشویشناک تناؤ مغربی سرحد پر ہے، جہاں افغانستان کی طالبان حکومت کے آنے کے بعد بھی دراندازی اور سرحد پر حملے جاری ہیں بلکہ اس میں شدت آگئی ہے، ساتھ ہی دہشت گردی کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں، خصوصاً خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس پر حملے ہورہے ہیں۔ اس سارے منظرنامے کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ سب کچھ اسکرپٹڈ ہے، طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے یا تقسیم کرنے پر کام ہورہا ہے، بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کی فعالیت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،بلوچ بھائیوں میں احساس محرومی کی فکر کو پروان چڑھانے پر کام ہورہا ہے، پاکستان کے خلاف مختلف محاذ کھول دیئے گئے ہیں، خطے میں بالادستی کی جنگ کا میدان پاکستان کو بنایا جارہا ہے، اب یہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ملک کو اس گرداب سے کیسے نکالتی ہے،اگر ہمارے قائدین مسائل کے حل کے لئے ایک ساتھ بیٹھ جاتے ہیں تو دشمن کی ناکامی یقینی ہے، اس کے برعکس ہوتا ہے تو خدانخواستہ ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے،سیاسی و عسکری قیادت کو تناؤ کم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے جس میں پہلا کام انتخابات سے متعلق کسی ایک تاریخ پر متفق ہونا ہے اور افغان حکومت سے گفت و شنید کے ذریعے معاملات طے کرنا ہے جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی کے مسائل پر توجہ دینا ہے، دشمن کے منفی پروپیگنڈے کا سدباب کرنا ہے، عالمی مالیاتی اداروں سے بیل آؤٹ پیکیج کا حصول ہے، یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان اس وقت اسٹرٹیجک اٹیک کا سامنا کررہا ہے، قوم متحد اور قیادت دور اندیش رہی تو کامیابی یقینی ہے۔