رہا ہی آج میں کتنا ہوں جسم و جان کے ساتھ
چلا گیا ہوں زیادہ تو رفتگان کے ساتھ
یہ اس جہان کو ایسے تو کھینچتا نہیں میں
ملا رہا ہوں اسے دوسرے جہان کے ساتھ
ہماری بات بھی سننے سے کیوں گریز میاں
ہمارے لفظ چپکتے نہیں ہیں کان کے ساتھ
میں مانتا ہوں کہ بھر دے گا وقت تیر کا زخم
مگر جو زخم لگایا گیا زبان کے ساتھ
تمام عمر بھری قسط پارسائی کی
مکان کب ملا سستے میں لامکان کے ساتھ
تمہارے ہجر کا حل مل نہیں سکا پھر بھی
ہزار گرچہ تعلق تھے آسمان کے ساتھ
عزم الحسنین عزمی