Monday, June 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے
رونما ہوتے ہیں اثرات سبب سے پہلے

سب سے اونچا تھا زمانے میں تخیل میرا
حادثے مجھ پہ گرا کرتے تھے سب سے پہلے

ایک دوجے سے نمو پاتی ہیں ساری چیزیں
پیاس کا نام کہاں ہوتا تھا لب سے پہلے

وہ جو دن رات کی ترتیب لگاتا ہے ابھی
جانے کیا کرتا تھا اس کارِ عجب سے پہلے

شعر نے حسن کی ترویج کا سامان کیا
رائگاں جاتی تھی ہر چیز ادب سے پہلے

صبح کا بھولا ہوا آ تو گیا ہے واپس
مسئلہ یہ ہے کہ آیا نہیں شب سے پہلے

ہم کہاں عشق کی معراج کو جا پائیں گے
وہ ہمیں چھوڑنے والا ہے رجب سے پہلے

اس طرح دنیا کی ترتیب الٹ سکتی ہے
کیوں میسر ہوئے جاتے ہو طلب سے پہلے

آج کچھ اور ہی مقصد ہے چراغوں کا عقیلؔ
روشنی اتنی کہاں ہوتی تھی اب سے پہلے


عقیل عباس چختائی


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل