چمن میں جب بھی بناتا ہوں آشیانہ کوئی
تراش لیتی ہے، برق تپاں، بہانہ کوئی
کہیں قرار میسر، نہ اک ٹھکانہ کوئی
مری مثال، جیا کب، قلندرانہ کوئی
شریک درد رہے، زندگی میں بیگانے
ہوا نہ مونس غم، بھول کے یگانہ کوئی
کسی میں پیار کی خوشبو، نہ اعتبار کا رنگ
گلے ملے تو ملے کس سے فی زمانہ کوئی
قدم قدم پہ تمنا کے اس گلستاں میں
نہاں ہیں دام، نہ کھائے فریب دانہ کوئی
یہ مشورہ ہے خرد کا کہ اُنگلیاں گن لو
ملائے ہاتھ اگر ہنس کے دوستانہ کوئی
ضیاع وقت ہے کو دن کو درسِ دانائی
زمین شور میں سنبل اُگا سکا نہ کوئی
جو بے ضمیر ہیں ان کے لئے نصیحت کیا
خلاف عقل ہے مردے کو تازیانہ کوئی
کہاں کی ناصیہ سائی، کہاں کی دَر کوبی
جھکا سکا نہ مرے سر کو آشیانہ کوئی
عطا ہوئی ہے مجھے دولت اَنا کاوشؔ
کہاں ہے اس سے بڑا دَہر میں خزانہ کوئی
کاوشؔ عمر