مشتاق احمد یوسفی
تاریخ کا سفّاک ترین انسان ہلاکو خان، جو بغداد پر خدا کا قہر بن کر نازل ہوا۔ دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد، الف لیلہ کی شہرزاد کا شہر، خلیفہ ہارون الرشید اور مامون کے قائم کردہ دارالترجمہ کا شہر تھا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا بطور معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یہ دلکشا مسجدوں، وسیع کتب خانوں، عالیشان محلات، سرسبز باغات، پُررونق بازاروں، علم افروز مدرسوں اور پُرتعیّش حماموں کا شہر تھا۔ بغداد کی بنیاد ابوجعفر بن المنصور نے 762ء کو بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دُنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہوگئی۔ ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بغداد شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہوگیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔
تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کی تحقیق کے مطابق 775ء سے لے کر 932ء تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دُنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے دس لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دُنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انسانی تاریخ میں بغداد کے علاوہ دُنیا کا اور کوئی شہر نہیں ہے جو بیک وقت آبادی اور ترقی میں مسلسل ڈیڑھ سو سال تک سب سے اوّل شہر رہا ہو۔ بغداد کے بعد بھی آج تک یہ اعزاز کسی اور شہر کو نہیں مل سکا۔
دارالترجمہ بیت الحکمہ میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ ہونے لگیں۔ یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور انہوں نے یورپ کی نشاۃ الثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ الجبرا، ایلگوردم، الکیمی، زینتھ، الکوحل وغیرہ جیسے درجنوں الفاظ بغداد کے اسی سنہرے دور کی دین ہیں۔
بغداد میں بسنے والی چند مشہور ہستیوں کے نام بھی دیکھ لیجیے: جابر بن حیان (جدید کیمسٹری کا بانی)، الخوارزمی (الجبرا کا بانی)، الکندی اور الرازی (مشہور فلسفی)، الغزالی (مشہور مفکر)، ابونواس (عظیم عربی شاعر)، شیخ سعدی (عظیم فارسی شاعر)، زریاب (مشہور موسیقار)، طبری (مشہور تاریخ دان)، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابویوسف۔ یہ سب بغداد کے ماتھے کا جھومر تھے۔
اور پھر بغداد پر تباہی نازل ہوگئی۔ ہلاکو خان نے 29 جنوری 1257ء کو بغداد کے محاصرے کا آغاز کیا، حملے سے پہلے اس نے 37 ویں خلیفہ مستعصم باللہ کو لکھا: ”لوہے کے سوئے کو مکہ مارنے کی کوشش نہ کرو۔ سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو۔ بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو، اس کی خندقیں پاٹ دو، حکومت چھوڑ دو اور ہمارے پاس آجاؤ، اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو تمہیں گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی نہ بلند ترین آسمان میں۔“
خلیفہ نے ہلاکو کو جواب میں لکھا: ”نوجوان، دس دن کی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھنے لگے ہو۔ جان لو کہ مشرق تا مغرب خدا کے ماننے والے اہلِ ایمان میری رعایا ہیں۔ سلامتی سے لوٹ جاؤ۔“
ہلاکو خان کو اپنے منگول سپاہیوں کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد تھا۔ وہ پچھلے چار عشروں کے دوران اپنے آبائی وطن منگولیا سے نکل کر چار ہزار میل دور تک آ پہنچے تھے اور اس دوران معلوم دنیا کے بڑے حصے کو اپنا مطیع بنا چکے تھے۔ بغداد پر حملے کی تیاریوں کے دوران نہ صرف ہلاکو خان کے بھائی منگوقآن نے تازہ دم دستے بھجوائے تھے بلکہ آرمینیا اور جارجیا سے خاصی تعداد میں مسیحی فوجی بھی آن ملے تھے جو مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میں یورپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھے۔ یہی نہیں، منگول فوج تکنیکی لحاظ سے بھی کہیں زیادہ برتر اور جدید ٹیکنالوجی سے بہرہ ور تھی۔ منگول فوج میں چینی انجنیئروں کا یونٹ تھا جو منجنیقوں کی تیاری اور باردو کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ بغداد کے شہری آتش گیر مادے نفتا سے واقف تھے، جسے تیروں سے باندھ کر پھینکا جاتا تھا، لیکن بارود سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ اس زمانے کا بارود آہستگی سے جلتا تھا، منگولوں نے اس میں یہ جدت پیدا کی اسے لوہے یا پکائی گئی مٹی کی ٹیوبوں میں رکھ دیتے تھے جس سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ منگولوں نے دھویں کے بم بنانے میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی۔ ان کی منجنیقوں نے شہر پر آتشی بارش برسانا شروع کردی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑنا شروع کردیا۔ بغداد کے باسیوں نے یہ آفت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ابھی محاصرے کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے ہلاکو خان کو بھاری تاوان ادا کرنے اور اپنی سلطنت میں جمعے کے خطبے میں اس کا نام پڑھنے کی شرط پر صلح کی پیشکش کی، لیکن ہلاکو کو فتح سامنے نظر آ رہی تھی، اس نے یہ پیشکش فوراً ہی ٹھکرا دی۔ منگول افواج نے پچھلے 13 دن سے بغداد کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ جب مزاحمت کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو 10 فروری 1258ء کو فصیل کے دروازے کھل گئے۔ 37 ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ اپنے وزراء اور امراء کے ہمراہ مرکزی دروازے سے برآمد ہوئے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ منگول مذہب میں کسی بادشاہ کا زمین پر خون بہانا بدشگونی سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے ہلاکو شروع میں خلیفہ کو یہ باور کرواتا رہا جیسے وہ بغداد میں اس کا مہمان بن کر آیا ہے۔ خلیفہ کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم زیادہ قرینِ قیاس ہلاکو کے وزیر نصیر الدین طوسی کا بیان ہے جو اس موقع پر موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا: ”کھاؤ۔“ مستعصم باللہ نے کہا: ”ہیرے کیسے کھاؤں؟“ ہلاکو نے جواب دیا: ”اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لئے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔“ عباسی خلیفہ نے جواب دیا: ”خدا کی یہی مرضی تھی۔“ ہلاکو نے کہا:”اچھا، تو اب میں جو تمہارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔“
اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیئے تاکہ زمین پر خون نہ بہے۔ ہلاکو نے وہی کیا جو اس کے دادا چنگیز خان پچھلی نصف صدی سے کرتے چلے آئے تھے۔ اس نے خلیفہ کے علاوہ تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہوگئے۔ اس کے اگلے چند دن تک جو ہوا اس کا کچھ اندازہ مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے:
”وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیئے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔ اس بات کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ 2 لاکھ سے لے کر 10 لاکھ لوگ تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفّن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسی دوران جب عظیم الشان شاہی محل کو آگ لگائی گئی تو اس میں استعمال ہونے والے آبنوس اور صندل کی قیمتی لکڑی کی خوشبو آس پاس کے علاقے کی فضاؤں میں پھیلی بدبو میں مدغم ہوگئی ہو گی۔
کچھ اسی طرح کا ادغام دجلہ میں بھی دیکھنے میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اساطیری دریا کا مٹیالا پانی پہلے چند دن سرخ بہتا رہا اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ سرخی کی وجہ وہ خون تھا جو گلیوں سے بہہ بہہ کر دریا میں شامل ہوتا رہا اور سیاہی اس وجہ سے کہ شہر کے سینکڑوں کتب خانوں میں محفوظ نادر نسخے دریا میں پھینک دیئے گئے تھے اور ان کی سیاہی نے گھل گھل کر دریا کی سرخی کو ماند کردیا۔
فارسی کے عظیم شاعر شیخ سعدی خاصا عرصہ بغداد میں رہے تھے اور انہوں نے یہیں کے مدرسۃ نظامیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے سقوطِ بغداد کا یادگار نوحہ لکھا جس کا ایک ایک شعر دل کو دہلا دیتا ہے۔
آج سے ٹھیک 765 برس قبل بغداد پر چلنے والی اس ناگہانی منگول آندھی نے میسوپوٹیمیا کی ہزاروں سالہ تہذیب کے قدم ایسے اکھاڑے کہ وہ آج تک سنبھل نہیں پائی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد سے آج تک کوئی مسلم شہر بغداد کی شان و شوکت کے عشرِ عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکا۔
بعض ماہرین نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب صرف اسی وجہ سے پھل پھول سکی کہ منگولوں نے اس وقت کی برتر مسلم تہذیب کو تباہ کر کے مغرب کے لئے راستہ ہموار کردیا تھا۔