موجودہ دور میں ٹیلی ویژن عام افراد کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاسکتا ہے اور اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں کے علاوہ اور کس کی ہوسکتی ہے جس میں معاشرے کے مختلف رنگوں کی کہانیاں لوگوں کو اپنے سامنے باندھے رکھتی ہیں آج کل جو ڈرامہ پیش کیا جارہا ہے وہ ماضی کے ڈرامے سے صدیوں دور ہے، وہ رشتوں کو نبھانے کا ڈرامہ تھا اور آج کا ڈرامہ رشتوں کو توڑنے اور ان کو احترام آدمیت سے بہت دور لے گیا ہے
منزہ انوار
تاریخ کے حوالوں میں اتریں تو یہ کریڈٹ پی ٹی وی کو جاتا ہے جس نے پاکستان کے ڈرامے کو نہ صرف زندگی دی بلکہ وہ ڈرامہ ہماری تہذیب و ثقافت اور فنوں لطیفہ میں ایک انمول تاریخ نقش کرکے پاک دھرتی کے کرداروں کو امر بنا گیا۔ آج کا جو ڈرامہ پیش کیا جارہا ہے وہ ماضی کے ڈرامے سے صدیوں دور ہے، وہ رشتوں کو نبھانے کا ڈرامہ تھا اور آج کا ڈرامہ رشتوں کو توڑنے اور ان کو احترام آدمیت سے بہت دور لے گیا ہے۔ موجودہ دور میں ٹیلی وژن عام افراد کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاسکتا ہے اور اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں کے علاوہ اور کس کی ہوسکتی ہے جس میں معاشرے کے مختلف رنگوں کی کہانیاں لوگوں کو اپنے سامنے باندھے رکھتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں پچھلے تین چار سال میں طلاق، حلالہ، ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے معاشرتی مسائل پر بننے والے ڈرامے کافی مقبول رہے ہیں۔ اس کی مثالیں اُڈاری، مقابل، کتنی گرہیں باقی ہیں اور چپ رہو جیسے ڈرامے ہیں جن پر پیمرا کی جانب سے پابندیاں بھی لگیں لیکن عوام نے انہیں بے حد پسند کیا۔ تاہم یہ کہنا بھی درست ہے کہ کسی حد تک پاکستانی ڈراموں میں بہت ساری چیزیں ایسی دکھاتے ہیں جو ہماری سوسائٹی میں نہیں ہو رہیں مثلاً خاندانی سیاست اور گھریلو جھگڑے۔ یہاں ہوتے ہیں لیکن اتنے زیادہ نہیں یہ سب انڈین ڈراموں سے لیا گیا ہے۔
کیا پاکستانی ڈرامے اس قابل نہیں رہے کہ انہیں اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکے؟ یہ سوال پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے کچھ عرصہ قبل تمام ٹی وی چینلز کو متنازع اور غیراخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کی نشریات کو فوراً روکنے کے لئے جاری کی گئی تنبیہ کے بعد پیدا ہوا۔ پیمرا کی جانب سے مقامی انٹرٹینمنٹ ٹیلی وژن چینلز کو جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ متنازع اور غیراخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کی عکس بندی معمول بن گیا ہے اور نامناسب لباس و حرکات بھی آج کل کے ڈراموں کا خاصہ بن چکی ہیں جو ناظرین کے لئے ذہنی اذیت اور کوفت کا سبب ہے۔ پیمرا نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ ڈراموں میں عورت کو جس انداز میں دکھایا جا رہا ہے ناظرین کی کثیر تعداد اس پر شدید تنقید کر رہی ہے۔ نوٹس میں تمام ٹی وی چینلز کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ ڈراموں میں ایسے موضوعات پیش کریں جو پاکستانی معاشرے کی حقیقی عکاسی کریں اور اسلامی، سماجی اور معاشرتی اُصولوں کے ہم آہنگ ہوں۔ ڈراموں کے ذریعے بے راہ روی اور بُرائیوں کو اُجاگر کرنے سے گریز کریں۔ حساس موضوعات جیسے کہ طلاق اور حلالہ سے متعلق مواد پیش کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
معروف ڈرامہ نگار اور مصنف خلیل الرحمن قمر کا اس بارے کہنا ہے کہ قلم کار کے کام میں کبھی مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو یہ جرأت نہیں کرنی چاہئے کہ وہ ٹیلی ویژن یا فلم کے مزاج کو اپنے تئیں بدلنے کی کوشش کرے۔ لکھنے اور بنانے پر کوئی حد بندی نہیں ہونی چاہئے، یہ آزادی ملک کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ڈرامے میں بھی وہی لباس ہے جو لوگ عام طور پر پہنتے ہیں۔ اگر باقی سارے کام جدید دُنیا کے حساب سے کر رہے ہیں تو ڈرامے کو دقیانوسی دور میں کیوں رکھنا ہے؟ پیمرا کو ڈرامے غیراخلاقی نہیں لگتے، انہیں عورت کا وجود غیراخلاقی لگتا ہے، ان کو ڈرامے سے کوئی مسئلہ نہیں ان کو عورت سے مسئلہ ہے۔ پیمرا کے لئے بنیادی طور پر عورت ایک فحش شے ہے جس پر وہ پابندی لگانا چاہتے ہیں جیسا کہ زیادہ تر ٹیلی ویژن ڈرامے خاندانی مسائل پر بنتے ہیں جن میں مرکزی کردار عورت ہی ہوتی ہے چاہے وہ بیوی، ماں یا ساس کے روپ میں ہو، تو ان کو اس کی عکس بندی سے مسئلہ ہے کہ یہ عورت جو اسکرین پر نظر آ رہی ہے تو کیوں نظر آرہی ہے۔ جہاں تک طلاق اور حلالہ کے موضوع ہیں تو ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں پہلے کتنی طلاقیں ہوتی تھیں اور آج کل کتنی ہو رہی ہیں۔ اب اگر ایک چیز معاشرے میں ہو رہی ہے تو وہ کہانی اور ڈرامہ میں ہی آئے گی۔
ڈرامہ پروڈیوسرز کے مطابق نوٹس سے تو لگتا ہے پیمرا والے ضیاء دور کے قوانین سے متاثر ہیں جن میں عورتیں سر ڈھکے بغیر نہیں دکھائی جا سکتی تھیں اور ان کے جینز پہننے پر پابندی تھی۔ سیٹلائٹ چینلز پہ ایسی چیزیں آتی ہیں جو آپ گھر کی خواتین کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے، اس کے باوجود شہروں سے زیادہ دیہات میں سیٹلائٹ چینل دیکھے جاتے ہیں۔ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی خاتون پروگرام مینیجر کے مطابق چونکہ یہ ایڈوائزری جاری کردی گئی ہے تو اب اگر اس کے بعد کوئی ایسا مواد یا ڈرامہ نشر کیا جاتا ہے جو کسی صارف کے نزدیک اس نوٹس میں دی گئی ہدایات کے منافی ہے تو اس کی بنیاد پر شکایت درج کروا کے پیمرا کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اس چینل کو سزا، جرمانہ یا بندش لگ سکتی ہے۔ تاہم ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بعض چینلز اور اینکرز پر پیمرا کی جانب سے پابندیاں لگیں تو وہ پیمرا کے خلاف عدالت سے حکمِ امتناعی لے آئے اور ان کے پروگرام اس کے بعد بھی جاری رہے۔ پیمرا کے پاس اتنے قابل اور تخلیقی لوگ نہیں ہیں جو فیصلہ کرسکیں کہ کس کو کیا بنانا چاہئے۔ یہ کام پیمرا کا نہیں ہے اس کے لئے ٹیلی ویژن اور فلم کے لوگوں پر مشتمل ایک خودمختار ادارہ ہونا چاہئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستانی ثقافت ہے کیا اور پیمرا جیسے ادارے، سیاستدان یا بیوروکریٹس کون ہوتے ہیں جو ہمارے لئے قابلِ قبول ثقافت کی تشریح کریں؟
یاد رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ایک بار پھر پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری، خصوصاً ڈراموں کو معاشرے کے مروجہ اخلاقی دائرے میں لانے کے لئے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ اس ہدایت نامے کے مطابق پاکستانی ٹی وی چینلز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ڈراموں میں نامناسب لباس، شادی شدہ افراد کا کسی اور سے عشق، جیسے موضوعات کو دکھانے، حتیٰ کہ میاں بیوی کے ایک دوسرے کو پیار سے چھونے، گلے لگانے، بستر کے مناظر اور محبت بھرے لمحات کو دکھانے سے اجتناب کریں۔ پیمرا کے مطابق اس کا یہ قدم ان سینکڑوں شکایات کا نتیجہ ہے جو سابق وزیراعظم عمران خان کے سٹیزن پورٹل پر درج کی گئی ہیں یا پیمرا کے اپنے شکایات سیل اور سوشل میڈیا سے وصول ہوئی ہیں۔ تاہم شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے اداکاروں کا اور ڈرامہ رائٹرز کا کہنا ہے کہ شاید سوشل میڈیا پر ٹرول کرنے والے چند افراد کی وجہ سے پیمرا کو یہ خیال آیا ہے، اور سوال یہ ہے کہ یہ ہمیں کس جانب لے کر جانا چاہ رہے ہیں، یہ حکومت کی پالیسی ہے یا پیمرا کا اپنا کام ہے، مگر اس قدم سے ٹی وی ڈراموں میں گھٹن کا احساس مزید بڑھے گا۔ اُن کے مطابق پاکستانیوں کے پاس انٹرٹینمنٹ کے نام پر ایک ڈرامہ ہی بچا ہے اب اس کو بھی تباہ کرنے کے درپے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں 80 کی دہائی میں واپس لے جایا جارہا ہے جبکہ کسی بھی صحت مند معاشرے میں پابندیاں عائد کرنا اچھی بات نہیں ہے۔
اگر محبت اور پیار کی زبان برداشت نہیں ہوتی تو اصل مسئلہ سوچ کا ہے اور اسی سوچ کے تحت پھر پیمرا اس قسم کے نوٹس جاری کرتا ہے۔ ڈرامہ پروڈیوسرز کا کہنا ہے کہ ہمارے ڈرامے تو پہلے ہی کئی قسم کے سینسر سے گزرتے ہیں اور کسی بھی قسم کا بیہودہ اور جنسی مواد تو دکھایا ہی نہیں جاتا، اور پھر پاکستانی اداکارائیں بھی بہت قربت کے مناظر عکس بند کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتیں، تو ایسے میں اس نوٹس کی ضرورت ہی کیا تھی۔