خرد کا سود و زیاں دل کے ضابطے میں نہیں
جو عشق ہے وہ خرد کے کتابچے میں نہیں
زمیں نہ تیری رہی ہے نہ تُو زمیں کا کبھی
پر آسمان سے بھی اب تُو رابطے میں نہیں
کہیں پہ ساتھ ہیں دونوں کہیں مقابل ہیں
کہ شرق و غرب کی تہذیب فاصلے میں نہیں
ہر اک ڈگر کی طرف مڑ گئے ہیں بٹ کر سب
کہ راہرو تو ہیں، رہبر ہی قافلے میں نہیں
کوئی خطا ہے ترے جذبِ عشق میں سالک
مزاجِ ضربِ قلندر جو حوصلے میں نہیں
جوان نسل کہوں یا کہ کاہلوں کا ہجوم
عقابی کھیل کوئی اس کے مشغلے میں نہیں
تُو ہارتے ہوئے کہنے لگا تھا اس کو فہدؔ
زیاں میں، میں بھی نہیں، تُو بھی فائدے
————————-
سردار فہدؔ