محمد نذیر
ڈاکٹر شاداب احسانی کثیرالجہت ادبی شخصیت کے مالک ہیں، ان کی علمی، تاریخی، سماجی، ثقافتی، ادب و شاعری کی خداداد صلاحیتوں کا تمام حلقہئ علمِ وادب معترف ہے۔ کوئی انہیں ماہر لسانیات کہتا ہے تو کوئی مستند شاعر، تو کوئی علمِ عروض کے ماہر، تو کوئی انہیں معروف استاد، تو کوئی زبان وادب کا ماہر، تو کوئی نابغہ روزگار ادیب، تو کوئی مورخ و معروف نقاد مانتے ہیں۔ اب تو سبھی کی زبان پر ایک ہی آواز ہے وہ ہے شاداب احسانی کا ”پاکستانی بیانیہ“
آپ کا اصل نام ڈاکٹرذوالقرنین احمد جبکہ قلمی نام شاداب احسانی ہے اور آپ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا کے معروف علمی وادبی مراکز میں اسی نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ آپ 1995ء میں جامعہ کراچی شعبہ اُردو میں بطور لیکچرار تعینات ہوئے اور آپ نے تنشگان علم کو علم جیسی نعمت سے فیضاب کرنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ مطالعے کا سلسلہ جاری رکھا، 2004ء میں اسی جامعہ سے ”قصہ عشق افزا نسخہ علی گڑھ کون فراسو“ کے موضوع پر پی ایچ ڈی مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ لیکچرار کے عہدے سے درجہ بدرجہ ترقی کرتے گئے اور 2011ء میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ پروفیسر بننے کے دو تین سال بعد 2013ء میں آپ شعبہ اُردو جامعہ کراچی میں صدر شعبہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اور اسی دوران شعبہ اردو سے تحقیقی ”رسالہ امتزاج“ کا اجرا کیا اور کئی سال تک آپ خود اس رسالے کے مدیر بھی رہے، یہ رسالہ ایچ ای سی کے وائی کٹیگری جرنل میں شامل ہے۔ صدر شعبہ اردو کے وقت آپ کا ایک اور بہت بڑا کارنامہ بی اے اور بی کام میں اردو بطور لازمی مضمون دوبارہ شامل کرنے میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے بی کام سے اردو مضمون ختم کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر شاداب احسانی صاحب نے ایک طویل عرصے تک یعنی 22 سال شعبہ اردو میں اپنی خدمات انجام دیئے، آپ کی سرپرستی میں 30 سے زائد طالبعلموں نے ایم فل، پی ایچ ڈی مکمل کئے۔ 2017ء میں 22 سالہ تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد آپ ریٹائر ہوگئے۔ اس وقت آپ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی کے نمائندہ ششماہی رسالہ ”اردو“ کے مدیر ہیں۔ آپ پاکستان رائٹرز گلڈ سندھ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے ادبی خدمات میں مصروف عمل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے بیسوں ادبی انجمنوں کی سرپرستی بھی فرما رہے ہیں۔ شہر بھر میں منعقد ہونے والی ادبی نشستوں کی زیب و زینت آپ سے ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی اردو ادب کے دانشور ہیں اور آپ نے اب تک کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں دو شعری مجموعہ ”غبار گریہ، پسِ گرداب“ کوئن فراسو حیات اور خدمات، قصہ عشق افزا نسخہ علی گڑھ فراسو کوئن کا ٹلیب، بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ“ وغیرہ شامل ہیں اور کئی کتابیں طبع کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ انشااللہ بہت جلد یہ کتابیں بھی منظرعام پر آئے گی اور قارئین سے خوب داد وصول کرے گی۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ تحریک پاکستانی بیانیہ ہے، 2018ء میں اس تحریک کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس بیانیے نے علمی وادبی حلقوں میں ایک تہلکہ سا مچا رکھا ہے اور پاکستان کے مختلف حصوں میں اس پر تیزی سے کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ بقول شاعر ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
کی مصداق اب ڈاکٹر صاحب کے قافلے میں علمی وادبی لوگ تیزی سے شامل ہوتے جارہے ہیں اور سبھی ڈاکٹر صاحب کے اس نظریے سے متفق بھی ہیں اور پاکستانی بیانیہ کو ملک میں پروان چڑھانے کیلئے آئے روز سیمینار اور کانفرنس منعقد کرتے جارہے ہیں۔ ان سیمینار میں علمی وادبی شخصیات کے علاوہ سیاسی، مذہبی، علماوشعرا بھی کثرت سے شامل ہوتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت نہیں رکھتی یا جس قوم کا اپنا کوئی بیانیہ نہیں ہوگا وہ قوم ڈارک ایجس میں چلا جاتا ہے، دُنیا کی تمام قومیں اپنے بیانیہ کو اہیمت دیتی ہے اس لئے وہ قومیں ترقی کے زینے طے کرتی ہیں۔ اگر آج پوری دُنیا میں ”پالوکولو کا ناول الکیمسٹ“ مشہور ہے تو وہ قومی بیانیہ کی وجہ سے ہے ورنہ اسے اتنی مقبولیت نہیں ملتی اور نہ ہی 30 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوتا یا آپ امریکا کے معروف شاعر ”جان ٹرم بل“ کی شاعری دیکھئے اس میں بھی امریکا ہی کے بیانیہ سے جڑ کر شاعری کی، اس وجہ سے آج امریکا میں ان کا بہت بڑا نام بھی ہے اور خود امریکا سپرپاور بھی ہے۔ یا راجر بیکن، شیکسپئر، گلیلیو وغیرہ سبھی اپنے بیانیہ سے جڑا ہوا تھا، اس وجہ سے آج تک معروف ہے۔ بیانیہ اور شناخت کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب فن لینڈ نے موبائل بنایا تو اس نے اپنے دریا کے نام پر موبائل کا نام نوکیا رکھا تاکہ ملک ہی کی تہذیب و ثقافت مشہور ہوجائے لیکن یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ ہم دوسروں کی تہذیب وثقافت کو فروغ دینے کے پیچھے لگا ہوا ہے، جب تک ہم اپنی الگ شناخت نہیں بنائیں گے اس وقت تک ہم ترقی بھی نہیں کرسکتے۔ شاداب احسانی کی یہ کتاب ”بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ“ 92 نیوز کراچی کیلئے لکھے ہوئے کالموں کا مجموعہ ہے اور اس میں کل 42 کالم ہیں۔ یہ مجموعہ ڈاکٹر صاحب کی اس فلسفیانہ سوچ پر مبنی ہے جو آپ نے ایشیا اور افریقہ و یورپ کے ان ممالک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عمیق مطالعے اور گہری سوچ سے اخد کئے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ ملک کے تمام سیاسی ومذہبی، علمی وادبی تمام شخصیات کو کرنا چاہئے۔ بالخصوص پاکستان کے فکرمند طبقے اور تھنک ٹینکس جو ایک ایسے پاکستانی بیانیہ کے متلاشی ہیں جو ملک عزیز میں امن واستحکام اور خوشحالی وترقی چاہتے ہیں ان کیلئے یہ کتاب معاون مددگار ثابت ہوگی۔