Thursday, January 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عزل

چمن میں جس کو نہ دے اذنِ آشیانہ کوئی
بنائے جا کے وہ پنچھی، کہاں ٹھکانہ کوئی

قضا سے چوک بھی جائے اگر نشانہ کوئی
بنا ہی لیتے ہیں ناوک فگن بہانہ کوئی

سفر کی دھوپ میں گھر سے ہوا روانہ کوئی
نہ زادِ راہ، نہ منزل، نہ شامیانہ کوئی

یہ بوجھ کب ہے گرانی میں سہل شانہ کوئی
اُٹھا کے دیکھ لے بار غم زمانہ کوئی

زبونِ گردش دوراں ہیں لوگ کچھ ایسے
کسی کو یاد نہیں حرفِ عاشقانہ کوئی

ہراس ویاس کی ذہنوں پہ حکمرانی ہے
کھلے تو کیسے کھلے بابِ آستانہ کوئی

ہزار نوع کے پیدا ہیں وسوسے دل میں
کہاں ہے چین سے اب شہر میں گھرانہ کوئی

بسی ہوئی ہیں فضائیں صدائے شیون سے
بہشت گوش نہیں موج شادیانہ کوئی

یہ بجھ گیا تو اندھیرے عذاب ڈھائیں گے
ہوا کے رُخ پر نہ رکھے چراغِ خانہ کوئی

نظر جو دیکھ رہی ہے، سنا رہا ہوں میں
مری زبان پہ کاوشؔ نہیں فسانہ کوئی

کاوشؔ عمر

مطلقہ خبریں