ضمیر آفاقی
دی لیجنڈ آف مولا جٹ 100 کروڑ روپے کمانے والی پہلی پاکستانی فلم بن گئی ہے، معروف اداکار، رائٹر اور میزبان یاسر حسین کہتے ہیں کہ 1992ء کے ورلڈ کپ کے بعد پاکستان میں پیش آنے والی بہترین چیز ”دی لیجنڈ آف مولاجٹ“ کی ریلیز ہے اور اس فلم نے ہمارے اس دعوے کی بھی تصدیق کردی ہے جو ہم نے فلم انڈسٹری کے حوالے سے اپنے کالموں میں کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہمیں اگر بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنی، معاشی خودانحصاری کی طرف بڑھنا اور ملک سے انتہاپسندی، عدم رواداری، گھٹن، منافقت جیسی بند گلی سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں اپنی دو صنعتوں کی طرف توجہ ہی مبذول نہیں کرنی ہوگی بلکہ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، اگر آپ ان دو صنعتوں کو ترجیح بنیادوں پر اوپر لے گئے تو ایک طرف ملک خودانحصاری کی طرف بڑھے گا، زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا، کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی، ملک میں پیسے کی ریل پیل ہوگی اور خوشحالی بھی آئے گی۔ غربت دو وقت کا کھانا کھلانے یا مفت دسترخوان لگانے سے ختم نہیں ہوگی بلکہ غربت کام کاج کے ذرائع بڑھانے اور ماحول پیدا کرنے سے ختم ہوگی، اس کے لئے حکومت کو صرف پاکستان کی فلم اور سیاحت انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا، اس کی راہ میں حائل مشکلات کو ختم کرنا ہوگا، اگر حکومت صرف ان دو صنعتوں پر فوکس کر لے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان چند سالوں میں ایک مالدار اور امن پسند ملک کے طور پر دُنیا میں ابھرئے گا۔ دُنیا حقیقی معنوں میں یہاں پیسہ لگانے کے لئے بھاگی آئے گی۔ کبھی پاکستانی فلم انڈسٹری دُنیا کی پانچویں بڑی انڈسٹری تھی لیکن اب کس حال میں اور یہاں تک کس نے پہنچایا ہے اس پر تھوڑا سا غور کرنے کے بعد مرض کی تشخیص ہوسکتی ہے، اسی طرح ملک کی سیاحت پر 1979ء میں جو عروج تھا اس کا زوال کیوں ہوا؟ جیسے سوال بھی غور طلب ہیں سیاحت انڈسٹری کوکسی اگلے کالم میں ڈسکس کریں گے اس وقت فلم انڈسٹری کے عروج زوال پر کچھ بات ہوجائے۔
بتایا جاتا ہے کہ 1959-1977ء کے دوران پاکستانی سنیما پوری دُنیا میں چوتھے نمبر پر تھا۔ مگر 1978ء میں ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی سنیما کا زوال شروع ہوا۔ ضیاء الحق نے اپنی فہم کے مطابق پاکستان کی نئی بنیاد رکھنے کے لئے معاشرے کا ستیاناس کردیا، جس میں فلم انڈسٹری کا ختم ہونا بھی شامل ہے۔ اس نے اُردو فلموں کے دیکھنے پر ٹیکس اس قدر بڑھا دیا کہ لوگوں نے فلمیں دیکھنا ہی ختم کردیں اور یوں پاکستانی سنیما کا سورج غروب ہوگیا، اس کے زوال میں انتہاپسندی، دہشت گردی کے علاوہ بھی کئی عوامل شامل ہیں جس کا تجزیہ بھی ضرور ہونا چاہئے کہ معاشرے انسانی زوق کو تسکین پہنچائے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
پاکستانی فلمی صنعت گزشتہ تین چار دہائیوں سے جس زوال کا شکار رہی ہے، اس کے خاتمے کا آغاز 2013ء میں شعیب منصور کی فلم ”بول“ سے ہوا تھا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں عروج و زوال مجموعی طور پر کوئی نئی بات نہیں، لیکن خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس صنعت میں مسلسل تین عشروں تک اتار کے بعد چڑھاؤ کا تسلسل 2018ء میں بھی خوش آئند طریقے سے جاری رہا۔ پچھلے چند برسوں میں کئی انتہائی کامیاب فلمیں ریلیز کی گئیں، جو باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئیں۔ ان میں سے سب سے مشہور اور زیادہ بزنس کرنے والی فلموں میں ”وار“، ”میں ہوں شاہد آفریدی“، فرجاد نبی کی ”زندہ بھاگ“، کامیڈی تھرلر فلم ”نامعلوم افراد“، ”جلیبی“، ”تین بہادر“، مومنہ دورید کی ”بن روئے“، ”جوانی پھر نہیں آنی“، ”مور“، ”منٹو“، ”آزادی“ اور ”طیفا ان ٹربل“ شامل ہیں۔ 2016ء میں عاصم رضا کی ”ہو من جہاں“، اظہر جعفری کی ”جاناں“، نبیل قریشی کی ”ایکٹر ان لا“، عاشر عظیم کی ”مالک“، 2017ء میں ندیم بیگ کی ”پنجاب نہیں جاؤں گی“، شعیب منصور کی ”ورنہ“ اور فرحان اسلم کی ”ساون“ بھی خاص طور پر قابل ذکر رہیں۔ 2018ء بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کے لئے ایک اچھا سال رہا، جس دوران کئی فلمیں نہایت کامیاب رہیں اور متاثر کن کاروبار بھی کیا۔
ہالی اور بالی ووڈ میں تو فلمیں کئی سو کروڑ کا بزنس کرتی ہیں لیکن پاکستان میں بھی اب ایسی فلمیں سامنے آئی ہیں جنہوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کروڑوں کی حد پار کی ہے جس کا آغاز فلم ”پرچی“ سے ہوا تھا، اس فلم کا بجٹ پانچ کروڑ روپے تھا اور اس نے باکس آفس پر 17 کروڑ روپے کمائے۔ اس کے بعد عزیر ظہیر خان کی کارٹون فلم ”اللہ یار اور مارخور کی کہانی“۔ اس فلم نے باکس آفس پر قریب 5 کروڑ کمائے اور یہ خاص طور پر بچوں میں بہت مقبول ہوئی، ایک رومانٹک کامیڈی فلم ”مان جاؤ نا“ نے باکس آفس پر سوا تین کروڑ روپے کا بزنس کیا۔
جن فلموں نے مناسب بزنس کیا ان میں سے ایک فلم ”سات دن محبت اِن“، تھی، جس نے باکس آفس پر 13 کروڑ روپے کمائے تھے۔ ”طیفا اِن ٹربل“ نے 42 کروڑ روپے سے زائد کما کر پاکستانی سینما کی تاریخ میں چوتھی سب سے زیادہ رقم کمانے والی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ فلم ”پرواز ہے جنوں“ نے 40 کروڑ روپے کمائے۔ 2018ء میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم ”جوانی پھر نہیں آنی پارٹ ٹو“ تھی اس فلم نے دُنیا بھر میں 53.45 کروڑ سے زائد کا کاروبار کیا جس میں سے صرف پاکستان میں 38 کروڑ 35 لاکھ روپے اور بیرونِ مملک سے قریباً 15.1 کروڑ روپے کا بزنس کرکے اب تک قریباً 67 کروڑ روپے کما چکی ہے۔ پاکستان میں سال 2018ء کی آخری بڑی فلم، جس نے بے پناہ مقبولیت پائی وہ فلم ”ڈونکی کنگ“ تھی، یہ فلم 23 کروڑ روپے سے زائد کا کاروبار کرچکی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ دُنیا بھر میں فلمی صنعت ملکی معیشت میں کتنا بڑا کردار ادا کررہی ہے، اگر ہم اس انڈسٹری کو فروغ دیں تو پاکستانی فلم انڈسٹری ملکی معیشت میں دیگر ممالک کی طرح بہت بڑا کردار ادا کرنے کے ساتھ ملکی امیج کو بھی آگے بڑھا سکتی ہے۔ یہاں ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں کہ دُنیا بھر میں فلم انڈسٹری ملکی معیشت میں اپنا کردار کیسے ادا کر رہی ہے۔ امریکن فلم انڈسٹری نے گزشتہ سال $43 بلین ریونیو حاصل کیا تھا۔ برطانیہ میں فلمی صنعت کے فروغ اور شائقین کو فلموں کی جانب راغب کرنے کے لئے برٹش فلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اگلے پانچ برسوں کے دوران تقریباً پانچ سو ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ واضح رہے کہ آکسفورڈ اکنامکس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق برطانوی فلم انڈسٹری ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 1.6 بلین پاؤنڈ کی حصہ دار ہے۔
آٹھ ارب روپے مالیت سے بننے والی فلم ”مشن امپاسبل“ دُنیا بھر میں اب تک چالیس ارب روپے کا بزنس کر چکی ہے۔ چین کی فلم انڈسٹری نے صرف گزشتہ ماہ 6 اعشاریہ 87 ارب یوآن کی سینما ٹکٹس فروخت کرتے ہوئے شمالی امریکا کی فلمی صنعت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ دُنیا بھر میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی بالی ووڈ فلم ”دنگل“ جس کا بجٹ 70 کروڑ روپے تھا۔ اس فلم نے صرف تائیوان اور ہانگ کانگ سمیت چین بھر سے 1000 کروڑ سے زیادہ کمائی کی، اس فلم کا بزنس اب تک دُنیا بھر میں 2000 کروڑ کے آس پاس یعنی پاکستانی روپوں میں قریباً 32 ارب سے زائد ہوچکا ہے۔ دوسرے نمبر پر ”باہو بلی“ نے اپنے دیس میں سب زبانوں میں 1000 کروڑ کا ریکارڈ بزنس کیا۔ بالی ووڈ کی تیسری کامیاب ترین فلم کا نام ہے ”پی کے“ ہے، اس فلم نے دُنیا بھر میں 700 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا تھا۔ اس فلم کا بجٹ 75 کروڑ تھا، اس فلم نے چین میں سو کروڑ کمانے والی پہلی بالی ووڈ فلم کا بھی ریکارڈ بنایا تھا۔ چوتھی کامیاب ترین فلم ”بجرنگی بھائی جان“ ہے جس پر 90 کروڑ کے قریب لاگت آئی، ”بجرنگی بھائی جان“ نے دُنیا بھر میں 626 کروڑ کمائے، پانچویں نمبر پر فلم ”سلطان“ نے دُنیا بھر سے 590 کروڑکے قریب بزنس کیا جب کہ اسے بنانے میں بھی قریباً 90 کروڑ کا بجٹ لگا۔ فلم ”دھوم تھری“ پر 125 کروڑ کا خرچہ آیا اور اس فلم نے دُنیا بھر سے 500 کروڑ سے زیادہ کا بزنس کیا۔ بالی ووڈ کی ٹاپ ٹین فلموں نے دُنیا بھر سے 3750 کروڑ کا بزنس کیا جو کہ پاکستانی روپوں میں 60 ارب سے زائد بنتا ہے۔ اس مختصر مگر ہوش اڑا دینے والے جائزے سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی فلم انڈسٹری کو فروغ دے کر اپنے ملک کے کتنے مسائل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔