پاکستان پولیس فورس میں خواتین کے کام کرنے اور ان کی کارکردگی کو مزید بڑھانے کے حوالے سے کاوشیں جاری ہیں، عوام الناس میں آگاہی کے حوالے اور پولیس ریفارم کے لئے کام کرنے والا ادارہ روزن اور پاکستان فورم برائے ڈیموکریٹک پولیسنگ، پاکستان میں محکمہ پولیس میں شفافیت بڑھانے اور دیگر اصلاحات کے نفاذ کے سلسلے میں کافی عرصہ سے کام کررہا ہے
رابعہ خان
پولیس میں خواتین یا نفاذ قانون میں خواتین کی ضرورت دُنیا بھر میں محسوس کی گئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اولًا کہ ہر پیشے میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ موجودگی کا جنسی مساوات کے اصول اور عورتوں کی نمائندگی کی وجہ سے ضروری سمجھا جاتا ہے، کیونکہ خواتین خود کسی جرم کا شکار ہوسکتی ہیں، یہ گھریلو تشدد بھی ہوسکتا ہے اور اس کے آگے جنسی ہراسانی، جنسی بداخلاقی اور آبرو ریزی کی حد تک سنگین ہوسکتا ہے۔ اس میں وہ شدید جسمانی تشدد کا بھی شکار ہوسکتی ہیں۔ ایسے میں وہ بطور خاص خاتون پولیس اہلکار اور خواتین کے پولیس اسٹیشن پر اپنی شکایت بے جھجک سنا سکتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ان کا جسمانی معائنہ اور طبی معائنہ بھی خاتون افسروں کی موجودگی میں کیا جا سکتا ہے۔ تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار جرائم میں خود عورتیں ملوث پائی جاتی ہیں۔ وہ حراست یا قید میں رکھی جا سکتی ہیں۔ ایسے میں اگر وہ خاتون پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں رہیں تو ان خواتین کی جنسی یا کوئی طرح کی غیرضروری ہراسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ خواتین کی پولیس میں موجودگی کو ضروری سمجھا جانے لگا اور اس ضمن میں خواتین کے پولیس اسٹیشن وہ پولیس اسٹیشن ہیں جو خواتین متاثرین کے ساتھ جرائم کئے جانے پر کارروائی کرتے ہیں۔ انہیں پہلی بار 1985ء میں برازیل میں متعارف کرایا گیا تھا اور لاطینی امریکا میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لاطینی امریکی نقطہئ نظر کے مطابق برازیل کے ساؤ پالو میں پہلا خواتین پولیس اسٹیشن کھولا گیا۔ پاکستان پولیس فورس میں خواتین کے کام کرنے اور ان کی کارکردگی کو مزید بڑھانے کے حوالے سے کاوشیں جاری ہیں، عوام الناس میں آگاہی کے حوالے اور پولیس ریفارم کے لئے کام کرنے والا ادارہ روزن اور پاکستان فورم برائے ڈیموکریٹک پولیسنگ، پاکستان میں محکمہ پولیس میں شفافیت بڑھانے اور دیگر اصلاحات کے نفاذ کے سلسلے میں کافی عرصہ سے کام کر رہا ہے۔ اس ضمن میں پولیس فورس کو جدید ٹریننگ کے ساتھ ساتھ جسمانی اور تعلیمی تربیت کے کئی پروگراموں کا اہتمام کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ خواتین پولیس اہلکاروں کی تربیت اور ان کے مورال کی بلندی پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ روزن میڈیا پرسن اور دیگر مکاتب فکر کے ساتھ بھی خصوصی نشست کا اہتمام کرتا ہے تاکہ معاشرے میں اس بات کا شعور اُجاگر کیا جائے کہ خواتین کا پولیس میں جانا کیوں ضروری ہے۔ اسی حوالے سے روزن نے دو روزہ تربیتی سیشن کا اہتمام کیا جس کا مقصد صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکرز کو اس اہم مسئلے کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ان کو پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کرنا اور اس کا حل تلاش کرنا تھا، اس طرح کے سیشن میں عامل صحافیوں کو جہاں نت نئی معلومات میسر آتی ہیں، وہیں انہیں مسئلے کی اہمیت، نزاکت کو سمجھ کر اپنا بہتر کردار ادا کرنے میں معاونت ملتی ہے۔ روزن کی جانب سے اسپوکس پرسن محمد علی نے متعلقہ موضوع پر سیرحاصل بحث کی اور خواتین کا محکمہ پولیس میں جانے کے بارے میں تجربات اور اپنی فائنڈگ سے بھی آگاہ کیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی آبادی میں خواتین کی شرح 51 فیصد ہونے کی وجہ سے اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ خواتین کو پولیس فورس میں آنا چاہئے اور ان کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا جانا چاہئے۔ اگر انہیں مزید مواقع میسر آئیں تو اپنے تجربے اور معاشرے کے تعاون سے بڑے اور خطرناک جرائم کی روک تھام سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ پاکستان میں اب یہ شعور زور پکڑتا جارہا ہے کہ ریپ اور دیگر جنسی نوعیت کے جرائم کے مقدمات کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے ارکان میں خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی شامل کیا جائے، تاہم اس مطالبے کے برعکس ابھی بھی ایسے بیشتر مقدمات کی تفتیش مرد پولیس اہلکار ہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے 2017ء میں مظفرگڑھ میں ہونے والے ایک واقعے سے متعلق مقدمے میں فیصلہ دیا تھا کہ ریپ اور دیگر جنسی جرائم کے مقدمات کی تفتیش مرد پولیس اہلکاروں کی بجائے خواتین پولیس افسران سے کروائی جائے اور اگر وہاں پر خاتون پولیس افسر کو تفتیش کا تجربہ نہ ہو تو یہ مقدمہ ایسے ضلع میں بھجوا دیا جائے جہاں کی خاتون افسر کو سنگین مقدمات کی تفتیش کا تجربہ ہو۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے برعکس ابھی بھی پولیس کے اعلیٰ حکام سنگین جرائم کی تحقیقات خاتون پولیس افسر کے بجائے مردوں سے کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پولیس کے حکام ابھی تک اس خوش فہمی سے ہی نہیں نکل سکے کہ سنگین مقدمات کی تفتیش مرد پولیس افسر کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا۔
یہ خام خیالی ہے کہ خواتین پولیس آفیسر بہتر تفتیش نہیں کرسکتیں، کچھ عرصہ پیشتر قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی سربراہی ایک خاتون پولیس افسر ہی کر رہی تھیں جنہوں نے اس مقدمے کی تفتیش میں ملزمان کو بے نقاب کیا تھا۔ اب خواتین پولیس افسر بھی مرد پولیس افسروں کے ساتھ ہی تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کے لئے مختلف کورسز کرتی ہیں کیونکہ تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کے لئے بعض کورس لازمی ہوتے ہیں۔ سب انسپکٹر سے انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پانے کے لئے ہر پولیس افسر، چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، چار ماہ کا تفتیشی کورس مکمل کرنا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے والے یا والی کو اگلے رینک میں ترقی نہیں ملتی۔ اس کورس میں قتل، ڈکیتی، ریپ اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کرنے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں اقوام متحدہ کے امن مشن میں جو پولیس اہلکار خدمات سرانجام دینے کے لئے بیرون ممالک گئے ہیں ان میں پانچ خواتین پولیس افسران بھی شامل تھیں۔ پولیس میں سب انسپکٹر اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی آسامیوں پر بہت سی خواتین پبلک سروس کمیشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پولیس کا شعبہ اختیار کررہی ہیں جبکہ اس کے برعکس ماضی میں خواتین کا پولیس میں جانا بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل رہے ہیں اور اب تو مردوں کے تھانے کی انچارج بھی خاتون پولیس افسر کو لگایا جا رہا ہے۔ لاہو کے تھانہ لٹن روڈ، ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں کچھ تھانے ابھی ایسے ہیں، جہاں خاتون پولیس افسران کو تھانوں کا انچارج بنایا گیا ہے۔ انچارج پر بوجھ کم کرنے کے لئے قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کے لئے تھانے میں الگ سے تفتیشی سیل بنائے جاتے تھے جو اب ختم کر دیئے گئے ہیں اور قتل اور گینگ ریپ جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کی ذمہ داری بھی تھانے کے انچارج کو سونپ دی گئی ہے۔ خواتین پولیس افسران جنہوں نے تفتیشی کورس کئے ہوئے ہیں انہیں تفتیشی ٹیم میں شامل نہ کرنا یا انہیں مبینہ طور پر نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے خواتین پولیس افسران میں احساس کمتری بڑھ رہا ہے جس پر اعلیٰ افسران کو غور کرنا چاہئے بلکہ اے آئی جی جینڈر کی پوسٹ جو خالی پڑی ہے اس کو فعال کرنا چاہئے۔ رینکر پولیس افسران اور پولیس سروس آف پاکستان کے درمیان جنگ صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات خواتین پولیس اہلکاروں پر بھی پڑتے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ پورے صوبے میں پی ایس پی پولیس افسران کو سب ڈویژنل پولیس افسر تو تعینات کیا جاتا ہے لیکن کسی رینکر خاتون پولیس آفیسر کو ابھی تک حکام کی طرف سے یہ ذمہ داریاں نہیں دی جاتیں آخر کیوں؟۔