یہ الگ بات کیا سمجھتے ہیں
بات ہم بخدا سمجھتے ہیں
اتنے مانوس ہیں، اندھیرے سے
شمس کو بھی دیا سمجھتے ہیں
زندگی آپ کے لئے ہوگی
ہم اُسے حادثہ سمجھتے ہیں
اپنی تعلیم یہ نہیں، ورنہ
تجھ کو اِک ہاتھ کا سمجھتے ہیں
یہ، جو ہم تم کو دیکھتے ہیں ناں
ہم تمہیں آئینہ سمجھتے ہیں
جن کو سچ بولنے کی عادت ہو
لوگ اُن کو بُرا سمجھتے ہیں
بھیک میں جن کو مل گئی دستار
جانے وہ خود کو کیا سمجھتے ہیں
کامران صدیقی