Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

حکمت مسیحا کو سوچ میں پڑا پایا
ایک زخم بھرتے ہی دل نے دوسرا پایا

خیر سے یہاں میں نے جس کو ہمنوا پایا
آستین میں اس کی، سانپ اک چھپا پایا

عیش میں قرابت کا پاس کون رکھتا ہے
روشنی میں سائے کو جسم سے جدا پایا

دوستوں میں جس کی بھی میں نے آزمائش کی
سارے مطلبی نکلے، سب کو بے وفا پایا

اس دیار دانش کے جاہلوں سے زچ ہو کر
ہر زبانِ گویا کے لب کو بے صدا پایا

شاعروں کے بارے میں، شہریوں سے کیا کہئے
کس کو خودنما دیکھا، کس کو خود ستا پایا

اس جہاں کی بے مقصد بھاگ دوڑ میں کاوشؔ
اِس کو بھاگتا پایا، اُس کو دوڑتا پایا
——————————————

کاوشؔ عمر

——————————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل