حکمت مسیحا کو سوچ میں پڑا پایا
ایک زخم بھرتے ہی دل نے دوسرا پایا
خیر سے یہاں میں نے جس کو ہمنوا پایا
آستین میں اس کی، سانپ اک چھپا پایا
عیش میں قرابت کا پاس کون رکھتا ہے
روشنی میں سائے کو جسم سے جدا پایا
دوستوں میں جس کی بھی میں نے آزمائش کی
سارے مطلبی نکلے، سب کو بے وفا پایا
اس دیار دانش کے جاہلوں سے زچ ہو کر
ہر زبانِ گویا کے لب کو بے صدا پایا
شاعروں کے بارے میں، شہریوں سے کیا کہئے
کس کو خودنما دیکھا، کس کو خود ستا پایا
اس جہاں کی بے مقصد بھاگ دوڑ میں کاوشؔ
اِس کو بھاگتا پایا، اُس کو دوڑتا پایا
——————————————
کاوشؔ عمر
——————————-