Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

کیسے بھولوں یہ میرے بس میں نہیں
مجھ سے ناطے وہ تیرے بس میں نہیں

ایک میلہ ہے گہما گہمی کا
یہ غموں کے اندھیرے بس میں نہیں

نہ دیا نہ چراغ ہے کوئی
میرے گھر کے اندھیرے بس میں نہیں

سوکھی ٹہنی پہ سوکھے پتوں کے
عارضی ہیں بسیرے بس میں نہیں

کیسے گزرے گی زندگی ساری
ڈستی شامیں، سویرے بس میں نہیں

بارشوں کا بھی بوجھ تھا ان پر
اشک اتنے گھنیرے بس میں نہیں

میں اکیلا ہوں ساری دنیا میں
رشتے ناطے یہ میرے بس میں نہیں

شہر ڈوبے ہیں بستیاں ڈوبیں
کیا کریں یہ وڈیرے بس میں نہیں

میرے بس میں تو کچھ نہیں بزمیؔ
راتیں بے بس سویرے بس میں نہیں


شبیر بزمیؔ


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل