سارے منظر دل کے اندر
یوں ٹھہرے ہیں ساتھ
جیسے دن کے پیچھے فوراً
آ جاتی ہے رات
وقت کے سارے منظر دلکش
جو تھے یاد میں ٹھہرے
آج مجھے کچھ یوں ہے لگتا
جیسے سپنے سنہرے
لیکن جب ہے آنکھ کھلی تو
بس ہے اب برسات
سارے منظر دلکش تھے وہ
کس کو یاد رکھوں
نیند کے در پر دستک دوں یا
درد سے بات کروں
ایسے چلتے ہیں یہ منظر
ہر رستے پر ساتھ
جیسے میرا سایہ ہوں
جو رہے ہمیشہ ساتھ
سارے منظر دل کے اندر
یوں ٹھہرے ہیں ساتھ
جیسے دن کے پیچھے فوراً
آ جاتی ہے رات
———————
تسنیم مرزا