اِعرازِ شرف خود ہی لئے جاتا ہے
مے اپنی اَنا ہی کی پیے جاتا ہے
اوصاف کسی اور میں بھی تو ہوں گے
صرف اپنی ہی تعریف کئے جاتا ہے
اوصاف کے نغمات نہ تم گاؤ فقط
جو خیر ہیں اِس میں نہ وہ گنواؤ فقط
جو قوتِ شر اِس میں ہے وہ بھی تو دکھاؤ
تعریف ہی اس کی نہ کئے جاؤ فقط
آ تجھ کو بتاؤں میں یہ، تو کیسا ہے
اپنی ہی پرستش کا تجھے چسکا ہے
اوصاف پہ اوروں کے، تو رہتا ہے خموش
صرف اپنی ہی تعریف پہ خوش ہوتا ہے
پھر آپ ہی کیسے ہوئے فخر کونین
پھر کس لئے اظہار نجیب الطرفین
اک آدم و حوا کی جب اولاد ہیں سب
پھر جنگ ہے کیوں اچھے بُرے کی مابین
اِنسان کو پیشوں کے نہ قد سے ناپو
انسان کو اُس کے اَب و جد سے ناپو
اصلاً ہیں سبھی لوگ نجیب الطرفین
صرف آدم و حوا کی سند سے ناپو
کیوں بہتر و کم تر کے فسانے اب تک
تفریق کے ہیں کس لئے خانے اب تک
پیدا تو ہو سب ایک ہی ماں باپ سے تم
یہ بات ذرا سی نہیں جانے اب تک
دامانِ تہی اپنا نہ بھر سکتے ہوں
دریائے محن میں نہ اُتر سکتے ہوں
تو اُن سے مدد مانگ رہا ہے کم بخت!
جو اپنی مدد آپ نہ کر سکتے ہوں
زندانِ جہالت میں گرفتار ہیں خود
خوابیدہ ہمہ وقت ہیں ناچار ہیں خود
تو اُن سے سحر مانگ رہا ہے کم عقل
وہ لوگ جو سر تا پا شب تار ہیں خود
جان اپنی دے دیتا ہے نادانوں پر
اُن پیر نما جہل کے پروانوں پر
ہے لطف و عنایات کی اُن سے اُمید
جن کی گزر اوقات ہے نذرانوں پر
————————————————————–
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
————————————————————-