Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

وہ ایک ماں تھی

افسانہ
تحریر: حنیف باوا کہانی:پریتم سنگھ پنچھی
پریتم سنگھ پنچھی بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف لکھاری ہیں۔ ان کے افسانے زندگی کی تلخ حقیقتوں کے عکاس ہوتے ہیں اور انہوں نے وہی راستہ اپنایا جو منشی پریم چند اور کرشن چندر جیسے افسانہ نگاروں کا خاصا ہے۔ پنجابی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے اور اس زبان میں شعر بھی کہتے ہیں۔ پاکستان کے معروف ادیب حنیف باوا نے ان کی کہانی کا اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کہانی کا نام ہے ”وہ ماں تھی“۔ یہ ایک ایسے نابینا لڑکے کی کہانی ہے جو بھیک مانگتا ہے اور اولاد کی نعمت سے محروم ایک ماں اسے دیکھ کر اپنے غم بھلا دیتی ہے۔ وہ اس پہ مہربان رہتی ہے اور جب اُسے اپنے گھر لانے کا فیصلہ کرتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ملاحظہ کریں جذبوں، محبتوں اور تلخیوں سے بھرپور یہ کہانی۔
کوڑیا پل کے عین نیچے ایک نابینا لڑکا بیٹھا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ لوگوں کی اس گزرگاہ کے پاس بیٹھ کر ان کے پاؤں کی آہٹ پہچاننے کا عادی ہوگیا تھا۔ بارش ہو یا آندھی، سردی ہو یا گرمی، وہ کبھی ان موسموں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ موسم آتے اور اپنا اثر دکھا کر چلے جاتے۔ لیکن جب کوئی موسم بدلتا تو اسے ایک جھر جھری سی ضرور آتی۔ گوشت پوست کا یہ انسان لوگوں کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہا تھا۔ جب وہ بھوک سے نڈھال ہو رہا ہوتا تو وہ پل سے نیچے اترنے والے ہر شخص سے اُمید رکھتا کہ وہ اس کے پاس آکر رکے گا اور اس کی بھوک کا ازالہ کرکے آگے بڑھے گا۔ لیکن اکثر لوگ اس کی طرف کوئی دھیان نہ دیتے۔ یہ تمام کے تمام کسی نہ کسی جلدی میں ہوتے۔ کاروبار کے جھمیلوں میں پھنسے ان لوگوں کو شاید اس کا چہرہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ نڈھال اور مرجھایا ہوا سا چہرہ۔
لیکن دھیرے دھیرے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کا اسے گُر آ گیا تھا، وہ ٹین کے ایک ڈبے کو پورے زور سے کھٹکھٹا کر۔ بغیر کسی سرتال کے کوئی بھجن گا کر راہگیروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا۔ بھجن کے ٹوٹے پھوٹے سروں سے جب وہ اکتاہٹ محسوس کرتا تو رحم طلب لہجے میں کہتا۔ ”ماں! مجھے بھوک لگی ہے۔ ماں پیاس سے میرا گلا خشک ہو رہا ہے۔ ماں تو سنے گی بھی کیا؟“
اس کی یہ پکار پل پر چڑھتی ہوئی عورتوں کے پاؤں جیسے جکڑ لیتی۔ صبح ہوتے ہی گوردوارے کو جانے والی گوربانی کا ورد کرتی ہوئی مستورات دیکھتیں کہ جب ابھی رات کی آزردگی ختم بھی نہیں ہوئی ہوتی تو وہ مزید جلدی بیدار ہونے لگا تھا۔ اس کی آواز میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ سوز پیدا ہوگیا تھا۔ گورو کی دیوانیوں نے اسے ستنام کا جاپ کرنا بھی سکھا دیا تھا۔ صبح کے تازہ اور پُرسکون ماحول میں ستنام واہگورو کا ورداِن عورتوں کو بہت اچھا لگتا تو دھیرے دھیرے اس بھکاری کے ہاتھ پر پیسے جمع ہونے لگے۔
لیکن صبح نمودار ہوتے ہی وہ ستنام واہگورو کو بھول کر ماں کو پکارنا شروع کر دیتا کہتا۔
”میری ماں آ رہی ہے باپو بھی آئے گا۔ وہ تمام لوگ گاڑی میں سوار ہو کر آئیں گے۔ نہیں وہ تو مجھے لینے آ رہے ہیں … آ…ہا“۔
پھر جب وہ ریلوے سے اسٹیشن سے اچانک کسی گاڑی کی چیخ سنتا تو اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک در آتی۔ بھویں تن جاتیں۔ اس کی آواز میں اور زور پیدا ہو جاتا… ”ماں آ رہی ہے باپو آ رہا ہے… وہ میرے لئے بہت سی چیزیں لائیں گے۔ میری بہن بھجنی بھی آئے گی۔ میری ماں کے ساتھ اس کا چتکبرا بچھڑا بھی ہوگا۔ میں اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا نا۔ اس لئے اسے وہ اپنے ہمراہ لانا کبھی نہیں بھولے گی…“
پھر جب تھک ہار کر خاموش ہو جاتا تو اس کی آنکھوں سے کھارا پانی ٹپ ٹپ گرنے لگتا۔ لوگوں کی ایک چھوٹی سے بھیڑ اُسے گھیر لیتی۔ آپس میں کانا پھوسی کرتے لوگوں کی آواز سے وہ چوکنا ہو جاتا اور ایک معصوم سی مسکراہٹ ان تمام کا سواگت کرتی چند برس پہلے اس کا کٹھور دل یا مجبور باپ اسے کسی گاڑی میں چھوڑ گیا تھا۔
تمام گاؤں کو اس سال ایک سخت قحط نے آ لیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہاں کے ڈھورڈنگر مرنے لگے۔ کھیتوں میں اناج کی جگہ گھاس پھوس اور پوہلی نے لے لی تھی۔
تین روز سے وہ بھوکا پیاسا کسی نہ کسی طرح دہلی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا تھا۔ اور اس روز سے ہی اس نے کوڑیا پل کو اپنا ٹھکانا بنا لیا تھا۔
صبح دم گوردوارے جانے والی عورتوں میں ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اسے سب سے زیادہ پیار کرنے لگی تھی۔ جب دوسری عورتیں آگے بڑھ جاتیں تو وہ بڑے پیار اور لاڈ سے اس کی پشت پر تھپکی دے کر اس کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال جاتی۔ پہلے وہ اس کے لئے بھنے ہوئے چنے لاتی رہی پھر وہ کبھی پوریاں اور کبھی کوئی اور چیز پکا کر لانے لگی۔
ہر نئی سویر کو اب لوگ اسے صاف ستھرے لباس میں دیکھنے لگے تھے۔ اس کا پانی پینے والا نیا نکور کٹورا بھی کہیں سے آ گیا تھا۔ اب وہ نابینا لڑکا پہلے سے زیادہ خوش نظر آنے لگا تھا۔ اس کے چہرے کی زردی میں ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی اسے اپنا گھر نہیں بھولا تھا۔
ماں کو پکارتی ہوئی اس کی آواز پر اداس شام ایک پھٹے ہوئے ڈھول کی مانند سنائی دیتی۔ دوسرے بھکاری اس سے حسد کرنے لگے تھے۔ اندھیرا چھا جانے پر وہ جب نیند کی آغوش میں جانے لگتا تو کوئی نہ کوئی اس کا پانی کا کٹورا اُٹھا لیتا۔ کوئی اس کی چادر لوچ کر کے جاتا۔ اچانک آنکھ کھلنے پر وہ چیخ اٹھتا۔ لیکن دوسرے ہی روز جب اجنبی خاتون اس کی خالی جھولی بھر جاتی تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا۔
دن گزرنے کے ساتھ اس اجنبی خاتون کے دل میں اس سے ایک انس سا پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے ذہن میں بہت سی سوچیں جنم لیتی رہتیں وہ سوچتی کہ کیوں نہ اس لڑکے کو اپنے گھر لے جائے۔ کیوں نہ وہ اس کی آنکھوں کی روشنی بن جائے۔ ذات برادری اور دیگر لوگ اس کے بارے میں جو سوچتے ہیں، سوچتے رہیں۔ لیکن ایک بیٹے کی کمی نے اس کے کلیجے میں جو زخم لگائے ہیں وہ تو بھر پائیں گے نا۔
پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس عرصے میں وہ اپنے بیٹے کو بھلا نہیں سکی ہے؟ اس کا اکلوتا بیٹا ملک کی تقسیم کے وقت اس سے بچھڑ گیا تھا، جس کا آج تک کوئی پتا نہیں چل سکا تھا۔ جب بھی اسے اپنے بیٹے کی یاد ستاتی تو اس کا دل دہل سا جاتا اور وہ چیختی چلاتی رہ جاتی۔
خوشیوں سے بھرا اس کا گھر جیسے اسے پرایا سا لگ رہا تھا۔ بعض اوقات وہ بہت دیر تک تکیے میں چھپا کر آنسو بہاتی رہتی۔ اس کا خاوند کاروبار کے سلسلہ میں اکثر شہر سے باہر رہتا تھا۔ گھر میں نوکر چاکر اس کے احترام میں کھڑے رہتے۔ لیکن ان کے اس احترام اور ان کی خاطرداری سے اسے کوئی سکھ محسوس کرنا درکنار وہ تو کسی بھی قسم کے سکون کا احساس کرنا ہی بھول چکی تھی۔
جب رو رو کر اپنا من ہلکا کر لیتی تو وہ پھر واہگو رو کا نام لیتے ہوئے ہاتھ میں چھوٹی سی مقدس کتاب پکڑ کر منہ اندھیرے ہی گوردوارے کی جانب چل پڑتی۔ دوسری عورتیں جب چغلیاں کرکے اپنا اندر ہلکا کر لیتیں تو وہ کوئی بھی بات کرنے کی بجائے ان سے چار قدم آگے یا پیچھے رکھ کر ستنام کا ورد کرتی رہی، اس طرح اس کا چت مصروف اور دھیان بٹا رہتا۔
ایک روز اسے بہت بے چینی محسوس ہوئی۔ اس کا پتی شہر سے باہر تھا۔ تنہائی سے اسے ایک عجیب سا ڈر لگنے لگا تھا۔ ایک روز تو جیسے وہ تمام رات انگاروں پہ لوٹتی رہی تھی۔ وہ اپنی توجہ صحیح سمت پر نہ لا سکی تھی۔ گوربانی کے شبد اس کی زبان پر آتے ہی لڑ کھڑانے لگ جاتے۔ اس نے وہ تمام رات بجلی کے بلب کی روشنی میں بیٹھ کر گزار دی تھی۔
صبح وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی۔ تیزی سے کپڑے بدل کر تنہا ہی گوردوارے کی اور چل پڑی۔ پل پر چڑھتے ہی اس کے قدموں پر کچھ لرزا سا طاری ہوگیا۔ لیکن وہ حوصلے کو یکجا کر کے پل پر آ گئی۔ نابینا لڑکا سویا ہوا تھا۔ اس نے سوچا آج وہ کچھ جلدی آ گئی ہے۔ یہ وقت اس کے بیدار ہونے کا نہیں تھا۔ وہ اسی طرح سویا رہے تو بہتر ہے۔ اس کی گوردوارے سے واپسی پر وہ ضرور اُٹھ چکا ہوگا اور واہگوروکا نام جپ رہا ہوگا۔
گوردوارے کے سیوا دار اَبھی تک گوردوارے کا فرش دھو رہے تھے۔ گوروگھر کی اس پر یمکا کے اتنی جلدی یہاں پہنچنے پر وہ حیران تھے اور اس کی آمد کو نئے نئے معنی پہنا رہے تھے لیکن وہ ان کی نظروں سے بچتی ہوئی گوردوارے کے ایک کونے میں سکڑ کر بیٹھ گئی۔ اس روز اس نے اپنے من کی شانتی کے لئے گوروجی مہاراج سے دعائیں مانگیں۔ گوردوارے سے لوٹتے ہوئے وہ مصمم ارادہ کر چکی تھی کہ وہ اس یتیم کو آج ضرور اپنے گھر لے جائے گی۔ اس کا پوری طرح خیال رکھے گی۔ اسے دیکھ دیکھ کر جئے گی۔ رات بھر جاگتے رہنے کی بے زاری کو اس ارادے نے کافور کر دیا تھا۔ اس کے قدموں میں انتہا درجے کی پھرتی آ گئی۔ کبھی وہ اپنے سر کی اوڑھنی کو درست کرتی اور کبھی زبان سے پھسلتے ہوئے گوربانی کے مصروں کو جوڑتی ہوئی۔ کوڑیا پل سے اترتے وقت وہ دو ایک بار گرنے سے بچی۔ پل سے اتر کر اس نے دیکھا کہ وہ نابینا لڑکا ابھی تک چادر اوڑھ کر سو رہا ہے۔ کہیں وہ بیمار نہ پڑ گیا ہو۔ اس کے من میں تھوڑا سا شک گزرا لیکن دوسرے ہی پل وہ سوچنے لگی کہ رات دیر تک وہ دیگر بھکاریوں کے جھرمٹ میں گھر کر جاگتا رہا ہوگا۔ ایک تو وہ ہر کسی سے آسانی سے گھل مل جاتا تھا۔ دوسرے آنکھوں سے معذور اور سیدھا سادہ جان کر کوئی اسے لوٹ لیتا۔ اس اجنبی عورت نے اس نابینا لڑکے کو بڑے پیار سے تھپکا لیکن وہاں تو کوئی اور تھا جو ڈر کر اٹھ بیٹھا تھا۔ اس کے منہ پر کوہڑ کے داغ تھے۔ یہ کوئی دوسرا بھکاری تھا جو اس لڑکے کی صاف ستھری چادر میں لپٹا ہوا پڑا تھا۔ وہ پوچھتی رہ گئی کہ وہ نابینا لڑکا کہاں چلا گیا لیکن اس بھکاری نے اپنے میلے دانت نکوس کر کہا ”ہمارا نیند کیوں خراب کرتا ہے، ہم سونے کو مانگتا ہے“۔
اس عورت کے منہ سے شاید چیخ نکل جاتی لیکن نہ جانے وہ کیوں حواس باختہ سی ہو کر آگے بڑھ گئی۔ لیکن اسے اپنے پاؤں آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو اٹھتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے قدموں پر بھاری پتھر باندھ دیئے گئے ہوں۔ اب تو اس کے ہاتھ سے گوربانی کا کتابچہ بھی کھسکتا جا رہا تھا۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل