زیبا شہزاد
خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بااختیار بنانے سے ہماری مراد کیا ہے؟ تو اس سے مراد خواتین کے لئے تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا ہونا ہے، جو ان کا بنیادی حق ہے۔ خواتین کو ان کی زندگی کے بنیادی فیصلوں کا اختیار دینا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ عورت کے بغیر نامکمل ہے۔ عورت کی سیاسی و سماجی حیثیت تسلیم کئے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، لیکن بدقسمتی سے جنوبی ایشیا میں ابھی تک خواتین کو وہ اختیار نہیں مل سکا جو اسے ملنا چاہئے۔ اسے برابری کی بنیاد پر تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، نہ صحت کی سہولتیں۔ بیشتر ملازمتوں کے دروازے صنفی بنیاد پر ابھی تک بند ہیں۔ اس حقیقت سے نظر تو نہیں چرائی جا سکتی لیکن یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اس خطے میں خواتین کو کمتر درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں، یہاں خواتین کو قدم قدم پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کی ترقی پورے جنوبی ایشیا کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ یہاں کا مرد ذہنی طور پر خواتین کی آزادی ماننے سے انکاری ہے۔ وہ یہ بات قبول ہی نہیں کر پارہا کہ عورت انسان ہے۔ اس خطے کے مرد کے لئے خواتین صرف جنسی لذت کے حصول کا ذریعہ ہیں اور بس۔ دُنیا میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود جنوبی ایشیا میں خواتین کے لئے حالات سازگار نہیں ہوسکے۔
اس خطے میں کم عمر خواتین کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ پچاس فیصد خواتین کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں ان کی مرضی کے خلاف کر دی جاتی ہے۔ یہاں بچوں کی پیدائش کے معاملے میں بھی خواتین کو آزاد نہیں کیا گیا، حالانکہ اس کا معاملہ سراسر خواتین کی ذات سے جڑا ہے، لیکن اولاد پیدا کرنے کا معاملہ بھی صرف مرد اپنا حق سمجھتا ہے اور اس حق کا پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ زیادہ بچوں کی پیدائش سے خواتین کی صحت برباد ہوجاتی ہے۔ دنیا کے مقابلے میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح اس خطے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے کئے جانے والے کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خاص طور پر پسماندہ علاقوں کی خواتین کے لئے صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ صحت پر خرچ کیا جانے والا جی ڈی پی ایک فیصد ہے۔ بچے کی جنس کے حوالے سے بھی یہاں بے چینی دیکھنے میں آتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے قبل الٹراساؤنڈ سے جنس کا پتہ کر کے بچی کی صورت میں بیشتر لوگ حمل ساقط کروا لیتے ہیں۔ یہاں خواتین کو جنسی مسائل کا بھی سامنا ہے، خواتین پر ذہنی اور جسمانی تشدد عام ہے۔ جنسی تشدد بھی اس خطے کا اہم مسئلہ ہے۔ نوکری کرنے والی خواتین کو تو جنسی ہراسگی بھی فیس کرنا پڑتی ہے، لیکن گھر میں رہنے والی عورت بھی جنسی ہراسگی سے محفوظ نہیں، کیونکہ وہ اپنے قریبی مرد رشتہ داروں سے ہراساں ہوتی ہے۔ یہاں تو مرد اپنی شریک حیات پر بھی جنسی تشدد کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے پورے جنوبی ایشیا میں یہی حال ہے۔ یہاں خواتین کی تعظیم پر زور تو دیا جاتا ہے، لیکن ان کی عزت نہیں کی جاتی۔ خواتین پر مردوں کا غلبہ ہے۔ یہ تصور عام ہے کہ خواتین کا تحفظ صرف مرد ہی کرسکتے ہیں۔ عورت گھر کی چاردیواری سے باہر غیرمحفوظ سمجھی جاتی ہے۔ گو کہ اکثر خواتین گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔ شہر میں رہنے والی خواتین کو تعلیم کی سہولتیں میسر تو ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کو روزگار کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ خواتین کے لئے روزگار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی خواتین کو خود اپنے حقوق سے آگاہی نہیں۔ مذہب کے نام پر جتنی پابندیاں خواتین پر لگائی جاتی ہیں وہ تمام خودساختہ پابندیاں ہیں۔ مذہب اتنی پابندیاں نہیں لگاتا جتنی پابندیاں مذہب کے پیروکاروں نے خواتین پر لگا رکھی ہیں۔ اس خطے کی خواتین سماجی سطح پر تو محرومی کا شکار ہیں ہی، صنفی بنیاد پر اس کو خانگی سطح پر بھی محرومی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہاں خواتین کے مسائل پر بات نہیں کی جاتی، نہ ان کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا ہے اور نہ ان کے مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین اپنے حقوق کے لئے آٹھ مارچ کو خواتین کا دن مناتی ہیں، لیکن اس خطے میں خواتین کا یہ دن تضاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ خواتین اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں، نعرے لگائیں تو یہی نعرے ان کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا یہاں آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ اس خطے میں قدم قدم پر خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔
جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان میں خواتین کے اختیار کی بات کی جائے تو یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہم بہت پیچھے ہیں۔ اگرچہ یہاں خواتین کے حقوق کے لئے بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر دستخط بھی کئے جا چکے ہیں کہ یہاں خواتین کے حقوق کے لئے کام کیا جائے گا۔ خواتین کو ان کے حقوق فراہم کر کے انہیں ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے گا، تاہم ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے باوجود ان معاہدوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مغالطہ یہ ہے کہ خواتین کو حقوق دے کر کسی غیرملکی ایجنڈے کو تقویت دی جائے گی، حالانکہ خواتین کے مسائل کا حل ان کا بنیادی حق ہے اور عورت کو بنیادی حق دینا آئین میں لکھا ہے۔ عورت کا بنیادی حق تعلیم اور صحت کے مسائل یقینی طور پر حل طلب ہیں اور اس کے لئے ریاست کے ساتھ سول سوسائٹی کی تنظیمیں مل کر خواتین کی ترقی کے لئے کام کررہی ہیں، کیونکہ خواتین کی ترقی کا براہ راست اثر معاشرے پر ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق تک رسائی دی جائے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کوشش کرنا ہوگی۔ یہاں کی عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزادی دینا ہوگی۔ اپنی مرضی سے رہنے کی آزادی، اپنی مرضی کا مضمون پڑھنے میں آزادی، اپنا جیون ساتھی خود منتخب کرنے کی آزادی، جب کہ یہاں خواتین کو ہر بات میں پابندی اور جبر کا سامنا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک خواتین کو اختیار نہ دیا جائے، اس کے لئے صنفی مساوات کو ختم کرنا ہوگا۔ خواتین کو ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔ چائلڈ میرج ایکٹ کی ضرورت ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے صحیح معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں کی خواتین کو صحت اور انصاف کی سہولتیں ان کے گھر کی دہلیز تک دینا ہوں گی۔ خواتین پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو تو یہاں کی خواتین کو بااختیار بنانا ہوگا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغرب کی خواتین نے بھی اپنی بقاء کی جنگ کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، تب کہیں جا کر انہیں آزادی حاصل ہوئی ہے، تاہم اگر جنوبی ایشیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ یہاں کی خواتین جلد اپنا مقام حاصل کرلیں گی، کیونکہ یہاں کا مرد مغرب سے متاثر ضرور ہے، لیکن وہ مغرب جیسی آزادی اپنی خواتین کو دینے کے حق میں نہیں۔ اس خطے کی خواتین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں، دیکھیں وہ اس میں کب کامیاب ہوتی ہیں؟ خواتین کے مسائل کا حل مردوں کے تعاون سے مشروط ہے، تاہم ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں کی خواتین کا سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت میں تو خواتین وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہی ہیں۔ اس کے باوجود یہ خطہ خواتین کے لئے بدترین خطہ ہے، کیونکہ یہاں صرف مخصوص طبقے کی خواتین ہی آزاد ہیں، عام خواتین پر تو ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔