Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستانی معیشت پر آئی ایم ایف کا شکنجہ

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے تو پاکستان نکل جائے گا لیکن گزشتہ حکومت کی غلط معاشی پالیسی کی وجہ سے ملک کی معیشت جس گرے ایریا میں داخل ہوئی ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔ معیشت سے متعلق نئے نئے تجربات کئے گئے، ایف بی آر کا محکمہ شبر زیدی کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے معیشت کو تجربہ گاہ بنا دیا۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے ہاٹ منی کا نیا تجربہ کیا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بھی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ شوکت ترین کا تو ٹریک ریکارڈ ویسے بھی کوئی مثبت نہیں تھا، وہ خود بینک ڈیفالٹر ہیں مگر اپنا ایک بینک چلاتے ہیں، خزانہ کی وزارت سنبھالی تو اُس جانب توجہ نہیں دی جہاں معاشی بیگ میں چھید ہے۔ ناکارہ سرکاری اداروں کا بوجھ 600 ارب روپے ہے جنہیں یا تو چلانے کے قابل بنانا چاہئے یا فروخت کردینا چاہئے، بجلی کے شعبے میں سالانہ 300 ارب روپے لائن لاسز میں ضائع ہورہے ہیں، گیس میں نقصان 150 ارب کا ہورہا ہے، سرکلر ڈیٹ 4000 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ 50 ہزار ارب روپے کا قرضہ ہوچکا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود گزشتہ سال 14 ارب ڈالر کی اجناس درآمد کی گئیں۔ بجٹ خسارہ 38 کھرب روپے پر چلا گیا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ گزشتہ حکومت کی ساری توجہ رئیل اسٹیٹ کی ترقی پر رہی، رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ ڈیڈ ہوجاتا ہے۔ زمین، مکان خرید کر سرمایہ رولنگ میں نہیں رہتا، اس سے منسلک 70 شعبوں کی بات کی جاتی ہے کہ ان میں سرمایہ جاتا ہے، یہ انتہائی دعوے ہیں، آباد کے چیئرمین محسن شیخانی کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی ہے، انتہائی غلط اعدادوشمار ہیں، پاکستان کی 60 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے، جہاں کوئی کرائے کے گھر میں نہیں رہتا، مسئلہ 40 فیصد شہری آبادی کا ہے جس میں سے بھی 50 فیصد سے زیادہ اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور تقریباً 5 فیصد سرکاری گھروں میں رہتے ہیں۔ دُنیا میں کسی ملک کی مثال نہیں دی جاسکتی کہ وہ رئیل اسٹیٹ کی بڑھوتی سے ترقی کے منازل طے کر گیا ہو، ترقی کا دارومدار صنعت اور آئی ٹی کے شعبے سے ہے، ساتھ میں زرعی شعبہ اس کا معاون و مددگار بنتا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ موجودہ تجربہ کار حکمرانوں نے بھی معیشت پر بوجھ سرکاری اداروں، بجلی و گیس کے لائن لاسز پر کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو معاشی ابتری دور کرنے کا نتیجہ سمجھ لیا ہے، ٹافی اور لالی پاپ بیچنے والا پاکستان جیسے بڑے ایٹمی ملک کے معاشی فیصلے کررہا ہے، جس کی معاشی سوجھ بوجھ صرف ایک ٹافی کی فیکٹری ہے، شہباز حکومت ملکی معیشت کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو ماہرین ِمعاشیات کی ایک کمیٹی بنائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شامل ہوں، یعنی اس وقت چارٹرڈ آف اکنامی کی ضرورت ہے، قرض لے کر ملک چلانا دانشمندی نہیں، اس روش کو ختم کرنا ہوگا، حکومت اور اس کے تمام اداروں کو پروٹوکول کا خاتمہ کرنا ہوگا جو پیٹرول عام غریب مزدور کو 248 روپے لیٹر فراہم کیا جارہا ہے وہ سرکاری اہلکاروں، افسران اور اداروں کے سربراہوں کو مفت دستیاب ہے، یہ ناانصافی ہے، ظلم ہے، شہباز حکومت کو اس حوالے سے حکمت عملی بنا کر حتمی فیصلہ کرنا ہوگا، اشرافیہ کی مراعات کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہے گا، خدانخواستہ کبھی ڈیفالٹر ہوگئے تو اپنے اسٹرٹیجک اثاثوں پر کمپرومائز کرنا پڑے گا، عالمی ساہوکاروں کا ایجنڈا یہی ہے جسے ناکام بنانے کے لئے حکومت کو کام کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے فی الحال کوئی ایسے اشارے نہیں مل رہے کہ حکومت اس حوالے سے کچھ کرنے جارہی ہے۔ اس ملک کی معاشی کشتی میں کئی سوراخ ہیں، پہلے وہ بند کرنا پڑیں گے، تب جا کر بھنور میں گھری کشتی سنبھلے گی، ٹیکس کے شعبے میں رشوت خوری کا حجم بہت زیادہ ہے، ایک اندازے کے مطابق تقریباً ملکی معیشت کا 20 فیصد وہاں لٹ رہا ہے، اسی طرح پورٹس پر بیٹھے سرکاری مگرمچھ ملکی معیشت کا تقریباً 40 فیصد ہڑپ کر رہے ہیں۔ ایف بی آر کا فرانزک آڈٹ ہو تو تمام حقائق سامنے آجائیں مگر یہ کام کیسے ہو۔ دیانتداری کا کلچر تو مفقود ہوچکا، ایوبی زمانے سے کھاؤ کماؤ کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب اتنا پختہ ہوچکا ہے کہ بدعنوانی ایک انڈسٹری بن چکی ہے، جس میں ریاست کے تمام ادارے حصہ بقدر حبثہ وصول کررہے ہیں، اس کی ایک دلیل بحریہ ٹاؤن ہے جس کی ضابطگیوں کے لئے ریاست کے تمام ادارے مدد کو آئے اور معمولی جرمانہ وہ بھی قسطوں میں وصول کرنے کا فارمولا طے کروا کر مافیا کو بچا گئے، پاکستان تو کب معاشی طور پر تباہ ہوجاتا وہ تو بھلا ہو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا جن کی ترسیلات زر ملکی معیشت کے لئے آکسیجن کا کام کررہی ہیں۔ گزشتہ مالی سال 31 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجیں، اگر یہ ڈالر، درہم اور دینار پاکستان نہ آتے تو ہمارے ملک کو معاشی تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا، حکمران تو قرض لے کر مے پیتے رہے ہیں اور پیتے رہیں گے، اگر اب بھی کسی کو آنے والے کڑے وقت کا اندازہ ہوجائے تو وہ ملک کی معاشی سمت کا تعین کرکے ایک راہ متعین کردے، لیکن ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب فیصلے عوام کی ضرورت و خواہش کو مدنظر رکھ کئے جائیں، نظریہ ضرورت کو دفن کرنا پڑے گا، مربوط پالیسی مرتب کرکے اس میں تسلسل رکھنا ہوگا تب مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ حکومت کو صنعت اور اس میں ہونے والی جدید تبدیلیوں کا ادراک کرنا ہوگا، آٹوموبل صنعت کی بات کریں تو بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کا دور شروع ہورہا ہے، ملکی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی، توانائی کے بغیر کوئی بھی صنعت یہاں تک کہ زراعت بھی نہیں کی جاسکتی، سولر پینل اور ونڈ پاور کے خام مال پر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی، انہیں ٹیکس چھوٹ کی سہولت دینا ہوگی، ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا مگر ایک کار نہیں بنا سکے، یورینیم کے سینٹری فیوجز تو تیار کر لئے مگر سولر اور ونڈ انرجی میں درکار اشیاء نہیں بنا سکے، ان کو صنعت کا درجہ دے کر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، موبائل فونز کے استعمال میں پاکستان ایک بڑا ملک ہے، زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ اس کی درآمدات میں استعمال ہورہا ہے، اس کی پروڈکشن پر کام کرنا ہوگا، کمیونیکیشن فیلڈ میں ایک سے ایک ہیرا ملک میں موجود ہے، موبائل مارکیٹس میں جائیں ایک سے بڑھ ایک ٹیلنٹ نظر آئے گا، انہیں ایک نظام سے منسلک کیا جائے تو نتائج حیرت انگیز ہوں گے، حکومت کو اس حوالے سے ایک حکمت ِعملی ترتیب دینا ہوگی، بیرون ملک پاکستانی اس حوالے سے خاصے مددگار ہوسکتے ہیں، اُن کا سرمایہ رئیل اسٹیٹ کے بجائے مختلف صنعتوں کے فروغ کیلئے استعمال ہو تواس کا مثبت اثر پڑے گا، رئیل اسٹیٹ میں لگا کر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح حلال میٹ جس کا عالمی حجم 500 ارب ڈالر ہے، اس میں پاکستان کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہونا چاہئے مگر وہ ایک سے دو فیصد کے درمیان ہے، زرعی ملک کی وجہ سے لائیواسٹاک کا بڑا حجم ہے، حکومت لائیواسٹاک سے منسلک افراد کی حوصلہ افزائی کرے، انہیں سستی ویکسین، میڈیسن مہیا کرے تو آئیڈل قدرتی ماحول میں پلنے والے ہمارے حلال جانور کے دُنیا میں بڑے خریدار ہیں، حکومت صنعت جس میں ٹیکسٹائل، آٹوموبل، آئی ٹی، موبائل فونز، زراعت اور لائیواسٹاک پر فوکس کرے تو تین سے پانچ سال میں انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ فی الحال مہنگائی بڑا مسئلہ ہے، جس سے عوام اور حکومت دونوں پریشان ہیں، حکومت نادرا کی مدد سے دیہات اور شہروں میں موجود غریب و کم آمدنی والوں کا ڈیٹا آسانی سے لے سکتی ہے، موٹرسائیکل، رکشہ، چنچی رکھنے والوں کو 5 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دینے کا پروگرام مرتب کرے تو کچھ اشک شوئی ہوجائے گی، 2ہزار روپے کا جو محدود پروگرام شروع کیا گیا ہے وہ مفتاح اسماعیل کے پیشے کے لحاظ سے قوم کو لالی پاپ دینے کی کوشش ہے، تمام متاثرین تک یہ نظام نہیں پہنچ سکا ہے، شہباز شریف اس میں ذاتی دلچسپی لے کر اسے وسیع کریں، مفتاح اسماعیل کی بریفنگ پر یقین نہ کریں یہ صنعتکار ہیں وہ بھی ٹافی، لالی پاپ فروخت کرنے والے تو اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے وزیراعظم کو خود آگے بڑھ کر وژن بھی دینا ہوگا اور کام بھی کرنا ہوگا ورنہ دائیں بائیں والوں نے گزشتہ حکمران کو بھی سب اچھا کی خبر دی تھی لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف تھے، اب بھی ایسا ہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے نے ہر چیز کو متاثر کیا ہے، 2 ہزار روپے کا ریلیف مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے، شہباز شریف غریبوں، مزدوروں کا درد مفتاح اسماعیل سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، سیاسی حوالے سے بھی رسک انہی کا ہے، اگر عوام کی دادرسی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو آنے والے انتخابات میں ثمرات سمیٹیں گے ورنہ نقصان انہی کا ہوگا، مفتاح اسماعیل کا نہ کچھ داؤ پر لگا ہے نہ کسی قسم کا رسک ہے، انہوں نے حکومت کے خاتمے یا الیکشن میں ناکامی کے بعد بھی لالی پاپ ہی بیچنے ہیں، ساکھ تو شریفوں اور ن لیگ کی برباد ہوگی۔

مطلقہ خبریں