پہلے تو خود کا نام و نسب دیکھتا ہوں میں
پھر دل میں آپ ہی کی طلب دیکھتا ہوں میں
اب کون تجھ سے آ کے کہے میرا مدعا
وحشت سے خود کو مہر بلب دیکھتا ہوں میں
ورنہ تجھے بتاتا میں، کیا شے ہے بے رخی
افسوس دوست! حدِ ادب دیکھتا ہوں میں
جب کوئی مجھ کو حرفِ ملامت سے زخم دے
اِس ربطِ پائمال کو تب دیکھتا ہوں میں
دنیا! اسے پسند بہت ہے ترا طریق
ورنہ تیرے وجود کو کب دیکھتا ہوں میں
میں کب تک انتظار کی دہلیز چومتا
وہ شخص کہہ رہا تھا کہ اب دیکھتا ہوں میں
وحشت میں کوستا ہوں دلِ نامراد کو
جب اپنے دل میں اس کی طلب دیکھتا ہوں میں
شاید تمہارے ہجر کی زحمت قریب ہے
دل میں کسی فشار کی چھب دیکھتا ہوں میں
عبدالرحمن واصف